نقصان اور خسارے سے جان چھڑائے بنا معیشت درست نہیں ہو سکتی،خسارہ دور کرنا ہے تو ان سرکاری کارپوریشنوں کی نجکاری کرنا ہو گی جو سالانہ کئی سو ارب کا نقصان پہنچا رہی ہیں۔ریلوے کو ہی دیکھ لیںیکم جولائی سے 31 دسمبر 2022 کی مدت کیدوران خالص خسارہ 977 ارب روپے تھا ۔ دوسرے ادارے پی آئی اے کی سن لیں،مالیاتی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ قومی کیریئر کا خسارہ اس سال کے پہلے تین مہینوں میں 2022 کے اسی عرصے کے مقابلے میں 171 فیصد زیادہ ہے۔اس نقصان کا حجم 38 ارب روپے کے لگ بھگ ہے۔رواں سال کے پہلے تین ماہ کے دوران قومی کیریئر صرف 61 ارب روپے کمانے میں کامیاب رہا۔روپے کے مقابلے ڈالر کی قدر بڑھنے سے پی آئی اے کو 21 ارب روپے کا نقصان الگ ہوا۔رواں سال اپریل میںقومی اسمبلی کو بتایا گیا کہ پاکستان سٹیل ملزکا مجموعی سالانہ نقصان 206 ارب روپے رہا ہے۔یہ تینوں وہ ادارے ہیں جن کی بحالی پر سابق حکومتوں نے اس لئے کھربوں روپے خرچ کر دئیے کہ یہاں ملازمتیں دے کر لوگوں سے ووٹ لئے جاتے تھے۔ 1970 کے عشرے میں تمام بڑی نجی صنعتوں اور یوٹیلٹیز کو ایک پروگرام کے تحت حکومتی ملکیت میں لے لیاگیا، جسے قومیانے کا پروگرام کہا جاتا ہے نچلے طبقات کو بنا تربیت بااختیار بنانے کی یہ کوشش پاکستان میں معاشی تباہی کا باعث بنی۔ 1977 میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے خاتمے کے بعد ڈی نیشنلائزیشنکے مطالبے نے زور پکڑا، اگرچہ جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے ایک کمیشن قائم کر دیا لیکن 1990 تک کوئی بھی غیر ملکی نجکاری کا پروگرام شروع نہ ہوا۔نجکاری پروگرام کا آغاز 22 جنوری 1991 کو نواز شریف حکومت نے آزاد منڈی کے معاشی اصولوں، نجی ملکیت اور ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے کیا ۔ لیکن بد انتظامی اور دوست نوازی کی وجہ سے قومی دولت کا ایک اچھا سودا نام نہاد کاروباری برادری کے نسبتاً چھوٹے گروپ کے ہاتھ میں چلا گیا، جس نے بے نظیر بھٹو کے شروع کئے پروگرام کو روک دیا۔پرویز مشرف آئے تو 1999 میں نجکاری پروگرام پر نظرثانی کی گئی اور بالآخر 2004 میں وزیر اعظم شوکت عزیز کی نگرانی میں نجکاری پروگرام کا آغاز کیا گیا۔ آخر کار یہ پروگرام 2007 کے آخر میں مؤثر طریقے سے ختم ہوا جب وزیر اعظم شوکت عزیز کے ذریعے 80%–90% صنعتوں ، کاروباری اداروں کو نجی ملکیت کے حوالے کر دیا گیا۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے خاتمے کے بعد غیر ملکی سرمایہ کاری کی رفتار اور تقاضوں نے زور پکڑا ۔پیپلز پارٹی کی حکومت نے سیمنٹ، سٹیل اور کھادوں کو ترجیح دیتے ہوئے ایک مضبوط پبلک سیکٹر بنایا تھا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کے خاتمے کے بعد جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے ایک وائٹ پیپر جاری کیا، جس کے بعد پاکستان انڈسٹریل کریڈٹ اینڈ انویسٹمنٹ کارپوریشن (PICIC) کے چیئرمین این ایم یوکیلی کی سربراہی میں کمیشن قائم کیا گیا۔ تاہم، صرف تین صنعتیں اس کے حقیقی مالکان کو واپس کی گئیں، جن میں اتفاق گروپ آف انڈسٹریز میاں محمد شریف کے حوالے کیا گیا جبکہ باقی حکومت کے کنٹرول میں رہیں۔اس وقت معاشی ترجیحات درست کر لی جاتیں تو باقی ادارے بھی ترقی کرتے۔1988 میں بے نظیر بھٹو نے ڈی نیشنلائزیشن پروگرام یا معیشت کو لبرلائز نہیں کیا۔ نجکاری پروگرام اس وقت متنازع بنایا گیا جب چیف جسٹس افتخار چودھری نے سٹیل ملز کی نجکاری میں رکاوٹ ڈالی۔نجکاری پروگرام اب بھی "بڑے" تنازعات کا شکار ہے۔ عوامی حلقوں میں اس کے متعلق غلط فہمی موجود ہے، اس موضوع نے بہت گرما گرم بحثوں کو جنم دیا ۔ عام تاثر سول سوسائٹی میں انتہائی متنازعہ اور منفی جذبات کو بڑہاوا دے رہا ہے۔کئی اداروں میں قومی خزانہ جھونکا جا رہا ہے لیکن بہتری دکھائی نہیں دیتی۔اگرچہ نجکاری پروگرام نے مسابقت کو فروغ دینے اور ترقی کا نسبتاً تیز اور موثر طریقہ پیدا کیالیکن دوسری طرف اس پروگرام کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس نے بے روزگاری میں غیرمعمولی اضافہ کیا۔ زندگی کی ضروریات اور محنت کش طبقے کی سماجی حیثیت کو گرا کر غریب سے غریب تر کرنے میں کردار ادا کیا۔دیکھا جائے تو یہ سچ نہیں۔مسابقت نہ ہونے اور کام کا ماحول تباہ ہونے کی وجہ سے سرکاری شعبے میں کام کرنے والی کارپوریشنوں نے ایک خاص مفاد پرست طبقہ پیدا کیا جو حکومتوں کو دباو میں رکھ کر فوائد پاتا،یہ فوائد عام مزدور تک کبھی پہنچنے نہیں دئیے گئے۔کاروباری ماہرین نجکاری کے متعلق تجاویز پیش کرتے رہے ہیں۔ ان تجاویز میں کہا جاتا رہا ہے کہ پی آئی اے، پاکستان سٹیل ملزاور پاکستان ریلوے قومی خزانے پر بوجھ ہیں اور تینوں اداروں کا سالانہ خسارہ اتنا ہے کہ اگر ان کی نجکاری کر دی جائے تو پاکستان کے پیچیدہ مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ پاکستان ریلوے کی جائیداد کا تفصیلی جائزہ پیش کرتے ہوئے ماہرین بتاتے ہیں کہ بھارتی حکومت نے اپنی ریلوے کی نجکاری کی ہے جسے ٹاٹا گروپ نے خریدا تھا اور وہاں محکمہ وریلوے ملازمین کی زندگی میں بہت زیادہ مراعات کے ساتھ بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔ اگر ہم ایسا کر لیں تو ہمارا قومی خسارہ کافی حد تک کم ہو سکتا ہے۔ جنوری 2023 میں پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 242 ملین ڈالر تک پہنچ گیا، جو مارچ 2021 کے بعد کی کم ترین سطح تھی۔ اس کے علاوہ، کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی بڑی وجہ، ملکی برآمدات کے مقابلے میں ملک میں درآمدات کا دوگنا ہونا ہے، گزشتہ سال 20 ارب ڈالر کا خسارہ تھا کیونکہ 80 ارب ڈالر کی درآمدات کے مقابلے برآمدات اور ترسیلات مجموعی طور پر 60 ارب ڈالر تھیں اور اگر ترسیلات زر کو چھوڑ دیا جائے تو نقصان 40 ارب ڈالر سے زیادہ ہو گا۔ان حالات میں پی آئی اے، بند پڑی پاکستان سٹیل ملز، پاکستان ریلوے کو کھلی نیلامی کے ذریعے فروخت کیا جائے اور ان اداروں کی نجکاری سے حاصل ہونے والی رقم سے ملک پر واجب قرضے کا بڑا حصہ اتاراجا سکتا ہے۔ بنڈل آئرلینڈ جو کہ آمدنی کا اچھا ذریعہ ہے لیکن اس پر کام نہیں کیا گیا اور اسے سیاست کی نذر کر دیا گیا، جب تک سرکار کی مالیاتی الجھنیںکم نہیں ہوتیں بڑے اوراچھے فیصلوں کی استعداد بحال نہیں ہو گی اور پاکستان اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہو سکے گا۔