مکرمی ! پاکستان میں گھریلو تشدد کا مسئلہ بہت بڑا مسئلہ بن گیا ہے ملک میں ایک اندازے کے مطابق تقریبا 20 ہزار گھریلو ملازمین ہیں جن میں کئی ہزار بچے مالکان کے تشدد کا شکار ہوتے ہیں تشدد کے یہ واقعات پوری قوم کاسر شرم سے جھکا دیتے ہیں غریب لوگ اپنی معاشی مجبوری کی وجہ سے جلاد لوگوں کے گھروں میں اپنے بچوں کو ملازمت کے لیے رکھواتے ہیں جبکہ یہ بدبخت لوگ ان کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں 2016ء میں اسلام آباد میں طیبہ کیس کا واقعہ پیش ہوا طیبہ اسلام آباد میں گھریلو ملازمت کا کام کرتی تھی مگر اس پر تشدد کیا گیا اس کو رسی سے باندھ کر اس گھر کے بدبخت اور جلاد لوگ مارتے تھے جبکہ اس ملازمہ کی عمر 12 سال تھی اس وقت کے چیف جسٹس اور پاکستان ثاقب نثار نے نوٹس لیا اور تشدد کرنے والے مالکان کو سزا ہوئی مگر پاکستان میں گھریلو ملازمہ پر تشددنہ رک سکا بلکہ اب تو معمول بن گیا ہے مگر اب 2023 میں جج کے گھر کمسن ملازمہ پر وحشیانہ تشدد کا مقدمہ سامنے آیا بچی کا نام رضوانہ ہے جو کہ جج کے گھر ملازمت کرتی تھی بچی کے سر سمیت جسم کے ہر حصے پر زخم کے نشانات تھے جب بچی کو ہسپتال داخل کروایا گیا تو ڈاکٹر نے بتایا کہ بروقت علاج نہ ہونے پر اس کے زخم بہت خراب ہو گئے ہیں پاکستان میں یہ مسئلہ تشدد اختیار کرتا جا رہا ہے گھریلو ملازموں کو کم اجرت پر رکھا جاتا ہے اور ان پر تشدد بھی کرتے ہیں مگر ان معاملات پر حکومت کوئی ایکشن لیتی نظر نہیں آرہی ہر سال ایسے بے تحاشہ واقعات پیش آتے ہیں مگر ان میں کئی ایسے واقعات ہیں۔حکومت کی طرف سے گھریلو ملازمین کو ان کے حق کی پوری حفاظت ملنی چاہیے اور تشدد کے خلاف کاروائی عمل میں لائی جائے۔(عاطف بشیرلاہور)