بھارت کے کثیرالاشاعت انگریزی اخباردی ہندو نے بھارتی دفاعی حکام کے حوالے سے لکھا ہے کہ اروناچل کے علاقے توانگ میںچینی فوج نے بھارتی فوجیوں پرچڑھائی کی۔چینی فوج نے اروناچل پردیش میں لائن آف ایکچول کنٹرول (ایل اے سی) پر بھارتی فوج پرکئے گئے اس حملے میں بھارت کے کم ازکم تین درجن فوجی زخمی ہوئے ہے جن میں 20فوجیوں کی حالت انتہائی نازک بتائی جاتی ہے ۔بھارتی فوج کے ترجمان نے اروناچل پردیش میں چین کے ساتھ لگنے والی سرحدپرچینی فوج کے ہاتھوں بھارت کوپڑی مار کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ یہ جھڑپ 9 دسمبر 2022 کو ہوئی تھی۔ان کاکنہاتھاکہ 9 دسمبر کو چین کی لبریشن آرمی (پی ایل اے) کے دستے نے اروناچل پردیش کے توانگ سیکٹر میں بھارتی فوج پرحملہ کردیا۔ حزب اختلاف گانگریس نے پارلیمنٹ میں سوال اٹھایاکہ اروناچل پردیش سے جو خبریں آ رہی ہیں وہ تشویشناک ہیں اور چینی فوجیوں نے بھارتی علاقے پرچڑھائی کردی ہمارے درجنوں اہلکاروں کوزخمی کردیا لیکن اس کے باوجود مودی سرکارنے کئی دنوں تک ملک کو اندھیرے میں رکھا، جب سرمائی اجلاس چل رہا ہے، پارلیمنٹ کو اس صورتحال سے کیوں آگاہ نہیں کیا؟کیوںمودی سرکارنے اتنے دنوں تک تصادم کی معلومات کیوں چھپائی۔یادرہے کہ مقبوضہ کشمیر کے صوبہلداخ کی وادی گلوان میں 15 جون 2020 کو دونوں ممالک کے فوجیوں کے درمیان پر تشدد تصادم ہواتھاجس میں20 بھارتی فوجی ہلاک اور 100سے زائد اہلکار زخمی ہوئے تھے۔ واضح رہے کہ بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے19فروری 2022 بروز ہفتہ کو جرمنی کے شہرمیونخ منعقد سیکورٹی کانفرنس’’ ایم ایس سی ‘‘میںبحرالکاہل پر ایک بحث میں حصہ لیا، جس کا مقصد یوکرین پر نیٹو ممالک اور روس کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی پر وسیع بات چیت کرنی ہے۔ مباحثے سے تقریر کرتے ہوئے بھارتی وزیرخارجہ نے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ چین کے ساتھ بہت مشکل وقت گزر رہاہے:ہندوستان کو چین کے ساتھ مسئلہ ہے اور مسئلہ یہ ہے کہ1975 سے 45 سال تک سرحد پر امن تھا، بارڈر مینجمنٹ مستحکم تھی، کسی فوجی کی جان نہیں گئی۔ہم نے چین کے ساتھ سرحد یا لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر فوجی دستے تعینات نہ کرنے کے معاہدے کیے تھے لیکن اب چین بدل گیا ہے اس نے ان معاہدوں کی خلاف ورزی کی ہے۔چین کی بھارت کو بار بار پٹائی سے بھارت انتہائی خوفزدہ ہے اوروہ گذشتہ تین برسوں کے دوران چین کے خلاف امریکہ سے ہرقسم کاتعاون لے رہاہے۔ چین کیطرف سے مقبوضہ کشمیر کے صوبہ لداخ یامتنازعہ ریاستوں اروناچل پردیس اورسکم میں چین کوئی بڑی فوجی کاروائی نہ کربیٹھے بھارت امریکہ کی منت ترلے کررہا ہے کہ اسے چین کے کسی ممکنہ حملے سے بچایاجائے چنانچہ امریکہ نے بھارت کوچینی حملے سے بچانے کے لئے ’’کواڈ‘‘کے نام سے ایک اتحاد تشکیل دیاجس میں امریکہ، آسٹریلیا ، جاپان اوربھارت شامل ہیں۔ بھارت سمجھتاہے کہ اس نئے اسٹریٹیجک اتحاد سے ہی وہ چین سے بچ سکتاہے۔یہ اتحاد جب سے بنا تب سے اس نے ایک ہی رٹ لگارکھی ہے کہ چین خطے میں اقتصادی اجارہ داری قائم کرنے اور فوجی سرگرمیوں کے ذریعہ صورت حال کو تبدیل کررہاہے۔ مبصرین کاکہناہے کہ جب سے بھارت کوچین کے عزائم کایقین گیا ہے کہ چین اسے کچاکھاجائے گاتواس نے اپنی حفاظت کے لئے ایک حصار بنالی جوبھارت پر چین کی کسی بھی حملے کے خلا ف سکیورٹی کی ایک نئی دیوار ثابت ہوگی ۔ کواڈ کا مرکزی اوریک نکاتی ایجنڈا یہی ہے۔بھارت کے اسٹریٹیجک امور کے ماہرین اب کواڈ پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی بھارت نے چین سے ملحق اپنی سرحدوں پر بنیادی ڈھانچے کی ترقی تیز کردی ہے۔ دوسری طرف چین کواڈ کو اپنی اقتصادی ترقی اور اثر و رسوخ کو روکنے کی کوشش کے طور پر دیکھتا ہے۔ مبصرین کاکہناہے کہ امریکہ کی قیادت میں کواڈبناکربھارت چین کو اشارہ دے دیا ہے کہ ہم تمہیں روکنے کے لیے دوسروں کے ساتھ ہاتھ ملانے کے لیے تیارہیں۔ کواڈ کے بحرالکاہل کے امریکی کمانڈرچین کے خلاف اس طرح بولتے ہیں کہ جیسے وہ امریکہ کے نہیں بھارت کے فوجی کمانڈر ہیں۔ ہند بحرالکاہل میں امریکی فوج کے کمانڈنگ افسر جنرل چارلس اے فلین نے12جون 2022کو نئی دہلی کا دورہ کیا۔ نئی دہلی میں صحافیوں سے بات چیت انہوں نے کہا کہ مشرقی لداخ میں جس تیزی سے چین کی عسکری سرگرمیاں جاری ہیں وہ خطرے کی نشاندہی کرتی ہیں۔ان کا کہنا تھاکہ مجھے یقین ہے کہ سرگرمی کی یہ سطح آنکھیں کھول دینے والی ہے۔ میرے خیال سے جو کچھ بھی بنیادی ڈھانچہ تیار کیا جا رہا ہے وہ تشویشناک ہے۔ ان کے تمام فوجی ہتھیاروں سے متعلق بالآخر یہ سوال پوچھنا ہی پڑتا ہے: آخر یہ کیوں ہو رہا ہے؟ اور اس کے پیچھے ان کا مفاد کیا ہے؟امریکی جنرل کا کہنا تھا کہ اسی طرح کے چیلنجز کے مد نظر بھارت اور امریکہ جیسے ممالک مل کر کام کر رہے ہیں اور مشترکہ مشقوں کا انعقاد کر رہے ہیں جو باہمی تعاون کو بہتر بنا رہی ہیں۔چین نے مشرقی لداخ میں چینی انفراسٹرکچر سے متعلق امریکی جنرل کے بیان کو ’’آگ میں ایندھن‘‘ ڈالنے کے مترادف قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ۔ چین کی وزارت خارجہ اپنے سخت رد عمل میں، لداخ سے متعلق ایک امریکی جنرل کے بیان کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ امریکی جنرل کا بیان قابل نفرت فعل قرار دیا۔چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لیجیان نے امریکی جنرل کے بیان کے رد عمل میں کہاکہ سرحدی مسئلہ چین اور بھارت کے درمیان ہے، دونوں فریق اس مسئلے کو بات چیت کے ذریعے مناسب طریقے سے حل کرنے کی خواہش اور صلاحیت بھی رکھتے ہے، تاہم کچھ امریکی حکام اس معاملے میں آگ میں ایندھن ڈالنے کا کام کرنے کے ساتھ ہی انگلیاں اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بھارت پر چین کی تازہ چڑھائی سے صاف واضح ہورہا ہے کہ چین کسی کواڈ کو خاطر میںنہیں لارہااوروہ کل کی طرح آج بھی سکم اوراورناچل پردیش کوچین کے علاقے سمجھتاہے اوران کے حول کیلئے پرعزم ہے ساتھ ساتھ چین کشمیریوں کی تحریک آزادی کا طرفدار ہے اوروہ لداخ کومقبوضہ جموں وکشمیرکاحصہ مانتاہے ۔