مان لیجئے‘ ہم بحیثیت قوم اللہ تعالیٰ کے عذاب اور عتاب کی زد میں ہیں۔ ہم نے اپنے سیاسی تماشوں‘ ذاتی مفادات کے کھیل‘ معاشرتی بگاڑ پیدا کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرنے کا شوق‘ قومی مفاد کو قربان کرنے کی روش سے سب کچھ برباد کر بیٹھے ہیں۔ جو کچھ جس انداز میں ہوا اس سے ہمارے پورے انتظامی ڈھانچے، حکومتی بھرم‘ اتھارٹی اور ساکھ کو برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ 9 اور 10 مئی کو جس طرح محض چند سو لوگوں نے فوجی تنصیبات‘ اہم رہائش گاہوں‘ نجی و سرکاری عمارتوں کو جلا کر راکھ کیا وہ ہمارے انتظامی بریک ڈائون اور حکومتی پسپائی کی کہانی سنا رہی ہے۔ پارلیمان اور عدلیہ بھی ٹکرائو کی کیفیت سے نکلنے کے لیے ہاتھ پائوں مار رہی ہیں ۔ان افسوسناک واقعات نے جو 9 اور 10 مئی کو ہوئے‘ کئی نئے سوالات پیدا کردیئے ہیں اورکئی الجھی ہوئی گتھیوں کو سلجھانے کے امکانات کو معدوم کر دیا ہے۔ جہاں ایک طرف انصاف کے اعلیٰ ترین منصب کی غیر جابنداری پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں وہاں دوسری طرف ادارے اپنی ساکھ اور وقار کو دائو پر لگانے والوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کے لیے صف آرا ہو گئے ہیں۔ سیاسی میدان سے اٹھنے والے گرداب میں ایک دوسرے پر تنقید کے تیر چلائے جا رہے ہیں۔ ان دو دن کے واقعات نے بہت کچھ بدل دیا ہے۔ دوسری طرف حکومت اس سوال کا جواب دینے میں پسپا ہورہی ہے کہ وہ انتظامی رٹ‘ ساکھ اور اتھارٹی کو کیوں نہیں قائم کر سکی۔ ذرا ایک لمحے کے لیے اپنے اختلافات بھلا کر یہ تو سوچیں کہ اس ملک کی آزادی حاصل کرتے ہوئے ہمارے آبائو اجداد اپنی آنکھوں میں کیا خواب سجائے ہوں گے۔یہی کہ ان خوابوں سے محبت اخوت یکجہتی باہم افہام و تفہیم اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی سنہری اور روپہیلی دھنک نکلے گی لیکن یہاں جو کچھ ہوتا رہا اور ہورہا ہے وہ سب اس کیے برعکس ہے۔ ہم کہاں نفرت‘ فرقہ واریت‘ علاقائیت‘ ذات پات‘ مذہبی اور لسانی تفریق میں پھنس کر رہ گئے۔ اختلاف رائے کو ہم نے دشمنی میں بدل لیا۔ سیاسی تفریق ہمیں مارے مرنے پر اکسا رہی ہے۔ عوامی لیڈروں کی ضد‘ تکبر اور ہٹ دھرمی نے اس ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے ہماری پوری تاریخ کا سبق یہ ہے کہ ہم نے کبھی تاریخ سے سبق نہیں سیکھا۔ انہی دائروں میں ہوتا یہ سفر اذیت ناک اور تباہ کن بھی ہے۔ اس لیے آپ دیکھ لیں کہ ہمارے معاشرے میں اوپر سے نیچے تک جھوٹ اور منافقت رچ بس گئی ہے۔ ہم اپنے مفادات کے لیے جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرنے میں چیمپئن ہیں۔ اسی لیے ہمارے قول و فعل میں تضاد ہے۔ قوم سیاستدانوں اور حکمرانوں کو اپنے رہنما مانتی ہے اور یہی رہنما ان کی وابستگی اور جذبات سے کھیلتے ہیں ان میں ہیجان برپا کرتے ہیں ان کی توانائیوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں اور مجھے یہ دیکھ کر انتہائی تکلیف ہوتی ہے کہ ان کے یہ مداح اس محبت کی برجستگی میں اپنے لیے ناقابل عبور مشکلات گھڑی کرلیتے ہیں۔ اگر گزشتہ دنوں حکومتی اتحاد اور پی ٹی آئی کے مابین مذاکرات نتیجہ خیز ہو جاتے تو اس جھوٹی سچی جمہوریت کا ڈھونگ شاید آگے کی جانب گامزن ہو جاتا ان مذاکرات کے نتیجے میں شاہ محمود قریشی اور فواد چودھری نے حکومت سے بڑی قابل ستائش ڈیل حاصل کرلی تھی کہ بجٹ پیش کرنے کے 10 سے 15 دن کے بعد قومی اسمبلی تحلیل کردی جائے گی اور یوں اکتوبر سے قبل ہی ایک ساتھ عام انتخابات کے انعقاد کی راہ ہموار ہو جائے گی لیکن نہ جانے عمران خان نے کیا سوچ کر اسے حکومتی وعدوں کا ایک ٹریپ قرار دے کر اپنی مخصوص اکڑ میں مسترد کردیا۔ درحقیقت وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ 15 مئی کو پنجاب میں انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کو نہ ماننے کی پاداش میں وزیراعظم شہبازشریف کی نہ صرف چھٹی ہو جائے گی بلکہ وہ ہمیشہ کے لیے نااہل ہو جائیں گے۔ اس سلسلے میں عمران خان جتنے فیصلے کرتے رہے یا جو کچھ کہتے رہے اس کا مقصد اور مطلب یہ نہیں تھا کہ فوج سیاست میں کوئی کردار ادا نہ کرے اور غیر جانبدار رہے بلکہ سیدھا سیدھا یہ تاثر قائم کیا جائے کہ وہ حق او رسچ پر ہیں اس لیے فوج اپنا وزن ان کے پلڑے میں ڈال کرانہیں اقتدار میںلائے۔ درحقیقت عمران خان یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ اپنے سوشل میڈیا کے ہتھیار کو وہ جس برق رفتاری اور رائے عامہ کو اپنے حق میں ڈھالنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں وہاں تندہی اور تیزی میں ان کا سوشل میڈیا نہ صرف فائول کر رہا ہے بلکہ کئی بار ریڈ لائن عبور کرنے کی غلطی کا مرتکب بھی ہورہا ہے ایسی چومکھی لڑائی میں کئی محاذوں پر ایک ساتھ غیر متوازن انداز میں آگے بڑھنے کی کوشش میں ٹھوکر لگنی ایک فطری امر تھا۔ ایسی لڑائی میں اپنے حریف کی قوت کا اندازہ کرنے کی غلطی عموماً پچھتاوا بن جاتی ہے اور عمران کے ساتھ ہی کچھ ہوا۔ رہی سہی کسر 9 اور 10 مئی کے ہونے والے واقعات نے نا صرف پوری کر دی بلکہ عمران خان خود اپنی زد میں آ گئے۔ ارادہ کیا تھا سوچا کیا تھا اور ہو کیا گیا۔ عمران خان اپنی گرفتاری کے بعد ہونے والے واقعات پر یوں ردعمل دے رہے ہیں کہ جیسے جو کچھ ہوا وہ اس سے لاعلم ہیں۔ اب وہ شاید بہت ہی ہوشیاری اور چالاکی سے یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس وقت ملک میں دو ہی فیصلہ کن قوتیں ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فوجی کمان کی تبدیلی کے بعد نئے آرمی چیف نے اپنے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ فوج سیاست سے دور رہے گی اور اس میں بھی شک نہیں کہ فوج نے بڑی جدوجہد اور استقامت سے جس حد تک ممکن تھا خود کو سیاست سے الگ رکھنے کی کوشش کی اور یہ بھی کہ فوج کسی سیاسی مفاہمت کے لیے دستیاب نہیں رہی لیکن پھر بھی عمران خان فوج پر مختلف نوعیت کے الزامات لگانے میں کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرتے رہے جب اسلام آباد پولیس عمران خان کو وارنٹ دکھا کر گرفتار کرنے گئی تو زمان پارک میں جو کچھ ہوا وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ لگتا یہ ہے کہ عمران کے عمل اور ردعمل کا سلسلہ براہ راست الزام کے بعد شروع ہوا۔ شاید انہیں اس بیان کے بعد اندازہ بھی تھا کہ جواب بھی آئے گا جو آیا۔ پھر عمران خان نے مسٹر آئی ایس پی آر کی اصطلاح بھی متعارف کرائی۔ ایک طرف عمران خان اپنی گرفتاری سے لے کر قتل کے منصوبے کا ذکر کرنے تک اپنے مداحوں کو یہ بتاتے رہے کہ وہ ہر گناہ سے پاک ہیں۔اپنی گرفتای کے حوالے سے اپنے لوگوں کو بھی کسی ردعمل کے لیے بھی تیار کر رہے تھے لیکن عمران خان یہ حقیقت فراموش کر گئے کہ بعض اوقات جسے آپ اپنی طاقت سمجھ رہے ہوتے ہیں وہ آپ کی کمزوری بن جاتی ہے۔وہ یقینا سوچ رہے ہوں گے کہ پھر غلط شاٹ کھیل گئے۔ ٭٭٭٭٭