پاکستان کے نگران وزیراعظم ا نوار الحق کاکڑ نے قوم کو پہلا تحفہ دے دیا ہے۔14اگست 2023کو حلف اٹھانے کے ایک دن بعد انہوں نے عوام کو پہلی سہولت فراہم کر دی ہے ۔پٹرول کی قیمت میں 17روپے 50پیسے اور ڈیزل کی قیمت میں 20روپے فی لیٹر اضافہ کر دیا گیا ہے۔ اس سے پہلے سابقہ حکومت جاتے جاتے آخری تحفہ دے گئی تھی۔یکم اگست 2023کو پٹرول کی قیمت میں 20روپے کا اضافہ کیا گیا تھا یعنی کہ اگست کے پہلے 15دن میں عوام کو ساڑھے 37روپے فی لیٹر جشن ازادی کی تیاریوں کے سلسلے میں تحفے میں دیے گئے ہیں۔ گزشتہ 18ماہ سے جو عوام دوستی کا سلسلہ جاری ہے اس میں نگران حکومت نے کوئی کمی نہیں آنے دی اور انہوں نے اپنی حکومت کا اغاز وہیں سے کیا ہے جہاں سے پچھلی حکومت نے چھوڑا تھا۔ خدا کا شکر ہے کہ روپیہ اپنی ٹرپل سینچری مکمل کر گیا ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ آنے والے ایک سال میں ہم ڈالر کے سلسلے میں 500کا ہدف بڑی آسانی کے ساتھ پار کر لیں گے۔ اگر پچھلی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو18ماہ میں ہم ڈالر کے سلسلہ میں300تک آگئے ہیں اور پیٹرول میں 150روپے سے 290روپے تک پہنچ گئے ہیں۔ پیٹرول کے سلسلہ میں بھی بڑی قوی امید ہے کہ ہم ان چھ ماہ میں چار سو روپے فی لیٹر کا ہدف حاصل کر لیں گے۔ پاکستان معاشی ترقی میں جو ریکارڈ قائم کر رہا ہے وہ ساری دنیا کے لیے ایک منفرد نمونہ ہے۔ سری لنکا نے جو اہداف ڈیفالٹ ہونے کے بعد حاصل کیے تھے ہم بغیر ڈیفالٹ کے بڑی تیزی کے ساتھ ان اہداف تک پہنچ رہے ہیں۔ ابھی ہمیں آئی ایم ایف سے صرف تین ارب ڈالر ملے ہیں اور پیٹرول کی قیمت میں 50روپے کے لگ بھگ اضافہ ہو چکا ہے ۔ٹی وی ٹاک شو میں اپوزیشن کے سابقہ لیڈر راجہ ریاض فرما رہے تھے کہ الیکشن 15فروری سے10دن پہلے یا 10دن بعد میں ہو سکتے ہیں ۔اس طرح الیکشن میں ابھی چھ ماہ کا عرصہ باقی ہے اور ہمارے مقتدر حلقوں کی رائے کے مطابق الیکشن سے پہلے معاشی استحکام بہت ضروری ہے اور اس سلسلہ میں بڑی قوی امید ہے کہ ہم ان چھ ماہ میں وہ اہداف حاصل کر لیں گے جتنے ہم نے پچھلے 18ماہ میں حاصل کیے ہیں۔ ملک کو سابقہ حکومت نے ڈیفالٹ سے بچا لیا تھا ۔یہ الگ بات ہے کہ عوام کا ڈیفالٹ ہو چکا ہے۔ بجلی کے بل آسمانی بجلی کی طرح عوام پر گرے ہیں۔ اس وقت عام سے غریب آدمی کا بل 7ہزار سے لے کے 15ہزار کے درمیان میں ہے اور جس گھر میں ایک ادھ اے سی چلتا ہے اس کا بل 25ہزار سے لے کے 35ہزار تک ہے۔ اس وقت کسی بھی گھر کی کمائی کا 30فیصد بجلی کے بلوں کی صورت میں جا رہا ہے اور جو آدمی ایک لیٹر پیٹرول موٹر سائیکل میں ڈلواتا ہے تو اس کا پیٹرول کا بل بھی 10ہزار روپے ماہانہ کے قریب ہے۔ جس آدمی کی تنخواہ 30ہزار ہے اس میں سے بیس ہزار روپے صرف پٹرول اور بجلی کی صورت میں جا رہے ہیں۔ اب باقی 10ہزار میں وہ مکان کا کرایہ دے گا یا زندگی کی دیگر ضروریات خریدے گا۔ ویسے تو حکومت کے اراکین ایک فقرہ بہت آسانی کے ساتھ بولتے ہیں کہ ان اقدامات سے عام آدمی کی زندگی پہ کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ہمیں آج تک وہ عام آدمی نہیں ملا جو مہنگائی سے متاثر نہیں ہوتا، جس کو بجلی کے بل کا کوئی فرق نہیں پڑتا، جس کو پٹرول کی قیمت بڑھانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ،جس کو ڈیڑھ سو روپیہ کلو آٹا لینے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہمیں تو ہر وقت خاص آدمی ملتے ہیں جو ان چیزوں کے چھوٹے چھوٹے اضافے پہ پریشان ہو جاتے ہیں ۔اس وقت ملک میں دو طبقے ہیں ایک طبقہ عوام کا ہے اور دوسرے طبقے میں اشرافیہ ہے، جس میں چیدہ چیدہ سیاست دان، میڈیا کے افراد اور دیگر طاقتور لوگ شامل ہیں ۔اس وقت عوام بہت بری حالت میں ہیں جبکہ جو دوسرا طبقہ ہے اس کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ وہ اپنی زندگی بڑے آرام سے انجوائے کر رہے ہیں۔ ملک سے باہر ان کی جائیدادیں ہیں ۔بچے باہر پڑھ رہے ہیں اور وہ پاکستان کی دم توڑتی معیشت میں سے خون کی آخری بوندیں نچوڑ رہے ہیں۔ میڈیا کے کچھ افراد کے لئے انوار الحق کا نگران وزیراعظم کے طور پر نام آنا اچنبھے کی بات ہے۔ اس میں حیران ہونے والی کون سی بات ہے ؟ان کا نام وہاں سے ہی آیا ہے جہاں سے دیگر نام آتے ہیں۔ انوار الحق کاکڑ صاحب تو بیچارے صرف پانچ چھ ماہ کے وزیراعظم ہیں ادھر سے تو پانچ پانچ سال کے لیے بھی وزیراعظم آتے رہے ہیں۔ ضیاء الحق نے جب 1985میں غیر جماعتی الیکشن کروائے تھے تو کس کو پتہ تھا کہ محمد خان جونیجو پاکستان کے اگلے وزیراعظم ہوں گے۔ اسی طرح جب مشرف کے دور میں 2002میں پاکستان مسلم لیگ قائد اعظم نے اقتدار سنبھالا تو کس کے گمان میں تھا کہ ظفراللہ خان جمالی پاکستان کے وزیراعظم ہوں گے۔ شوکت عزیز نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا کہ وہ پاکستان کے وزیراعظم بنیں گے۔ اسی طرح معین احمد قریشی کو بھی کبھی وہم نہیں گزرا کہ وہ پاکستان کے نگران وزیر اعظم بن سکتے ہیں۔ ان کے پاس تو پاکستان کا پاسپورٹ بھی نہیں تھا۔جب شہباز شریف جیل جانے کے بجائے وزیراعظم ہاؤس جا سکتے ہیں تو پاکستان میں کچھ بھی ممکن ہو سکتا ہے۔ آج کل کہا جا رہا ہے کہ نگران وزیراعظم کا تعلق بلوچستان سے ہے، اس طرح چھوٹے صوبوں کا خیال رکھا جا رہا ہے۔ اب سینٹ کا چیئرمین بھی بلوچستان سے ہے اور آنے والے چیف جسٹس کا تعلق بھی بلوچستان سے ہے۔ اس طرح ملک کے تینوں بڑے عہدے بلوچستان کے پاس ہیں ۔آنے والے دنوں میں بلوچستان ویسے بھی کافی اہمیت حاصل کرنے والا ہے کیونکہ جہاں پہ میلہ لگنا ہوتا ہے وہاں خیمے پہلے ہی گاڑنے شروع کر دیتے ہیں ۔اب بلوچستان کی معدنیات خبروں کی زد میں ہیں۔ ملک کی معیشت کا پہیہ ان معدنیات سے چلے یا نہ چلے لیکن خبروں کا پیٹ تو کافی دن تک چلے گا۔ پہلے بھی ہم سیمٹک ریکوڈک کے نام پر دو دو چار چار سال قبروں کو چلا چکے ہیں۔ ویسے بھی اس وقت میڈیا کے پاس بات کرنے کو کچھ ہے نہیں تو چلیں سینڈک کا ہی ذکر ہو جائے۔ ابھی تک اہل اقتدار کو یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ عام آدمی کے مسائل کیا ہیں۔ ان کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہے کہ کس کو گرفتار کیا جاتا ہے اور کس کو رہا کیا جاتا ہے۔ اس وقت عام آدمی کا مسئلہ روٹی ہے۔انوارالحق کاکڑ ایک تعلیم یافتہ اور نفیس انسان ہیں۔ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ الیکشن کو وقت پہ کروائیں گے۔ایک سیاسی فرد کا اس عہدے پہ ہونا ایک اچھی علامت ہے۔