پیپلز پارٹی تاریخ میں دوسری بار کسی انتخابی عمل کا بائیکاٹ کرنے جا رہی ہے۔ یہ اطلاع بڑی تعجب خیز ہے۔پیپلز پارٹی نے 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ جنرل ضیاء کے منعقد کرائے ان انتخابات سے دور رہ کر پیپلز پارٹی نے اپنا سیاسی نقصان کیا۔بھٹو والاپنجاب پہلی بار اس کے ہاتھ سے اسی وقت نکل گیا تھا۔غیر جماعتی بنیادوں پر کامیاب ہونے والے افراد نے پارٹیوں سے وابستہ امیدواروں کا اثرورسوخ چھین لیا۔1988-89ء میں جب عام انتخابات ہوئے تو تاریخ نے ثابت کیا کہ پیپلز پارٹی کا بائیکاٹ والا فیصلہ غلط تھا۔بے نظیر بھٹو غلطیوں سے سیکھنے والی رہنما تھیں۔ انہوں نے دوبارہ یہ غلطی نہیں کی۔ان کی پالیسی کا تسلسل 2008ء کے انتخابات میں بھی نظر آیا جب جماعت اسلامی‘ تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن نے بائیکاٹ کا اعلان کیا۔مجھے یاد ہے۔عمران خان نے ہم پانچ چھ لوگوں کو زمان پارک والے گھر مدعو کیا تھا۔نذیر ناجی‘ عباس اطہر اور اطہر ندیم صاحب کی موجودگی میں‘ میں نے عمران خان سے انتخابی عمل کے بائیکاٹ پر مختصر سا مکالمہ کیا اور ان کے فیصلے کو غلط قرار دیا۔شائد عمران خان خود بھی سمجھ چکے تھے کہ وہ غلط فیصلہ کر چکے ہیں لیکن تب تک دیر ہو چکی تھی۔بے نظیر بھٹو قتل ہو چکی تھیں۔آصف علی زرداری نے خود رابطہ کر کے میاں نواز شریف کو انتخابات میں شرکت پر آمادہ کر لیا۔ جن لوگوں نے بھی عمران خان کو بائیکاٹ پر آمادہ کیا تھا انہوں نے پیپلز پارٹی کی اتحادی حکومت بنانے کا منصوبہ سوچ رکھا تھا۔بے نظیر بھٹو کی شہادت پر ہمدردی کے ووٹ کے باوجود پارٹی تنہا حکومت بنانے کے قابل نہ تھی۔مسلم لیگ ن کو انتخابات میں حصہ لینے پر آمادہ کرنے کے لئے پی پی نے جو رابطے کئے ان کا فائدہ اسے حکومت سازی کے وقت ہوا۔ پی ڈی ایم کا خیال ہے کہ قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات کا کوئی فائدہ نہیں۔40نشستوں پر انتخابات سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے پی ٹی آئی اراکین کے استعفے منظور کرنے پر کرائے جا رہے ہیں۔پی ڈی ایم اصل میں مسلم لیگ ن کی فرنچائزڈ ہے۔گاہکوں کو دھوکہ دینے کے لئے اس نے نئی دکان کھول لی ہے۔ اس دکان میں سیکولر اور مذہبی ‘ دونوں طرح کا مال دستیاب ہے۔پیپلز پارٹی اس بار بھی اپنے اصولی موقف پر کھڑی تھی کہ انتخابات میں شرکت ضرور کی جائے۔کئی علاقوں میں پارٹی امیدواروں نے جھنڈے اور بینر لگانے شروع کر دیے تھے۔میرا خیال تھا کہ مسلم لیگ ن اور اس کے 11اتحادی اگر بائیکاٹ کرتے ہیں تو شائد پیپلز پارٹی موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے۔40میں سے ایک یا دو نشستوں پر بھی پیپلز پارٹی جیت جاتی تو اگلے انتخابات سے قبل اس کی واپسی کا ماحول بن جاتا۔ مسلم لیگ ن اپنی زندگی پوری کر چکی ہے‘ بلوچستان اور سندھ سے اس کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔حالیہ بلدیاتی انتخابات میں مسلم لیگ نون کو نصف درجن سے بھی کم نشستیں ملیں۔جانے وزیر اعظم شہباز شریف کس مار پر ہیں کہ انہوں نے نوجوان بلاول بھٹو زرداری کو اپنے ہاتھوں میں کر لیا ہے۔وہ بلاول کو حکومتی اجلاسوں میں اہمیت دیتے ہیں۔بلاول کی ہر فرمائش پوری کرتے ہیں۔بدلے میں کچھ تقاضا نہیں کرتے۔وہ بلاول سے کچھ نہیں مانگیں گے‘ بس اس کی سیاسی قوت ہتھیا لیں گے۔اپنی اس حکمت عملی کا پہلا اظہار انہوں نے بلاول کو ضمنی انتخابات کا بائیکاٹ کرنے پر آمادہ کر کے دکھا دیا ہے۔جو کام بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری نے نہیں کیا بلاول اس کے لئے تیار ہو گئے۔پیپلز پارٹی کے کچھ سیانے بلاول سے کہہ رہے ہیں کہ وہ پی ڈی ایم کی انتخابی بائیکاٹ مہم کا حصہ نہ بنیں۔ میری پی ڈی ایم کے کچھ لوگوں سے بات ہوئی ہے۔یہ لوگ پالیسی معاملات پر گفتگو کرنے میں حد درجہ محتاط ہو رہے ہیں۔ مسلم لیگ نون میں سے ش اور میم برآمد ہو چکی ہیں۔ش کا کوئی مستقبل نہیں۔حمزہ بددل ہو کر الگ بیٹھ گئے ہیں۔ میم کچھ عرصہ چلے گی لیکن پوری پی ڈی ایم کو خدشہ ہے کہ ضمنی انتخابات میں اگر پی ٹی آئی ایک بار پھر جیت گئی تو پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کے اتحاد کے غیر مقبول ہونے پر مہر لگ جائے گی۔2022ء کے ضمنی انتخابات نے پہلے ہی حکومت کے حق حکمرانی پر سوال اٹھا رکھے ہیں،ضمنی انتخابات میں شکست ہوئی تو ان حلقوں کی حمایت سے بھی محروم ہونا پڑے گا جو حکومت سے اپنی سیاسی مقبولیت بڑھانے کا مسلسل مطالبہ کر رہے ہیں۔مریم نواز ان ہی کے مطالبے کی وجہ سے بہاولپور اور ملتان میں جلسہ کرنے گئیں‘ اسی سلسلے میں وہ ایبٹ آباد گئیں لیکن ان کے جلسے شادی ہال اور ٹینٹوں کے اندر ہونے سے بہت برا تاثر گیا ہے۔وہ مسلم لیگ ن کی چیف آرگنائزر کے طور پر رابطہ عوام مہم پر ہیں۔اب تک کی صورت حال بتاتی ہے کہ حکومت اپنی مقبولیت کی حقیقت جان چکی ہے ،اسی لئے مریم نے کہہ دیا یہ ان کی حکومت نہیں۔ پی ڈی ایم کو صرف عمران خان سے مقابلہ درپیش نہیں۔مہنگائی ‘ معیشت کی تباہی اور بری کارکردگی بھی پی ڈی ایم کے مخالفین سے ہاتھ ملا چکی ہیں۔ پی ڈی ایم اور اس کی اتحادی جماعتیں بھلے کتنی ہی سمجھداری سے کام لیں حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ کم از کم ووٹ لے کر یہ جماعتیں دوبارہ اقتدار میں نہیں آ سکتیں۔ ہاں اقتدار کی خاطر غیر آئینی اور غیر جمہوری راستے چن لئے جائیں تو مسلم لیگ ن یا پیپلز پارٹی دوبارہ اقتدار میں آ سکتی ہیں۔مسلم لیگ نون تو خیر سے اقتدار کے لئے جائز ناجائز ہتھکنڈوں کو استعمال کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتی مسئلہ پیپلز پارٹی کے لئے پیدا ہو سکتا ہے۔ایسے حالات میں پارٹی خود کو کس طرح آئین اور جمہوریت کے ساتھ منسلک رکھتی ہے اور نوجوان چیئرمین مسلم لیگ نون کی بنائی دلدل میں کتنا دھنسنے کو تیار ہوتے ہیں اگلے دو ماہ میں اس کا پتہ چل جائے گا‘ سردست یوں سمجھئے کہ شہباز شریف بلاول کے بازو پکڑ رہے ہیں اور مریم حملے کر رہی ہیں۔اسے کہتے ہیں شریکا۔باندھ کر مارنا۔