اسلا موفوبیا کا لفظی معنی ہے کہ اسلام اور مسلمانوں سے نفرت کے باعث خوف کی شدید ترین بیماری میں مبتلا ہونا اور رہنا ہے۔ایسا فرد‘ معاشرہ اور حکومت پینک رہتی ہے کیونکہ اسے خوف کے باعث یہ احساس رہتا ہے کہ اگر خود ساختہ مدمقابل کو نہ روکا تو وہ اسے ختم کر دے گا۔فی الحقیقت فوبیاکا شکار معاشرے اور حکومت عقل دانش اور عام انسانی شعورسے محروم ہو جاتے ہیں اور خودساختہ اندرونی اور بیرونی محاذ آرائی کے سبب بنیادی انسانی ذمہ داری یعنی انسانی مساوات کو ترک کر کے خوفناک فکر و عمل کی درندگی کا شکار ہو جاتے ہیں۔بھارتی ہندو حکومت اور معاشرے کو خوف ہے کہ مسلم اقلیت غالب ہندو اکثریت کو ختم کر دے گی لہٰذا بااختیار خوفزدہ حکومت اور حکومتیں نے بدترین غیر انسانی رویے اپنا رکھے ہیں۔یورپ‘ امریکہ و روس یعنی مشرق و مغرب کی غیر مسلم ہندو و یہود اور صلیبی قوتیں اسلامو فوبیا اوراسلام‘ پیغمبر اسلام اور مسلم معاشروں اور ریاستوں سے خوفزدہ رہتی ہیں۔دنیا کی جدید ترین سائنس ٹیکنالوجی اور ترقی کی حامل اسرائیلی ریاست فلسطین و لبنان کے مظلوم بے بس اور نہتے مسلمانوں کو خوفناک اذیت میں مبتلا رکھتی ہے۔تقریباً یہی کیفیت بھارت کی ہندو حکومت نے کشمیری اور بھارتی مسلمانوں کے ساتھ روا رکھی ہوئی ہے ۔ خاکے بنانا‘ قرآن جلانا میڈیا میں مسلمانوں کے خلاف مذموم مہم اور گاہے بگاہے مغرب میں بسنے والے مسلمانوں کو مارنا پیٹنا لوٹنا اور ظلم و ستم کا نشانہ بنانا معمول بن گیا ہے۔اسلامی تعلیمات کا مذاق اڑانا اور من گھڑت ڈرامے اور فلمیں بنانا ہالی وڈ اور بالی وڈ کا مشغلہ بن گیا۔ اسلام اور اسلامی تعلیمات کیا ہیں مسلمانوں کی تاریخ کیا ہے‘ اس سب کو معروضی اور غیر جانبداری سے جاننا اور سمجھنا ضروری ہے وگرنہ موجودہ عالمی تصادم اور محاذآرائی سب کچھ اور سب کو برباد کر دے گی۔اسلام کا لفظی مطلب امن‘ سکون‘ سلامتی ہے اور مسلمانوں کو یہ سب خالق کائنات اللہ اور اس کے محبوب نبی محمد مصطفی ؐ کے احکامات پر غیر مشروط عملی پیروی سے میسر آتے ہیں۔اسلامی تعلیمات کو دو الفاظ یعنی قرآن اور اسوہ حسنہ ؐ کے مطابق زندگی گزارنا ہے۔قرآن اللہ کے الفاظ اور احکامات ہیں جبکہ اسوہ حسنہ قرآن کی انسانی عملی تفسیر ہے۔نیز اللہ و رسول ؐ کے احکامات ایک قابل عمل ضابطۂ حیات (complete code of life)ہے۔ اسلامی تعلیمات انفرادی اور اجتماعی زندگی گزارنے کے آداب سکھاتی ہے اسی طرح اسلام ریاستی اور معاشرتی رویوں میں راہنمائی کرتا ہے اسی طرح اسلام نے پہلی بار دنیا کو سیاسی‘ انتظامی‘ تجارتی‘ تعلیمی اور انسانی روابط و ضوابط کے دائمی اصول بنائے اور ان اصولوں پر استوار اسلامی تاریخ کا روشن پہلو ماضی کا حصہ ہے اور انہی راہنما اصولوں پر مبنی جدید اسلامی ریاستیں اپنا سیاسی ‘ مذہبی ‘ معاشی‘ معاشرتی ‘ تعلیمی‘ اخلاقی‘ تجارتی نظام ازسرنو قائم کرنا چاہتے ہیں اس ضمن میں اسلامو فوبیا سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے اسلام تہذیبی تصادم کا نہیں تہذیبی تعاون کا دین اور مذہب ہے۔اسلامی تاریخ شاہد ہے کہ مسلمان حکمرانوں کی رعایا کی اکثریت غیر مسلم تھی اور آج بھی مسلمان ریاستوں کی شکست و ریخت کے بعد بھی مذکورہ علاقوں کی اکثریتی آبادی غیر مسلم ہے۔دہلی ‘ اندلس اور مشرقی و یورپی ممالک ایک واضح مثال ہیں۔دہلی مندروں‘ مشرقی یورپ عیسائی گرجاگھروں اور یہودی قدیم عبادت گاہوں کا عجائب خانہ ہے مگر غیر مسلم اسلامو فوبیا رویوں نے بابری مسجد منہدم کی‘ بوسنیا کے نہتے مسلمانوں کا قتل عام کیا۔مودی کی وزارت اعلیٰ میں بھارتی گجرات کے مسلمانوں نسل کشی کی گئی۔یہ سب معاشرتی و ریاستی رویے اسلامو فوبیا کے نتیجے میں جنم لے رہے ہیں جبکہ اسلامی تعلیمات آزاد انسانی فکر و عمل کا نچوڑ نہیں بلکہ الہامی حیات کا مظہر ہیں جس میںانسانی یکجہتی کی روشنی میں مسلم و غیر مسلم‘ حاکم و محکوم‘ امیر و غریب سب برابر ہیں اور مسلمان اپنے ہر عمل کا روز محشر جوابدہ ہے ۔ اسلام میں انصاف فوری اور برابری کی بنیاد پر فراہم کیا جاتا ہے کوئی چھوٹا یا بڑا بلکہ نام نہاد لاڈلا بھی اسلامی قانون اور آئین بے بالاتر نہیں۔ قرآن کی سورۃ اخلاص اس امر کی گواہی دیتی ہے کہ اللہ کا اللہ کا محبوب وہ ہے جو اللہ و رسولؐ کے احکامات کی سچی پیروی اختیار کرتا ہے اور وہی کچھ کرتا ہے جو اللہ و رسول ؐ نے بتایا۔عالم اسلام کی اکثریت عرب یا نبیٔ محترم ﷺکے قبیلے سے تعلق نہیں رکھتی۔ دراصل عرب آبادی مشرک ‘ ملحد‘ کافر اوراہل کتاب کے ماننے والی تھی جنہوں نے اسلامی تعلیمات پر غور و فکر کے اسلام قبول کیا۔حالیہ یورپی‘ امریکی‘ مغربی‘ یہودی اور بھارتی تحقیقی دستاویزات کے مطابق دنیا میں تیزی سے پھیلنے والا مذہب اسلام ہے۔یورپ کے بعض ممالک بشمول فرانس جلد مسلم اکثریتی ممالک میں ڈھلنے والے تھے۔ اگر دنیا میںامن‘ سکون‘ سلامی‘ خوشی‘ خوشحالی رہتی تو انسان کا فکر و عمل سوچ بچار کا نچوڑ رہتا۔ لڑائی‘ جنگ وجدل‘ اسلحہ سازی‘ اسلحہ بازی ‘ تہذیبی تصادم‘ خوف‘ بھوک ننگ‘ سرمایہ داریت‘ اشتراکیت‘ سود خوری وہ مسائل ہیں جس نے انسان کے فکر و عمل کو منفی طور گرما دیا اور اولاد آدم کو باہمی الجھائو اور تنائو کا شکار بنا دیا۔دریں صورت عالمی مفکرین(ہندو و یہود اور صلیبی اتحاد ثلاثہ) نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بنیاد پرستی اور دہشت گردی کے نام پر ایک بظاہر نہ ختم ہونے والی جنگ شروع کر رکھی ہے۔تصادم غیظ و غضب اور غصہ کو جنم دیتا ہے اور اس طرح عمل اور ردعمل کا شیطانی کھیل شروع ہو جاتا ہے اور اس طرح دونوں حریف جذباتی جنگ کا شکار رہتے ہیں جبکہ اسلام اعتدال اور میانہ روی کے رویوں کو پروان چڑھانے کا نام ہے۔غصہ عقل کو کھا جاتا ہے اور اسلام میں غصہ حرام ہے ۔مسلمانوں کو حکم الٰہی ہے کہ حکمت و فراست سے بات اور مکالمہ کریں ۔تصادم نے انسانی رویوں حیوانی بنا دیا اور اسلام کے حقیقی چہرے کو دبا دیا اولاد آدم کو خلوص سے انسانی یکجہتی کی بنیاد پر غیر جانبداری سے مکالمہ کرنا چاہیے وگرنہ اسلامو فوبیا عالمی و علاقائی کو تباہ کرتا رہے گا۔عالمی امن کے لئے بین المذاہب ہم آہنگی inter faith harmony.مکالمہ کی بجائے بین الانسانی معاہدہ کرنا چاہیے۔