چاول کی دنیا کے سب سے بڑے برآمد کنندہ، ہندوستان نے تین ہفتے قبل مقامی ترجیحات کو سامنے رکھتے ہوئے غیر باسمتی سفید چاول کی برآمد پر پابندی عائد کر دی تھی تاکہ مسلسل بڑھتی ہوئی خوراک کی قیمتوں کو قابو کیا جا سکے اورمناسب قیمت پر خوراک کی دستیابی کوممکن بنایا جا سکے۔ اس پابندی کے اثرات دنیا بھر کی چاول کی منڈیوں میں بڑی شدت کے ساتھ محسوس کئے جارہے ہیں ۔ عارضی پابندی کی صورت میں عالمی بازار پراس کے اثرات محدود ہوسکتے ہیں، تاہم طویل پابندی کی صورت میں اس کے نتائج یقینی طورپردور رس ہو ںگے۔ کئی ایک وجوہات کی بنا پر اس بات کا غالب امکان ہے کہ یہ پابندی طوالت اختیار کر جائے۔اول، چاول کی قیمتوں میں ایک ماہ میں تقریباً 3فیصد اور پچھلے سال کے مقابلے میں 12فیصد اضافہ ہوا ہے، اس کے علاوہ خوراک کی افراط زر کی رفتاربھی توقعات سے زائدہے۔چنانچہ قیمتیں معمول پر آنے تک پابندی برقرار رہے گی۔ دوم، مون سون کی شدید بارشوں نے فصلوں کو خاصا نقصان پہنچایاہے، جس سے موجودہ سیزن میں چاول کی فراہمی اور دستیابی متاثر ہوگی۔ درحقیقت یہ ایک احتیاطی پابندی ہے، اس حقیقت کے باوجود کہ انہوں نے اپنے تزویراتی ذخائر میں تقریباً تین گنا اضافہ کر دیا ہے۔سوئم، اپریل 2024 میں ہونے والے آئندہ عام انتخابات سے جڑی مقامی ترجیحات کی وجہ سے مستقبل قریب میں اس برآمدی پابندی کے اٹھائے جانے کا امکان بہت کم ہے۔ ہندوستان 22 ملین میٹرک ٹن چاول کی برآمد کے ساتھ دنیا میں چاول کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے یہ عالمی برآمدات کا تقریباً 40 فیصد ہے۔ اگرچہ یہ پابندی صرف 10 ملین ٹن غیرباسمتی چاول پر ہے مگرعالمی بازار میں اتنی بڑی مقدار کے خلاسے، چاول کے دوسرے سپلائرز اور انویسٹرز پر بھی دباؤ بڑھ رہا ہے ۔عالمی قیمتیں گزشتہ 11 سالوں میں اپنی بلند ترین سطح پر ہیںچنانچہ اس پابندی کی شدت چاول کے دوسرے برآمد کنندگان کے ردعمل پربھی منحصرہے۔ اگر دوسرے ممالک اس برآمدی پابندی کی پیروی کرتے ہیںتو عالمی منڈیوں میںاس کے اثرات روس اور یوکرین کے مابین جنگ سے متاثر ہونیوالی گندم کی مارکیٹ سے بھی گہرے ہو سکتے ہیں ۔کیونکہ چاول دنیا میں سب سے زیادہ مقبول اناج میں سے ایک ہے، 3 بلین سے زیادہ لوگوںکی اہم غذا ،جو اپنی روزانہ کی کیلوریز کا بڑاحصہ چاول سے پورا کرتے ہیں ۔ عالمی ادارہ برائے خوراک کے مطابق بنگلہ دیش، بھوٹان، کمبوڈیا، انڈونیشیا، میانمار، نیپال، تھائی لینڈ، فلپائن اور سری لنکا میں چاول کی کھپت ان کی روزانہ کیلوری کی مقدار کا 40فیصد سے 67فیصد تک ہے۔ ان میں بہت سے ممالک ہندوستان سے چاول کی بڑی مقدار درآمد کرتے ہیں۔مزید برآںکرنسیوں کی قدر میں کمی نے متعدد ممالک کے لیے درآمدی لاگت میں اضافہ کیا ہے، جبکہ بلند افراط زر نے اس صورتحال کو مزید گھمبیر کر دیاہے۔خریدار، تھائی لینڈ اور ویتنام کی جانب منتقل ہو سکتے ہیں، لیکن اسکی قیمت بہت زیادہ ہے۔ کیونکہ ان کے 5% ٹوٹے ہوئے چاول کی قیمت 600ڈالرفی میٹرک ٹن ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہو رہاہے۔ یہ ان ممالک کے لیے بہت مشکل ہو گا جو پہلے ہی مہنگائی سے لڑ رہے ہیں۔ چین اور فلپائن عام طور پر ویتنامی اور تھائی چاول کے بڑے خریدار ہیں، اس صورتحال میں وہ کافی زیادہ قیمتیں ادا کرنے پر مجبور ہوں گے۔ دوسری طرف، یہ پابندی پاکستان کے چاول کے لیے ایک منافع بخش موقع فراہم کر رہی ہے، کیونکہ یہ ویت نامی اور تھائی چاول کے مقابلے میں سستا ہے۔ پاکستان دنیا میں چاول برآمد کرنے والا چوتھا بڑا ملک ہے۔ گزشتہ سال شدید سیلاب کے باوجود، پاکستان نے 3.8 ملین ٹن چاول کی برآمد سے 2۔2 بلین امریکی ڈالر بھی کمائے۔ گذشتہ برس غیر باسمتی اقسام کی برآمد 3.1 ملین ٹن تھی، جس سے480 ڈالرفی ٹن کی شرح سے 1.5بلین امریکی ڈالر حاصل ہوئے۔ دیگر برآمدکنندگان کے مقابلے میں کم قیمت ہونے کی وجہ سے عالمی منڈی میں پاکستانی چاول کی مانگ میں نمایاں اضافہ بھی متوقع ہے۔پاکستانی نان باسمتی چاول کی قیمت 500 ڈالرفی ٹن تک پہنچ چکی ہے جبکہ ان میں مزید اضافہ کے امکانات بھی واضح ہیں جس سے یقینی طور پر پاکستانی چاول کے برآمد کنندگان کے لیے ایک انتہائی منافع بخش صورتحال پیدا ہورہی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہم بین الاقوامی سطح پر اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی کتنی صلاحیت رکھتے ہیں۔اس وقت پاکستان کا عالمی برآمدی منڈی میں حصہ تقریباً 8 فیصد ہے جبکہ روس اور میکسیکو تک چاول کی برآمدی منڈی کو وسیع کرنے کی کاوشیں بھی جاری ہیں۔ روس کی 27 کمپنیاں پاکستان سے نان باسمتی چاول خریدنے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ یہ ممکنہ تعاون، نئی منزلوں تک ،پاکستان کے چاول کی برآمدات کے حجم کو بڑھانے کے لیے انتہائی اہم ہے۔اس سال موسم کی سازگار صورتحال بہتر پیداوار کی نشاندہی کر رہی ہے جس سے یہ قوی امکان ہے کہ ہم اپنی برآمدات کا حجم 5میٹرک ٹن تک بڑھانے میں کامیاب ہو جائیں جس سے 3 سے 4 بلین امریکی ڈالر کی آمدنی متوقع ہے۔ چاول کی برآمدی مارکیٹ میں موجودہ صورتحال کو مستقل فائدے میں بدلنے کے لئے چاول کی اوسط پیدوار میں اضافہ کے لئے چند سنجیدہ اقدامات ضروری ہیں ۔ہمارے ہاں اوسط اور ترقی پسند کسانوں کی پیداوار میں واضح فرق ہے جسے ختم کرنے کیلئے فصل کے بہتر انتظام کے بارے میں آگاہی ،کٹائی کے عمل میں ہونیوالے نقصانات کو کم کرنے کے لئے کمبائن ہارویسٹرکے استعمال کافروغ، چاول اور اسکی ضمنی مصنوعات کے معیار کو بہتر بنانے کیلئے کھیتوں میں ہی خشک کرنے کے بہتر اور جدید طریقوں کے استعمال سے شناسائی کی ترویج، پاکستانی چاول کو بین الاقوامی مارکیٹ میں مسابقتی بنانے کیلئے مکینیکل ٹرانسپلانٹنگ کی طرف بتدریج منتقلی یقینی طور پر زیادہ پیدوار میں منتقل ہوگی جو بالآخر پاکستان کے لئے مزید برآمدات اور زرمبادلہ کا باعث ہو گی ۔