کسی بھی تہذیب اور معاشرے کا اخلاقی زوال اس کی تباہی اور بربادی پر مہر تصدیق ثبت کر دیتا ہے۔ یہ قانونِ فطرت ہے کہ جس پر پوری انسانی تاریخ گواہ ہے۔ طلوعِ اسلام سے بہت پہلے جدید یورپ کی دو آئیڈیل تہذیبیں دنیا کے نقشے پر جگمگا رہی تھیں۔ ایک علم و آگہی اور آرٹ و کلچر کا گہوارہ، یونان اور دوسری سیاست و حکومت اور فنونِ سپہ گری کی علامت، روم۔ آج یہ دونوں قومیں یورپ کی پسماندہ ترین اقوام میں سے ہیں۔ یونان کو اگر یورپی یونین کے ممالک معاشی طور پر سہارا نہ دیں تو یہ ملک دیوالیہ ہو جائے۔ جبکہ کل کا روم جو اب صرف اٹلی تک محدود ہو کر رہ گیا ہے، اس کے مافیاز کی داستانوں، کرپشن کی کہانیوں اور معاشرتی مسائل سے جرم کی دنیا آباد ہے۔ ہومر، سقراط اور افلاطون کا یونان کبھی ایک صالح معاشرہ تھا جس میں عورت گھر کی زینت تھی اور تہذیبی اخلاقیات میں شرم و حیا اور تعلقات کا پاکیزہ ہونا اہم معاشرتی اقدار تھیں لیکن، پھر ان کے ہاں ادب و آرٹ کے نام پر ایک ’’تہذیبی درندگی‘‘ کا آغاز ہوا۔ سب سے پہلے ایک دیوی افرو ڈائٹ (Aphrodite) تخلیق کی گئی جو یوں تو ایک دیوتا کی بیوی تھی، مگر اس کے تین دیوتائوں سے بھی تعلقات تھے، جبکہ اس کی ہوس کی زد میں یونان کا ایک خوبصورت انسان بھی آ گیا جس زمینی انسان کو آسمانی دیوی سے تعلقات رکھنے کی اجازت دے دی گئی۔اس دیوی کی پرستش کی جاتی اور شہروں میں جلوس نکالے جاتے جن میں لاتعداد خواتین و مرد شامل ہوتے تھے۔ یہ اپنے دور کا ایک قسم کا ’’وومن مارچ‘‘ ہی تھا۔ اس کھلے عام فحاشی و عریانی کا آخری نتیجہ وہی برآمد ہوا جو ہر شہوت پرست معاشرے میں ہوتا ہے۔ ان کے آرٹ اور تہذیب کے دلدادہ افراد نے دو ایسے مردوں کے مجسمے بنائے جو آپس میں ’’محبت‘‘ کا رشتہ رکھتے تھے۔ یہ دونوں ہرموڈیس (Harmodius) اور ارسٹوگیٹن (Aristogeiton) تھے جن کی آپس کی محبت کا دشمن ہیپورکسس (Hipparchies) تھا جو ہرموڈیس پر فریفتہ تھا اور جسے ارسٹوگیٹن نے قتل کروا دیا تھا۔ یہ کہانی بھی آج کی پاکستانی متنازعہ فلم ’’جوائے لینڈ‘‘ کی طرح پہلے یونان میں بہت کم سنائی جاتی تھی لیکن پھر آرٹ کے دلدادہ افراد نے ان کے مجسمے بنا کر شہر میں نصب کئے اور لوگ ان کا طواف کرنے لگے۔ یہ 527 قبل مسیح کا واقعہ ہے اور تاریخ شاہد ہے کہ اس کے بعد یونان نے ترقی اور عروج کا دوبارہ کوئی دور نہ دیکھا۔ روم جو کبھی پورے یورپ پر حکومت کیا کرتا تھا اس کا اخلاقی زوال بھی انہی آرٹ و کلچر کے دلدادہ گروہوں سے شروع ہوا۔ سب سے پہلے تھیٹروں میں فحاشی و عریانی کا آغاز ہوا اور جسم فروشی ایک خوبصورت آرٹ بن گئی یہاں تک معزز گھرانوں کی عورتیں بھی دہری لذت یعنی جسم فروشی سے پیسہ کمانے اور جنسی تسکین بھی حاصل کرنے لگیں۔ یہاں تک کہ مشہور بادشاہ ٹائبرس (Tiberius) نے ایک قانون نافذ کیا جس کے تحت اعلیٰ اور معزز خاندان کی عورتوں کو جنسی تعلقات رکھنے سے تو نہ روکا گیا، لیکن اس سے انہیں پیسہ کمانے سے منع کر دیا گیا کیونکہ اس سے اشرافیہ ذلیل ہو رہی تھی۔ مصّور برہنہ تصویریں بنانے لگے اور یہ تصویریں ہر گھر کی زینت بن گئیں۔ افسانہ، ناول فحاشی و عریانی کی داستانوں سے بھر گئے۔ مردوں اور عورتوں کے باہم غسل کرنے کے حمام بنائے گئے جو دراصل آج کے ’’برہنہ ساحلوں‘‘ کا حرفِ آغاز تھے۔ شہر میں اکثر برہنہ عورتوں کی ایک دوڑ کروائی جاتی جسے ’’فلورا‘‘ کہتے تھے۔ سالانہ کھیلوں میں پالے ہوئے تنو مند افراد (Gladiators) سے عورتوں کے ساتھ اس وقت تک جنسی عمل کروایا جاتا جب تک وہ مر نہ جاتیں۔ یہ عیسوی صدی کے آغاز کی بات ہے اور صرف تین سو سال کے اندر 4 ستمبر 476ء کو یہ مملکت، تہذیب اور حکومت ایسی زمین بوس ہوئی کہ آج تک اپنے ماضی کو یاد کر کے زندہ ہے۔ مغرب کے علاوہ مشرق میں دو اہم سلطنتیں بابل اور فارس تھیں۔ بابل میں طوائف کو ویسے ہی عزت دی جانے لگی جیسے موجودہ دور میں اسے جنسی مزدور (Sex worker) کہہ کر مہذب بنا لیا گیا ہے اور ایران میں مزدکیت نے تمام رشتوں کی پابندیوں کو ختم کرنے کا اصول دے کر مقدس رشتوں سے شادی اور جنسی تعلقات کو رومانی خوبصورتی کا درجہ دیا۔ تاریخ ان دونوں تہذیبوں کا بھی اس کے بعد کوئی اَتہ پتہ نہیں بتاتی۔ یوں صفحۂ ہستی سے نابود ہوئیں کہ جیسے کبھی دنیا کے نقشے پر تھی ہی نہیں۔ یوں تو جدید دنیا کا موجودہ اخلاقی زوال اور شہوت پرستی کی تاریخ صرف ایک سے ڈیڑھ سو سال پرانی ہے، مگر جس تیزی سے اس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے یوں لگتا ہے کہ دنیا اپنے آخری انجام کی طرف انتہائی سرعت کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔ اس آخری معرکۂ خیروشر میں سب سے بڑا حملہ مسلمان اُمت پر ہونا ہے جس کی خبر سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت پہلے ہی دے دی تھی۔ سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ’’جب میری اُمت چھ چیزوں کو حلال سمجھنے لگے گی تو ان پر تباہی نازل ہو گی۔ جب ان میں باہمی لعنت و ملامت عام ہو جائے، لوگ کثرت سے شراب پینے لگیں، مرد ریشمی لباس پہننے لگیں، لوگ گانے بجانے اور رقص کرنے والی عورتیں رکھنے لگیں۔ مرد، مردوں سے (Gays) اور عورت، عورتوں سے (Lesbians) سے جنسی لذت حاصل کرنے لگیں اور یہ گروہ عام ہو جائیں تو اس وقت تباہی و بربادی ان کا مقدر ٹھہرے گی۔ (طبرانی: المعجم الاوسط، بیہقی: شعب الایمان، ابو نعیم: حلیۃ الاولیائ، المنذری: ترغیب والترھیب، الہندی: کنزالعمال)۔ دنیا کو یہ معرکۂ روح و بدن درپیش ہے جس کے بارے میں اقبال نے کہا تھا: دنیا کو ہے پھر معرکۂ روح و بدن پیش تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو اُبھارا تہذیب کے ’’درندے‘‘ بندوق اور گولی سے نہیں بلکہ آرٹ اور فن کے ہتھیاروں سے لیس ہوتے ہیں۔ وہ اپنے قلم اور فن سے فحاشی، بے حیائی اور عریانی معاشرے میں عام کرتے ہیں۔ فحش اور اخلاق باختہ کرداروں کی تعریف و توصیف کرتے ہیں۔ اپنے افسانوں، ناولوں، شاعری، ڈرامہ، تھیٹر اور فلم میں انہیں قابلِ تقلید (Glorify) بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ آہستہ آہستہ یہ لوگ جو کبھی فلم کے پردے پر نظر آتے یا شاعری میں جھلکتے تھے، ان کا پر تو عام لوگوں میں بھی نظر آنے لگ جاتا ہے۔ جوائے لینڈ اسی تہذیبی ’’درندگی‘‘ کا میٹھا سا خوش کن آغاز ہے جسے حکومت نے رعایتاً صرف چند ایک سین کاٹ کر سینما میں نمائش کے لئے منظور کر لیا ہے۔ جس دن پی ڈی ایم کی حکومت نے اس فلم کی نمائش کی منظوری دی اس دن حکومت کے اتحادی اور پانچ لاکھ علماء کے قائد مولانا فضل الرحمن کے نزدیک توشہ خانہ کی گھڑی اس ملک کا سب سے اہم مسئلہ تھا اور دیگر مسالک کے علماء و مشائخ و ذاکرین، برسیوں، ختم مبارک، مجالس اور سالانہ جلسہ اسناد وغیرہ میں مگن تھے۔ اُمت کا زوال آتا ہے تو اللہ ایسے ہی علماء کو فقہی مسائل اور کاروبارِ دنیا میں اُلجھا دیتا ہے۔ بغداد، اُندلس، مصر، استنبول اور دلّی کی تباہی کی یہی کہانی تھی۔ کیا ہماری تباہی و بربادی کا بھی آغاز ہو چکا ہے؟