اپنے وطن عزیز کی تاریخ کا ہر موڑ اور ایک ایک صفحہ ازبر ہے۔ نہ جانے کتنے واقعات گردش کرتے رہے انصاف کے ایوانوں میں کتنے لوگ اپنی فائلیں تھامے اپنا جائز حق مانگنے کے لئے دھکے کھاتے پھر رہے ہیں۔میں بیٹھا یہی سوچتا رہا۔ سورج غروب ہو گیا۔ اندھیرا سرک کر اندر داخل ہونے لگا۔ دماغ میں یہی سوال ابھرتا رہا کہ اس ملک میں کوئی ایسا ادارہ ہے۔ جس پر لوگوں کا اعتماد باقی رہا ہو۔ جس کے متعلق لوگوں کو یقین ہو کہ وہاں جائیں گے تو وہاں انصاف ہو گاکہ وہاں فیصلے مظلوم کی مظلومیت اور ظالم کے ظلم کے مطابق ہوں گے اور اس ادارے کا دروازہ ہر بڑے چھوٹے کے لئے کھلا ہو گا۔ بدقسمتی سے اس ملک کا کوئی ایسا ادارہ کوئی ایسا عہدہ نہیں بچا جس کی توقیر اور جس کی غیر جانبدار محفوظ ہو اور جس پر لوگوں کا اعتماد اور یقین باقی ہو۔میں نے سوچا کہ سیلاب اور آبادی کے درمیان صرف عدالت ہی ایک ایسی دیوار ہوتی ہے جو لوگوں کو تباہی سے دور رکھتی ہے اگر یہ دیوار گر جائے تو اس کے بعد کچھ نہیں بچتا میں سوچنے لگا کاش! ہمارے حکمرانوں کو عقل آ جائے۔ کاش! وہ اپنی انا اور ضد کے تخت سے اتر کر فیصلے کریں۔کاش!وہ ملکی فیصلوں میں اپنی پسند اور ناپسند کو بھلا دیں۔کاش وہ عوام کے چہروں پر لکھی تحریر پڑھ لیں کاش! وہ لوگوں کے قلب میں جھانک کر دیکھ لیں کاش! وہ عدالتوں کی اہمیت سے واقف ہو جائیں اور کاش وہ فیصلوں سے پہلے اگلی نسل کے چہرے دیکھ لیں آپ دیکھیں اس ملک میں تو یہ بھی ہوا کہ جب سپریم کورٹ نے اس وقت کے صدر مشرف کی انا کو چیلنج کیا تو انہوں نے پوری عدلیہ لپیٹ دی۔ انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان کو اٹھا کر گھر میں پھینک دیا۔ان کے دروازے پر پولیس بٹھا دی۔ ڈوسو‘ اسما جیلانی اور بیگم نصرت بھٹو کے مقدمات کا تذکرہ آپ سنتے رہے ہیں۔ میں سوچ رہا ہوں کہ کیا ملک ایسے چلتے ہیں آج سے پانچ ہزار سال قبل یونان کے دانشوروں نے کہا تھا ’’جب تک قانون کی نظر میں سب لوگ برابر نہیں ہو جاتے اس وقت تک ہم ترقی کر سکتے ہیں نہ ہی زندہ رہ سکتے ہیں‘‘ انہوں نے کہا تھا ’’ملکوں اور معاشروں کی حفاظت تلوار اور نیزے نہیں کرتے ملکوں کی حفاظت قانون اور منصف کیا کرتے ہیں‘‘ درحقیقت قانون اور انصاف وہ ایلفی ہوتا ہے جو قوموں ملکوں اور معاشروں کو جوڑے رکھتا ہے اور جب معاشروں سے قانون اور انصاف اٹھ جاتا ہے تو قوموں اور ملکوں کے تمام جوڑ کھل جاتے ہیں آپ دنیا کے تمام آثار قدیمہ کا جائزہ لے لیں آپ دنیا کی تمام قدیم تہذیبوں کا مطالعہ کر لیجیے آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی۔دنیا کی کوئی تہذیب ‘رزق ‘اور پسماندگی کی وجہ سے برباد نہیں ہوئی۔ دنیا کی تمام تہذیبیں انصاف کی کمی کے باعث تباہ ہوئیں جس ملک نے انصاف جیسی بیسک رائلٹی کو فراموش کر دیا۔ وقت اس کے اوپر سے گزر گیا اور وہ ملک وہ قوم تاریخ کے صفحات میں ایک دھبہ بن کر رہ گئی۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم اس طرح کی غلطی کا ارتکاب تو نہیں کر رہے۔ قانون کا مطلب ہی معاشرے کے زور آوروں امراء با اختیار برسر اقتدار لوگوں کی انا غرور اور طاقت کے سامنے بند باندھنا ہے دنیا بھر میں انسان جوں جوں ترقی کرتا ہے، اس کے گرد قانون کا دائرہ تنگ ہوتا جاتا ہے۔ یاد رکھیں کسی ملک اور قوم کے آگے بڑھنے کے لئے انصاف ہی وہ بنیادی فارمولا ہے جو ہمارے ملک میں موجود نہیں۔ یہ شاید دنیا کا واحد ملک ہو گا، جس میں نہ صرف قانون اور انصاف موجود نہیں بلکہ ہم جابجا اس کا مذاق بھی اڑاتے دکھائی دیتے ہیں۔ آپ اس ملک میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک پھر کر دیکھ لیجیے آپ کو حکومت کا کوئی شعبہ بھی پوری مستعدی ایمانداری اور فرض شناسی سے کام کرتا دکھائی نہیں دے گا۔ اس ملک میں آپریشن تھیٹر سے لے کر قبرستان تک کرپشن ہے اس ملک میں چپڑاسی سے لے کر صدر تک تمام لوگوں کی طرف انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں، اس ملک میں سیاسی لیڈر سے مذہبی رہنما تک کوئی مسٹر کلین نہیں۔ اس ملک میں سرکاری خزانے سے لے کر مسجد کے لوٹے تک کوئی چیز محفوظ نہیں۔ پولیس حکمرانوں کی ذاتی فورس بن چکی ہے۔ سیاستدان‘ بیورو کریسی‘ سرکاری ملازمین اور ڈاکوں میں کوئی فرض نہیں رہا۔ طاقتور کمزوروں کا بادشاہ بن گیا ہے اور رشوت خور ظالم اس ملک کے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو چکے ہیں، اس کی وجہ صرف انصاف کی غیر موجودگی ہے انسان نے دس لاکھ سال کے ارتقاء اور دس ہزار سال کی تمدنی زندگی میں صرف ایک بات سیکھی اس نے صرف ایک حقیقت جانی کہ انصاف ہی وہ واحد سچائی ہے جو جنگل کو معاشرہ بناتی ہے اور جب تک کسی ملک میں انصاف کا قطعی اور اٹل نظام نہیں ہوتا اس وقت تک اس معاشرے میں محبت آ سکتی ہے۔رواداری‘ تسکین خوشحالی ترقی خوشی اطمینان سکون اور نہ ہی امن انسان نے دس ہزار سال کی تمدنی تاریخ میں یہ جانا ہے، جب تک معاشرے میں انصاف نہ ہو۔ اس وقت تک انسان کیوبا کے سگار‘ ایتھوپیا کی کافی‘ ساگوان کے فرش‘ ڈنمارک کی ڈائننگ ٹیبل نروساذی کے جوتوں‘ کینالی کے ہوٹلوں‘ بی ایم ڈبلیو گاڑی اور ایک ایک ملین کے موبائل فونوں سے لطف نہیں لے سکتا۔ یہ انصاف ہے جو انسان کو نیند کی گولیوں سے محفوظ رکھتا ہے جس کے بھروسے پر انسان رات تین تین بجے گھر سے نکل جاتا ہے یہ انصاف کی طاقت ہے جو اسے اکیلے پہاڑیوں صحرائوں اور جنگلوں میں پھرنے کی ہمت دیتی ہے جو انسان کو اپنے جیسے انسانوں کی درندگی سے بچائے رکھتا ہے۔ یہ انصاف ہی ہوتا ہے جس کے بھروسے ہر بچہ اپنی ماں کی کوکھ میں کروٹ بدلتا ہے۔ یہ ملک ہم نے اسلام کے نام پر بنایا تھا۔آپ نظام عدل کو حضرت عمرؓ جیسی جرأت اور حضرت علیؓ جیسی نظر نہیں دے سکتے نہ دیں۔ لیکن آپ کم از کم امریکہ اور یورپی جتنی آزادی تو دیدیں اس امریکہ اس یورپ اور اس جاپان جتنی آزادی جس میں صدر ہو وزیر اعظم ہو۔ بادشاہ ہو ملکہ ہو یا وزیر عدالتیں انہیں طلب کرتے ہوئے دس منٹ سے زیادہ وقت نہیں لیتیں اور یہ لوگ بھی سر کے بل چل کر عدالت میں پیش ہوتے ہیں اپنے خلاف فیصلے سنتے ہیں اور سزائیں بھی بھگتتے ہیں ہم جب بھی پاکستان میں ہونے والے جرائم پر تحقیق کرتے ہیں تو ہمیں اس ملک میں ہونے والے جرائم کے ڈانڈے بااثر لوگوں اور حکومت کے کرتا دھرتائوں سے ملتے نظر آتے ہیں یہ حقیقت ہے کہ جب تک سلطنت اور حکمران عدالتی دائرے میں نہیں آتے اس وقت تک ملک میں انصاف قائم نہیں ہو سکتا۔ انصاف ایک سوچ‘ فیصلے کی آزادی کا نام ہوتا ہے اور جس ملک میں فیصلے کی آزادی اور انصاف کرنے کی سوچ موجود نہ ہو وہاں آپ ججوں کی تعداد میں 500گنا اضافہ کر دیں اور وہاں ملک کی ساری عمارتوں میں عدالتیں قائم کر دیں اور تمام منصفوں کو کمپیوٹروں کی فیکٹریاں بھی لگا دیں تب بھی معاشرے میں انصاف قائم نہیں ہو گا کیونکہ انصاف‘ انصاف ہوتا ہے۔ یہ دکان فیکٹری یا دفتر نہیں ہوتا اور ہم نے اس ملک میں انصاف کو روندنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔