ایک طرف فلسطین پر ہونے والی مسلسل بربریت اور ظلم پر مسلم ملکوں کی یکجہتی کے حوالے سے سوال اٹھتا ہے تو دوسری طرف ایران نے 24 گھنٹوں کے اندر تین برادر اسلامی ملکوں پر میزائل حملے کر کے ایک نیا تنازعہ پیدا کردیا ہے ۔مشرق وسطی کے ساتھ پاکستان اور ایران کے درمیان بھی صورتحال کشیدہ ہو چکی ہے۔پاکستان اور ایران کے درمیان آئیڈیل دوستانہ تعلقات کبھی نہیں رہے۔دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات ہمیشہ اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں ۔بلوچستان اور سیستان کی سرحد پر کشیدگی کے واقعات کے تناظر میں دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی ڈائیلاگ ہوتا رہا ہے۔پاکستان ایران بارڈر پر کچھ نہ کچھ شرارت بازی ہوتی رہتی ہے، ایران کو بھی پاکستان سے گلے شکوے تھے اور پاکستان کو بھی ایران سے گلے شکوے تھے کہ ایران سے پاکستان میں دہشت گردی ہوتی ہے لیکن ان معاملات کو ڈپلومیٹک ڈائیلاگ کے ذریعے آپس میں حل کیا جاتارہا ہے۔ پاکستان کے پاس واضح ثبوت موجود ہیں کہ ایران بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کو سپورٹ کرتا ہے وہ علیحدگی پسند پاکستان میں دہشت گردی کی کاروائیاں کرتے ہیں۔اس کے باوجود پاکستان کا ایران کے ساتھ سفارتی سطح پر بہت تحمل آمیز اور دوستانہ رویہ رہا ہے۔ ایران کے ساتھ پھر ہمارے مذہبی، تاریخی اور ثقافتی اور ادبی روابط رہے ہیں ۔ تعلق کی اس تہہ داری کے تناظر میں دیکھیں تو دو دن پہلے ایران کی طرف سے پاکستان کی سرحدی حدود کی خلاف ورزی ایک غیر معمولی اشتعال انگیزی ہے ایران سے بلوچستان کے علاقے میں میزائل حملہ کیا گیا نتیجے میں دو بچیوں کی ہلاکت ہوئی۔ ایران کے جانب سے یہ بہت ہی غیر معمولی اور اشتعال انگیز کاروائی ہے۔بقول ایران کے اس نے جیش العدل دہشت گرد گروہ کے خلاف کی ہے۔یہ ایک ایسی خبر ہے جس پر عام شخص کو یقین نہیں آرہا کہ ایران تو ہمارا برادر اسلامی ملک ہے اور ایک ایسے وقت میں جب کہ القدس کے ہمارے مسلمان بہن بھائیوں پر اسرائیل نے قیامت ڈھائی ہوئی ہے اور مسلم ملکوں کو متحد ہوکر فلسطینوں کی نسل کشی کے خلاف آواز اٹھائی چاہیے۔بجائے اس کے کہ مسلمان ملک متحد ہوتے ایسے نازک اور حساس وقت میں ایران کا تین اسلامی ملکوں پر 24 گھنٹوں کے اندر عراق، شام اور پاکستان پر میزائل داغنا سمجھ سے باہر ہے۔ایران کی یہ غیر ضروری اشتعال انگیزی خطے کے ایک طرف مشرق وسطیٰ میں بدامنی کو فروغ دے گی اور دوسری طرف اور پاکستان اور ایران کے درمیان تعلقات کشیدہ ہوں گے اور سرحدی علاقے میں امن قائم کرنے کے حوالے سے پاکستان اور ایران کے درمیان کی جانے والی تمام سفارتی ہوم ورک ضائع چلا جائے گا۔پاکستان نے ایران کے اس حملے کا سب سے پہلے سفارتی سطح پر جواب اس حملے کی شدید مذمت کر کے دیا۔ پہلے مرحلے میں پاکستان نے ایران سے اپنا سفیر واپس بلایا اور پاکستان میں تعینات ایرانی سفیر چونکہ اپنے ملک کے دورے پر ہوئے تھے انہیں پاکستان آنے سے روک دیا یہ ایک ابتدائی احتجاج تھا۔کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ پاکستان اس معاملے کو سفارتی سطح پر ڈائیلاگ کے ذریعے ہی حل کرے لیکن صورتحال یہ تھی کہ پاکستان کی سرحدی حدود کی خلاف ورزی ہوئی تھی ایسا کیسے ممکن تھا کہ پاکستان اس کا جواب نہ دیتا ۔پاکستان نے اپنی قومی سلامتی اور خود مختاری کو یقینی بنانے کے لیے اس حملے کا جواب دیا اور ایران کے علاقے سیستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر میزائل حملہ کیا اس میں متعدد دہشت گردوں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔وزارت خارجہ کی طرف سے آنے والے بیان میں بھی پاکستان نے سفارتی آداب کا خیال رکھا اور کہا کہ یہ حملہ انٹیلیجنس معلومات پر کیا گیا اور صرف دہشت گردوں کے ٹھکانے کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ ہم اپنے برادر اسلامی ملک ایران کی سالمیت اور خودمختاری کا احترام کرتے ہیں۔ پاکستان اور ایران کے درمیان بلوچستان اور سیستان کے ساتھ نو سو نو کلومیٹر طویل سرحد ہے۔یہ بہت حساس سرحدی علاقہ ہے۔ یہاں پر دہشتگردی کی کاروائیاں ہوتی رہتی ہیں اور بیک ڈور چینلز کے ذریعے پاکستان اور ایران ایک دوسرے کے ساتھ انٹیلیجنس معلومات شیئر کرتے رہتے ہیں تاکہ اپنے ملکوں میں امن قائم کرنے کے لیے دہشت گردی کے اقدامات کو کچل سکیں۔ ایسے حالات میں جب کہ پاکستان اور ایران ایک دوسرے کے ساتھ خطے میں امن قائم کرنے کے لیے انٹیلیجنس معلومات شیئر کرتے ہیں اور امن قائم کرنے کے لیے ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں ، یہ ایران کی طرف سے پاکستان کی سرحدی حدود کی خلاف ورزی غیر متوقع اور حیران کن ہے کیونکہ اتنے شدید رد عمل سے پہلے جو اقدامات کسی بھی ملک کو اپنے ہمسایہ ملک کے ساتھ کرنے چاہیے تھے ایران نے ان تمام اقدامات کو بائی پاس کیا۔جو کہ بہت ہی ان ڈپلومیٹک طرز عمل ہے۔سفارتی سطح پر بات ہونی چاہیے تھی۔امن قائم کرنے کی نیت ہو تو احتجاج کرنے کے سو طریقے ہو سکتے ہیں جس سے آپ اپنا موقف دوسرے ملک کو پہنچا سکتے ہیں لیکن سیدھا سیدھا کسی ملک کے سرحد کے خلاف ورزی کرنا جنگ کو ہوا دینے کے مترادف ہے۔ایران اور پاکستان کے درمیان اس تازہ ترین کشیدگی پر چین نے اپنی ثالثی پیش کی ہے.ایران کو چاہیے کی اپنے جارحانہ طرز عمل پر ذرا غور کرے اور جارحیت کے اس موڈ کو ذرا ٹھنڈا کرے۔تنازعات کی آگ پر پانی ڈال کر اسے ٹھنڈا کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ اس پر پیٹرول چھڑک کر آگ کے بھڑکاؤ میں اضافہ کریں۔دہشت گردی کے مسائل یقینا موجود ہیں اور یہ ملکوں کے درمیان مشترکہ مسائل ہوتے ہیں آپس میں متحد ہو کر ہی ان کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ اس صورتحال میںescalation de- ہی دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔اب جب کہ ایران کی سرحدی خلاف ورزی کا جواب پاکستان دے چکا ہے اس وقت معاملہ برابری کی سطح پر ہے اور بال ایران کے اس وقت معاملہ برابری کی سطح پر ہے۔بال اس وقت ایران کے کورٹ میں موجود ہے اس پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ تحمل اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرے اور خطے میں امن کو مستحکم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔پاکستان میں موجود نگران حکومت کو بھی چوکس ہو جانا چاہیے تاکہ پاکستان اور ایران سرحدی تنازعے کی آڑ میں، پاکستان کے اندر کسی بھی طرح کی فرقہ واریت اور مسلکی تقسیم کی بنیاد پر دہشت گردی کو ہوا نہ ملے۔