پچھلے تین دن کراچی میں گزرے ۔ کراچی میں چودہ سے اٹھارہ دسمبر تک ایکسپو سنٹر میں شاندار بک فیئر یا کتاب میلہ منعقد ہوا۔ پچھلے اٹھارہ برسوں سے یہ بڑا ایونٹ کراچی میں ہو رہا ہے، اتفاق سے پہلے کبھی اس میں شریک نہیں ہواتھا۔ لاہور میں فروری کے پہلے ہفتے میں ہر سال کتاب میلہ ہوتا ہے،لاہور مقیم ہونے کی وجہ سے ہرہمیشہ شامل ہوتے ہیں۔ اس بار کراچی کتاب میلہ میں بک کارنر ، جہلم نے میری نئی کتاب’’خیال سرائے‘‘ کی لانچنگ کی تھی۔ زنگار، زنگارنامہ اور واز وان کے بعد میری چوتھی کتاب ’’خیال سرائے‘‘ کے نام سے دسمبر ہی میں شائع ہوئی ہے۔ وقت کم ہونے کی وجہ سے بہت سی چیزیں رہ گئیں، مگر بہرحال کسی نہ کسی طرح کتاب میلہ کی رونق اور اس کے فسوں کو قریب سے دیکھنے کے علاوہ دو اہم درسگاہوں کا وزٹ بھی کیا۔ پرانے دوستوں سے ملاقاتیں ہوئیں اور جن سے فون یا فیس بک کا رشتہ تھا، ان سے بھی ملاقاتیں ہوئیں۔ کئی نئی اور دلچسپ باتیں علم میں آئیں۔ ان شااللہ ارادہ ہے کہ ان پر کچھ نہ کچھ لکھا جائے۔ جامعتہ الرشید بہت اہم دینی درس گاہ ہے جس میں عصری تعلیم کا خوبصورت امتزا ج ہے۔جامعہ الرشید کا وزٹ بہت مفید اور معلومات افزا رہا۔جامعہ کے میڈیا سے تعلق رکھنے والے نوجوان محمد ندیم نے خاصی بھاگ دوڑ سے یہ سب ممکن بنایا۔ جامعہ کے سربراہ ممتاز عالم دین اور دینی شخصیت مفتی عبدالرحیم صاحب سے بھرپور نشست رہی۔ مفتی صاحب نے ازراہ تلطف خاصا وقت دیا اور ہر قسم کے سوالات کا بلاتا مل کھل کر جواب دیا۔ان کی شخصیت متاثرکن ہے۔ اس پر ان شااللہ تفصیل سے لکھوں گا۔ اگلے روز اتفاق سے جامعہ بنوری ٹائون کا وزٹ بھی ہوا۔ برادرم مولانا عمر انور بدخشانی اس کے محرک بنے۔مولانا عمر سے بھائیوں جیسا ذاتی تعلق ہے ۔ انہوں نے اپنی مصروفیت کے باوجود ہمارے لئے خاصا وقت نکالا۔ جامعہ بنوری ٹائون ایک بہت اچھی روایات رکھنے والی تاریخی درسگاہ ہے،اس کے پورے سسٹم کو دیکھنے اور سمجھنے کا موقعہ ملا۔ نائب مہتم ڈاکٹر احمد بنوری صاحب سے بھی قدرے مختصر مگر جاندار نشست رہی۔ان دونوں جگہوں پر جانے کا مقصد مدارس کی داخلی دنیا کو سمجھنے کی ایک کوشش تھی ۔ ہمارے مکرم مفتی منیب الرحمن صاحب کے ممتاز دینی علمی ادارے جامعہ نعیمہ کراچی کا وزٹ بھی کرنا تھا، اس بار ممکن نہ ہوپایا۔ ان شااللہ اگلی بار ارادہ ہے کہ مفتی منیب الرحمن صاحب کے پاس بھی حاضری دی جائے ۔ ممکن ہو تو جناب مفتی تقی عثمانی کے ادارے دارالعلوم کو بھی قریب سے دیکھا جائے۔ کتاب میلہ کی مصروفیت کے باعث چاہتے ہوئے بھی کراچی پریس کلب نہیں جا سکا۔ روزنامہ نائنٹی ٹو نیوز کے ایڈیٹر کراچی جناب سعید خاور سے البتہ ملاقاتیں رہیں، کراچی میگزین کے ہمارے ساتھی منفرد فیچر رائٹر شبیر سومرو بھی ہمراہ تھے۔ شبیر سومرہ نے زیتون کے درختوں کے حوالے سے ایک شاندار کتاب حال ہی میں تحریر کی ہے، اس مقصد کے لئے انہیں زیتون کے بارے میں غیر معمولی مساعی کرنے والے ڈاکٹر فیاض عالم کی سرپرستی اور تعاون شامل حال رہا۔ سب رنگ کے لیجنڈری مدیر جناب شکیل عادل زادہ بھی کتاب میلہ میں آئے۔ شکیل بھائی کے ہم دیرینہ مداح ہیں، ان کے صحبت میں گزاری چند گھڑیاں پرلطف رہیں۔ معروف فکشن نگار، شاعر، صحافی جناب انورسن رائے بھی کتاب میلہ میں آئے تھے، ان کی اہلیہ معروف نثری شاعرہ عذرا عباس بھی ساتھ تھیں۔ انورسن رائے کا تعلق ہمارے علاقہ سے ہے۔ میں ان کی تحریروں کا مداح ہوں۔ ممتاز محقق اور قومی لغت بورڈ کے سابق سربراہ عقیل عباس جعفری کی کتاب دوستی قابل رشک ہے۔ وہ دو درجن سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں۔ اس کتاب میلہ میں ان کی ایک شاندار ضخیم تصنیف’’ معتوب کتابیں ‘‘ شائع ہوئی ۔ اس میں تاریخ کی ان مشہور کتابوں کا بھرپور حال رقم ہے جن پر کسی نہ کسی دور میں اعتراضات ہوئے اورخلاف مہم چلائی گئی ۔ عقیل عباس جعفری روزانہ کتاب میلہ میں تشریف لاتے۔ میں نے روایتی سرائیکی اجرک پہن رکھی تھی۔ اسے دیکھ کر عقیل بھائی مسرور ہوئے اور اظہار یک جہتی کے طور پر اگلے روز ویسی ایک سرائیکی اجرک پہن آئے ۔ کئی پرانے دوست کتاب میلہ میں ملے ۔ اقبال خورشید، سید کاشف رضا، رانا آصف، رضوان طاہر وغیرہ سے ملاقاتیں ہوئیں۔ اقبال دیوان سابق بیوروکریٹ اور منفرد فکشن نگار ہیں۔ وہ کراچی شہر کی رگ رگ سے واقف ہیں، اہم ذمہ داریوں پر فائز رہے، شہر میں ہونے والے بعض بڑے اہم واقعات کے عینی شائد ہیں۔ ان کے سینے میں بے شمار ان کہی کہانیاں دفن ہیں، بات کہنے کا ہنر خوب آتا ہے۔ دیوان صاحب سے اچھی تفصیلی نشستیں رہیں۔ کراچی جم خانہ میں بھی ان کے اورسابق انکم ٹیکس کمشنر بشارت قریشی صاحب کے ساتھ اچھا وقت گزرا۔ یار دیرینہ معروف صحافی، کالم نگار اور ایڈیٹر محمد طاہر سے دو تین ملاقاتیں رہیں، ایک سہانی شام ہم نے دو تین گھنٹے صحافت ، سیاست کی ان کہی کہانیاں سننے سنانے میں صرف کی۔ فلم، ڈرامہ کے شناور، سکرپٹ رائٹر فیصل جوش کے گھر بھی ایک عمدہ نشست رہی۔ صحافی اور ’’ڈیورنڈ لائن کا قیدی ‘‘ جیسی کتاب کے مصنف برادرم فیض اللہ خان بھی شریک ہوئے ۔ کراچی اور ملک کے عمومی منظر نامے پر بہت سی باتیںہوئیں۔ سینہ گزٹ خبریں جو لکھی یا نشر نہیں کی جا سکتیں۔ اس سفر میں پیارے دوست سرمد خان کی مسلسل ترغیب کا بڑا ہاتھ رہا۔ سرمد خان کتاب دوست آدمی ہیں، آج کل وہ متحدہ عرب امارات میں مقیم ہیں، مگر ہر سال لاہور کتاب میلہ اور کراچی کتاب میلہ کے لئے خاص طور سے پاکستان آتے ہیں ۔ سرمد کا اصرار تھا کہ مجھے کراچی کتاب میلہ کا ضرور وزٹ کرنا چاہیے ۔ ہمارے ایک اور کتاب دوست نوجوان طاہر بندیشہ بھی سرمد کے ساتھ آئے۔ بندیشہ کو کتابوں کا اچھا ذوق ہے اور خوبی اس کی یہ ہے کہ کج بحثی کبھی نہیں کرتا۔ سلیقے سے اختلاف رائے کو برداشت کرتا ہے۔ کراچی کتاب میلہ کے حوالے سے میراعمومی تاثر یہی بنا کہ یہ لاہور کتاب میلہ کی نسبت کئی گنا بڑا ہے۔ ایکسپو سنٹر کراچی میں یوں سمجھئے عوام کا ایک سیلاب تھا جس نے کتابوں کی طرف رخ کیا۔ تین بڑے ہال تھے ، مگر سب کھچا کھچ بھرے ہوئے، محاورتاً نہیں بلکہ عملی طور پر تل دھرنے کی بھی جگہ نہیں تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لوگ ونڈو شاپنگ کے لئے نہیں بلکہ دھڑا دھڑ کتابیں خریدنے آئے ۔ بعض لوگوں کو دیکھا کہ باقاعدہ طور پر ٹرالی بیگ لے آئے تھے تاکہ کتابیں اس میں بھر کر آسانی سے لے سکیں۔ ایسا لاہور میں کبھی نہیں دیکھا۔ یوں محسوس ہوا کہ اہل کراچی کتاب پڑھنے کے ذوق میں ہم لاہوریوں سے خاصا آگے نکل چکے ہیں۔مجھے اس پر رشک آیا۔ فکشن، نان فکشن دونوں جگہوں پر رش تھا بلکہ ایک ہال انگریزی کتابوں کے لئے مختص تھا اور وہاں بھی بہت خریداری ہوئی۔ بک کارنر نے پچھلے چند برسوں میں بہت متنوع قسم کی کتابیں چھاپی ہیں، فکشن ، نان فکشن دونوں۔ اسی وجہ سے ان کے سٹالز پر رش زیادہ تھا۔اتوار کی صبح بک کارنر کے گگن شاہد نے خوشگوار خبر سنائی کہ میری کتاب خیال سرائے کی تمام جلدیں نکل گئی ہیں بلکہ پچھلی دونوں کتابوں زنگار اور وازوان کی بھی کوئی جلد باقی نہیں رہی۔ سب رنگ کہانیوں کے سیٹ بھی نکلتے رہے اور بھی بہت کچھ ۔ جتنا رش، ذوق شوق اور کتابوں کی خریداری کا جذبہ ان لوگوں میں دیکھا، اس سے نئی امید جاگی، حوصلہ بلند ہوا۔ جو یہ کہتے ہیں کہ لوگ کتابیں نہیں پڑھتے یا یہ صدی کتابوں کی آخری صدی ہے ، ایسے لوگوں کو کراچی کتاب میلے جیسے ایونٹس میں ضرور شرکت کرنی چاہیے۔ بے شمار لوگ اپنے بچوں کو لے کر آئے، بزرگ خواتین آئیں، کئی خواتین وہیل چیئر پر دیکھیں جن کی سعادت مند اولاد ماں کو لئے مختلف سٹالز پر جا رہے تھے اور وہ اماں جی مزے سے کتابیں دیکھ اور پسند کر رہی ہیں۔ دوتین چیزیں البتہ ایسی ہیں جن کی طرف توجہ دلانی چاہیے۔ ایکسپو سنٹر میں کتاب میلہ کے لئے سٹالز کی قیمتیں کم ہونی چاہیئں۔ اس بارایک لاکھ کے لگ بھگ ایک چھوٹے سے سٹال کا کرایہ تھا۔ بڑے پبلشرز کو دو تین سٹالز اکھٹے لینے پڑتے ہیں۔بہت سے پبلشر لاہور سے کراچی گئے تھے، ظاہر ہے عملہ بھی ساتھ تھا، ان سب کے اخراجات پر بھی خاصا خرچ ہوا ہوگا۔ حکومتوں کو چاہیے کہ وہ کتاب میلوں کے لئے سٹالز کے کرایے میں خصوصی رعایت دیں۔ کسی عام نمائش اور کتاب کی نمائش میں واضح فرق ہونا چاہیے ۔ میڈیا میں کتاب میلوں کی کوریج ہوتی ہے، مگر یہ ناکافی ہے، اسے بڑھایا جائے۔ بہتر ہو کہ ان دنوں میں بڑے اینکرز حضرات اپنے پروگرام کا ایک سیگمنٹ کتابوں پر بھی رکھیں، کالم لکھے جائیں۔ تب اس علمی سرگرمی کا تاثر زیادہ گہرا اور مستحکم قائم ہوپائے گا۔ عقیل عباس جعفری نے نشاندہی کی کہ کراچی میونسپل کارپوریشن کے تحت کئی لائبریریاں تھیں، جو سالانہ بنیاد پر نئی کتابیں خریدا کرتی تھیں۔ اب وہ نظام بھی تلپٹ ہے۔ یہ چیزیں بہتر ہونی چاہئیں۔ سرکار کے تحت چلائی جانے والی لائبریریاں اگر کتابیں فراخدلی سے خریدیں تو اس کے مثبت اثرات ہوں گے۔ کراچی میں گزرے تین چار دنوں میں بار بار یہ تاثر بنا کہ کاش اس شہر نگاراں کو لاقانونیت اور سٹریٹ کریمنلز، بھتہ خوروں سے نجات مل جائے تو پاکستان کے بہت سے مسائل صرف یہی ایک شہر دور کر سکتا ہے۔اس پرمزید بات بھی کریں گے ان شااللہ۔