معزز قارئین!۔ گزشتہ روز 27 اکتوبر تھی ، آج مجھے ، 60 سال پہلے ، 27 اکتوبر 1958ء کو پاکستان کے پہلے منتخب ؔ صدر میجر جنرل(ر) سکندر مرزا کو برطرف کر کے منصب صدارت سنبھالنے والے صدر جنرل محمد ایوب خان کی یاد آئی۔ اِس سے پہلے صدر سکندر مرزا نے 7 اکتوبر 1958ء کو ، آرمی چیف جنرل محمد ایوب خان کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر کر کے ملک میں مارشل لاء نافذ کردِیا تھا ۔اقتدار سنبھالنے پر صدر جنرل محمد ایوب خا ن نے معزول صدر سکندر مرزا کو لندن جلا وطن کردِیا تھا ۔ مرزا صاحب 13 نومبر 1969ء کو انتقال کر گئے اور ایران کے شہر مشہد ؔمیں دفن کئے گئے۔ بعد ازاں صدر محمد ایوب خان کو 25 مارچ 1969ء کو اقتدار جنرل محمد یحییٰ خان کے سپرد کرنا پڑا۔ 19 اپریل 1974ء کو انتقال ہُوا تو ،اُنہیں (صوبہ سرحد) صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع ہزارہ کے گائوں ریحانہ میں دفن کِیا گیا۔ جہاں وہ، 14 مئی 1907ء کو پیدا ہُوئے تھے ۔ 7 اکتوبر 1958ء کو جب، صدر سکندر مرزا نے ملک میں مارشل لاء نافذ کِیا تو، اُن کی مارشلائی کابینہ میں لاڑکانہ کے نوجوان وکیل (جاگیردار) ذوالفقار علی بھٹو بھی شامل تھے ۔وزارت کا منصب سنبھالتے ہی صدر سکندر مرزا کے نام ، جنابِ بھٹو کا یہ خط "On Record" ہے کہ ’’ صدر محترم !۔ آپ قائداعظمؒ سے بھی بڑے لیڈر ہیں ‘‘۔ صدر جنرل محمد ایوب خان کی مارشلائی کابینہ میں بھی بھٹو صاحب شامل تھے اور چند ہی دِنوں میں وہ، صاحبِ صدر کے "Blue-eyed Boy" بن گئے ۔ بھٹو صاحب صدرِ ایوب خان کو "Daddy" کہا کرتے تھے اور صدر صاحب بھی بھٹو صاحب کو اپنے بیٹوں کی طرح سمجھتے تھے ۔ جنابِ بھٹو صدر محمد ایوب خان کو ’’صلاح اُلدّین ایوبی ثانی ‘‘ اور ’’ایشیاء کا ڈیگال ‘‘ مشہور کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن، ناکامی ہُوئی ۔ 1962ء میں ، تحریک ِپاکستان کے بعض کارکنوں نے ’’کنونشن مسلم لیگ ‘‘ کے نام سے ایک سیاسی جماعت بنا کر اُس کی صدارت ، صدر محمد ایوب خان کو طشتری میں رکھ کر پیش کی تو، بھٹو صاحب کو اُس کا سیکرٹری جنرل بنایا گیا۔ یہ بات بھی "On Record" ہے کہ ’’ سیکرٹری جنرل جنابِ بھٹو نے ، صدر کنونشن مسلم لیگ کو، یہ تجویز بھجوائی تھی کہ ’’کیوں نہ پاکستان کے ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنر کو، ضلع مسلم لیگ کا صدر اور سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کو سیکرٹری جنرل نامزد کردِیا جائے؟‘‘ لیکن، صدر مسلم لیگ کنونشن نے یہ تجویز مسترد کردِی تھی۔ 2 مئی 1965ء کے صدارتی انتخاب میں کنونشن مسلم لیگ اور پاکستان کے صدر محمد ایوب خان کے مقابلے میں قائداعظمؒ کی ہمشیرہ ’’ مادرِ ملّت ‘‘ محترمہ فاطمہ جناحؒ متحدہ اپوزیشن کی امیدوار تھیں تو، صدر محمد ایوب خان نے ، اِس خوف سے کہ کہیں سرکاری ملازم ( فیلڈ مارشل ) کی حیثیت سے الیکشن کمیشن آف پاکستان اُن کی کاغذاتِ نامزدگی مسترد نہ کردے ، اپنے دو وزراء ذوالفقار علی بھٹو اور محمد شعیب کو اپناCovering Candidate" "نامزد کردِیا۔ معزز قارئین!۔ صدارتی انتخاب سے قبل امیر جمعیت عُلماء اسلام ( فضل اُلرحمن گروپ ) کے والد مفتی محمود (مرحوم) نے 3 اکتوبر 1964ء کو ’’جمعیت علماء ‘‘ اسلام کے ناظم اعلیٰ کی حیثیت سے فتویٰ دِیا تھا کہ ’’ شریعت کے مطابق خاتون ، فاطمہ جناحؒ صدرمملکت کے عہدے کے لئے نااہل ہیں ‘‘۔ اُس کے بعد صدر محمد ایوب خان نے مفتی صاحب کے مدرسوں کی دِل کھول کر سرپرستی کی اور 1962ء کے اوائل میں ’’اسلامی نظریاتی کونسل ‘‘ قائم کی۔ علاّمہ اقبالؒ کہا کرتے تھے کہ’’ کسی مسلمان ملک کی منتخب قومی اسمبلی ہی کو اجتہاد کا استحقاق حاصل ہے ، عُلماء کے کسی گروپ کو نہیں ؟‘‘لیکن، صدر محمد ایوب خان کے ہی دَور میں جب، فروری 1962ء ہی میں قومی اسمبلی کے انتخابات ہُوئے تو، اسلامی نظریاتی کونسل کی کیا ضرورت تھی؟ ‘‘۔ محترمہ بے نظیر بھٹو دو بار وزیراعظم کے منصب پر فائز رہیں تو، فضل اُلرحمن صاحب نے عورت کی سربراہی کے بارے میں اجتہاد ؔکِیا اور وہ اُن کے اتحادی بن گئے۔ محترمہ کے دوسرے دَور میں اُن کے وزیر داخلہ میجر جنرل (ر) نصیر اللہ خان بابر کا یہ بیان "On Record" ہے کہ ’’ مَیں نے محترمہ وزیراعظم سے کہہ دِیا ہے کہ، اگر آپ سٹیٹ بنک آف پاکستان کی چابیاں بھی ، امیر جمعیت عُلماء اسلام ( فضل اُلرحمن گروپ) کے سپرد کردیں تو ، بھی وہ مطمئن نہیں ہوں گے !‘‘۔ اِس پر جب میڈیا نے فضل اُلرحمن صاحب سے پوچھا کہ ’’ آپ وزیر داخلہ نصیر اللہ خان بابر پر ہتک عزّت کا دعویٰ کیوں نہیں کرتے تو، اُنہوں نے کہا تھا کہ ’’ مَیں نے یہ معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کردِیا ہے! ‘‘۔ معزز قارئین! ۔ بعض سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ ’’ فضل اُلرحمن صاحب کے پاس کوئی ’’گِدڑ سنگی‘‘ہے کہ ’’اُنہیں صدر آصف زرداری نے کشمیر کمیٹی کا چیئرمین مقرر کِیا اور اُس کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے بھی اُنہیں اِس عہدے پر قائم رکھا؟‘‘۔ 14 اکتوبر 2017ء کو تو، کمال ؔہی ہوگیا جب، نااہل وزیراعظم نواز شریف کی ہدایت پر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بقول اُن کے ’’مفتی محمود کی دینی، قومی اور سیاسی خدمات ‘‘ کے اعتراف میں ’’ یادگاری ڈاک ٹکٹ‘‘ جاری کِیا اور ایک دِن پہلے منعقدہ خصوصی تقریب میں ، وزیراعظم ہائوس کی دیوار میں نصب مفتی صاحب کی "Four Colour Plaque" ( دھا ت، چینی وغیرہ کی تختی) کی نقاب کُشائی کی۔ قیام پاکستان کے بعد مفتی محمود (مرحوم) کا یہ بیان "On Record" ہے کہ ’’ خُدا کا شُکر ہے کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں تھے‘‘ لیکن، پھر مفتی صاحب ، قائداعظمؒ کے پاکستان میں ’’صوبہ سرحد ‘‘ ( خیبر پختونخوا ) کے (1972ء سے 1973ء تک) وزیراعلیٰ کی حیثیت سے ، نہ جانے گُناہ کے مرتکب رہے یا ثواب حاصل کرتے رہے ؟ ۔ مفتی محمود صاحب نے کبھی صدارتی انتخاب میں حصہّ نہیں لِیا تھا لیکن، فضل اُلرحمن صاحب نے ’’ اگر پِدر نتواند ، پِسر تمام کُند ‘‘ کے مصداق ، 4 ستمبر کو صدارتی انتخاب میں ،موجودہ صدرِ پاکستان جناب عارف علوی سے شکست کھا کر تاریخ میں نام ؔپیدا کرلِیا ۔ معزز قارئین!۔ پاکستان کی تاریخ میں ، یہ واقعہ سُنہری حروف سے لِکھا گیا ہے کہ ’’ ستمبر 1965ء کی پاک ، بھارت جنگ میں ، صدر محمد ایوب خان کی قیادت میں نہ صرف پاک فوج بلکہ پوری قوم نے متحد ہو کر بھارت کو مُنہ توڑ جواب دِیا تھا۔ یہ الگ بات کہ ’’ صدر محمد ایوب خان نے ، سوویت یونین کے وزیراعظم "Alexei Kosygin" کو ثالث بنا کر 10 جنوری 1966ء کو تاشقند میں بھارتی وزیراعظم لعل بہادر شاستری کے ساتھ ’’ اعلان تاشقند‘‘ پر دستخط کئے۔ اُن دِنوں وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو ’’اعلان تاشقند ‘‘ کے حق میں تھے لیکن، جون 1966ء میں وزارت سے مستعفی ہو کر وہ عوامی جلسوں میں کہا کرتے تھے کہ’’ تاشقند کا رازؔ کیا ہے ؟ مَیں بہت جلد قوم کو بتائوں گا ‘‘۔ سِولین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ، صدر پاکستان اور وزیراعظم کی حیثیت سے جنابِ بھٹو نے 20 دسمبر 1971ء سے 4 جولائی 1977ء حکومت کی پھر، 4 دسمبر 1979ء کو پھانسی کے پھندے پر جُھول گئے لیکن ، اُنہوں نے تاشقند کا راز ؔ اپنی سیاسی جانشین محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھی نہیں بتایا تو ، ’’ دامادِ بھٹو‘‘ کو کیا علم ہوگا؟۔ شاید نااہل وزیراعظم میاں نواز شریف ، میاں شہباز شریف یا شریف خاندان کا کوئی اور رُکن کبھی تاشقند کاراز فاش کر سکے ؟۔ معزز قارئین!۔ 1950 ء کی دہائی میں ایک بھارتی فلمی گیت کا یہ مُکھڑا (مطلع ) عام تھا کہ … تجھے کھو دِیا ، ہم نے ،پانے کے بعد! تیری یاد آئی، تیرے جانے ، کے بعد! کیا ہی اچھا ہو کہ ، میاں نواز شریف کے دامادِ اوّل کیپٹن (ر) محمد صفدر سمیت خیبر پختونخوا سے منتخب ارکان قومی و صوبائی اسمبلی یہ پتہ چلائیں کہ ضلع ہزارہ سے ، پنجاب اور سندھ میں داخل ہونے والے ٹرکوں کے عقب میں مرحوم صدر محمد ایوب خان کی "Four Colour" تصویر کے ساتھ یہ کیوں لکھا ہوتا ہے کہ … تیری یاد آئی ، تیرے جانے کے بعد!