جماعت اسلامی کی عوامی فلاح بہبود اور ملکی نظریاتی اساس کے دفاع کیلئے کی جانے والی کاوشوں کا بھلا کون معترف نہیں لیکن بد قسمتی سے ان کاوشوں کو عوام میں کبھی پزیرائی نہیں مل سکی بلا شبہ جماعت کی سالانہ سیاسی منصوبہ سازی میں اس کا کوئی ثانی نہیںلیکن برسوں کی انتھک محنت کے باوجود اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوسکے تاہم نتائج کی پروا کئے بغیر جماعت اسلامی ملکی نظریاتی اساس کی ہمیشہ سے آبیاری کرتی چلی آ رہی ہے اور آئندہ بھی یہ کردار ادا کرنے کیلئے پر عزم ہے ، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مذہبی جماعتوں بارے ایک پلاننگ کے تحت یہ سیاسی تھیوری پروان چڑھائی گئی کہ میدان سیاست میں کامیابی جماعت اسلامی یا کسی اور مذہبی جماعت کے پلیٹ فارم سے ممکن نہیں ، سیاسی میدان میں کامیابی کیلئے کسی سیاسی پلیٹ فارم پر ہی جانا ہوگا۔ جماعت اسلامی سے وابستہ بعض افراد بھی اس تھیوری کی نظر ہوئے اور سیاسی کساد بازاری کے دور میں جماعت اسلامی کے تربیت یافتہ بعض افراد نے دوسری سیاسی جماعتوں کا رخ کیا جہاں انہیں خوش آمدید کہا گیا اور پھر بہت ہی مختصر وقت میں ان ''جماعتی ''افراد نے نہ صرف اپنا مقام بنایا بلکہ اپنی نئی جماعتوں میں ہراول دستہ کا کردار ادا کیا اور اس ملک کو بھنور سے نکا لنے میں اپنا اپنا حصہ ڈالا۔ آخر ملک کی قدیم ، منظم اورمتحرک جماعت ہونے کے باوجود قیام پاکستان سے آج تک جماعت اسلامی میدان سیاست میں کوئی بڑی کامیابی حاصل کیوں نہ کرسکی ؟ اس موضوع پر گاہے جماعت اسلامی کے بہی خواہوں سے گفتگو ہوتی ر ہتی ہے ان کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں لیکن احترام لازم ہے ان بہی خواہوں کی رائے کو بڑے غور سے سنا اور اپنے دماغ میں محفوظ کرلیا تاکہ کسی موقع پر ان کے خیالات کو زیب قرطاس کیا جا سکے۔ آج مملکت خداداد جس صورتحال سے دوچار ہے شاید اس سے قبل کبھی نہ تھی۔ بجلی اور پٹرول کے نرخ میں ہوش ربا میں اضافہ ، بے پناہ مہنگائی ، بد تر ین بے روزگاری اور غیر یقینی کی صورتحال نے عوام کا جینا محال کردیا ہے ۔لوگ فاقوں پر مجبور ہیں ایسے میں چادر اور چار دیواری کا تحفظ بھی ممکن نہیں رہا ان حالات میں کوئی سیاسی جماعت بھی ظلم کی چکی میں پسے عوام کی چیخوں پر کوئی قدم اٹھانے کو تیار نہیں صرف جماعت اسلامی ہی ملک بھر میں عوامی آواز پر لبیک کہتے ہوئے علم بغاوت بلند کر رہی ہے۔ بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت اپنے اپنے راگ الاپ رہی ہیں کوئی ایوان اقتدار تک پہنچنے کیلئے جلد'' انتخابات'' کا مطالبہ کر رہا ہے ، کوئی نواز شریف کی ''محفوظ'' واپسی کے لئے بے چین ہے اور کسی کو اپنے کیسزکی'' فکر'' کھائے جا رہی ہے سابق حکمران اتحاد میں شامل دیگر جماعتوں میں سے بھی کسی کو عوام کی پروا نہیں۔ چھوٹی سیاسی جماعتوں سے کوئی بڑی امید نہیں کی جاسکتی لیکن کم از کم اپنے حصہ کی شمع جلائی جاسکتی ہے لیکن اس کی بھی کسی کو توفیق نہیں ہوئی۔ایسے میں جماعت اسلامی کے کارکن ہی میدان کارزار میں اترے ہیں کیونکہ جماعت اسلامی کے کارکن سے قیادت تک کسی پر بھی کوئی کرپشن چارجز نہیں ،یہ ہی ہیں جنہیں اپنے سے زیادہ عوام کی فکر ہے تاریخ گواہ ہے کہ وطن کیلئے ہر آڑے وقت میں جماعت اسلامی ہی نے قربانی دی اور پھر اپناتن من دھن سب کچھ ہی وطن عزیز پر وار دیا یقیناً یہ سب کچھ ووٹ کیلئے نہیں کیا گیا جماعت اسلامی بہت سارے کام صرف ووٹ لینے کیلئے نہیں کرتی اگر صرف ووٹ لینے کیلئے کرتی پھر مشرقی پاکستان میں اس کے کارکن اپنی گردنیں اور کشمیر میں اپنی جانوں کے نزرانہ پیش نہ کرتے۔ کسی بھی بڑی سیاسی جماعت کا کوئی کارکن ملک میں آنے والی قدرتی آفات میں مصیبت زدہ عوام کی خدمت میں پیش پیش نظر نہیں آیا یہ اعزاز بھی جماعت اسلامی کے کارکن ہی کو حاصل ہوا کہ یہ مصیبت زدہ عوام کے شانہ بشانہ رہے اور ان کی ہر ممکن مدد کی۔ اس تمام اخلاص اور انتھک جدوجہد کے باوجود سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ عوام انتخابات میں جماعت اسلامی کو ووٹ کیوں نہیں دیتے؟ اس بارے ایک موقع پر اہم گفتگو معروف صحافی سابق پریس سیکریٹری صدر مملکت فاروق عادل سے ہوئی وہ ایک محفل میں اس بارے اپنا کا نکتہ نظر بیان کر رہے تھے کہ جماعت اسلامی ''معروف سیاست'' کے اصولوں سے آشنا نہیں عوام اسے آخر ووٹ کیوں دیں ؟ جماعت اسلامی'' مقبول سیاست'' کے گر نہیں جانتی لوگ اسے کیوں جائن کریں ؟جماعت اسلامی ہمیشہ انتخابات میں اپنی ناکامی کا ذمہ دار عوام کو ٹھراتی ہے ۔ جس کی وجہ سے عوام جماعت اسلامیسے دور ہوجاتے ہیں اور اسے آئندہ کیلئے بھی اپنے ووٹ کی طاقت سے محروم کردیتے ہیں پھر فاروق عادل کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی کی قیادت اچھے کام کرتی ہے لیکن یہ کام موقع کی مناسبت سے نہیں ہوتے بے موقع کئے جانے والے کام بے وقت کی راگنی ہیں جس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا ، چند ماہ ایک موقع پر ان کے سوشل میڈیا پر یہ خیالات پڑھنے کا اتفاق ہوا جس میں انھوں نے حافظ نعیم الرحمن کی کامیابی بارے اپنا خیالات شیئر کئے تھیکہ جماعت اسلامی کے امیدوار حافظ نعیم الرحمن اکثریت کا دعویٰ ضرور کر رہے ہیں لیکن مئیر شپ کی نشست کا حصول ان کیلئے ممکن نہیں گا ، حافظ نعیم الرحمن بارے خیالات نے بات بڑی واضح کردی ہے کہ جماعت اسلامی کی انتخابی ناکامی میں رکاوٹ جماعت اسلامی کے کارکن کا سیاسی رویہ نہیں بلکہ رویہ ہے۔ قاضی حسین احمد نے پاکستان اسلامک فرنٹ کے پلیٹ فارم سے '' معروف اور مقبول سیاست'' کا ایک تجربہ کیا لیکن اس میں بھی کامیابی ممکن نہیں ہوئی اب غور طلب بات یہ ہے کہ کیا ''معروف اور مقبول سیاست''کو اپنانے سیبھی کامیابی ممکن ہوتی ہے یا کسی اور وجہ سے ۔ ٭٭٭٭٭