وزیر اعظم کے نادان دوستوں نے کہا کہ ہیلی کاپٹر کیس میں عمران خان کو طلب کرنا وزارت عظمیٰ کی توہین ہے۔ نیب کو اس توہین سے باز رہنا چاہئیے۔دو دن گزرنے کے باوجود وزیر اطلاعات فواد چودھری کے اس بیان پر ریاست مدینہ کے نام لیوا وزیر اعظم نے وزیر اطلاعات کا محاسبہ کیا اور نہ ہی کوئی سرزنش۔ کیا ریاست مدینہ کا کوئی حاکم قانون سے ماوراء تھا، کسی خلیفہ کو عدالت میں پیشی سے استثنیٰ حاصل تھا اور نہ ہی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور میں اس کی کوئی گنجائش ہے۔ بالآخر چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال کو بولنا پڑا کہ اگر قائد حزب اختلاف کو بلایا جا سکتا ہے تو قائد حزب اقتدار اور وزیر اعظم پاکستان کو کیوں نہیں بلایا جا سکتا۔ وزیر اعظم کی طلبی ان کی توہین نہیں، توقیر ہے۔ اس سے تو دنیا پر عیاں ہوتا ہے کہ پاکستان میں قانون کی بالادستی ہے۔ ریاست مدینہ تو عدل و انصاف کے سنہری واقعات سے بھری پڑی ہے۔ عمرؓ بن خطاب خطبہ دینے کے لیے مسجد نبوی میں کھڑے ہوئے تو ایک صحابی نے اٹھ کر سوال کیا کہ عمرؓ جب تک میرے سوال کا جواب نہ دو گے ہم تمہاری بات سنیں گے نہ تمہاری اطاعت کریں گے۔ مسجد میں سناٹا چھا گیا مگر کسی وزیر مشیر نے صحابی کو چپ کرایا نہ اسے بیٹھ جانے کو کہا۔ حضرت عمرؓ بن خطاب نے فرمایا ہاں ہاں بے دھڑک سوال کرو۔ صحابی نے کہا کہ تمہیں مالِ غنیمت میں ملنے والی چادر سے یہ کرتا تو نہ بن سکتا تھا جو تم نے زیب تن کیا ہوا ہے۔ حضرت عمرؓ نے اپنے بیٹے عبداللہ سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا کہ تم جواب دو۔ حضرت عبداللہ نے کہا کہ بے شک ایک چادر سے میرے والد کا کرتا نہیں بن سکتا مگر میں نے اپنے حصے میں آنے والی چادر اپنے والد کو دے دی تھی تو دو چادروں کو ملا کر یہ کرتا بنایا گیا ہے۔ یہ سن کر صحابی نے اللہ کا شکر ادا کیا اور کہا کہ عمر اب تمہاری بات بھی سنیں گے اور تمہاری اطاعت بھی کریں گے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی زرہ کا مشہور واقعہ ہے۔ ایک یہودی نے قاضی شریح کی عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا۔ قاضی نے حضرت علیؓ کو طلب کر لیا۔ یہودی کا دعویٰ تھا کہ یہ زرہ اس کی ہے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا یہ غلط کہتا ہے زرہ میری ہے۔ قاضی شریح نے سن کر کہا کہ میں آپ کے جواب دعویٰ کو تسلیم کرتا ہوں کیونکہ یہ زرہ میں نے خود آپ کے پاس دیکھی تھی مگر آپ کو قانونی تقاضوں کے مطابق گواہ پیش کرنا ہوں گے۔ حضرت علیؓ نے اپنے غلام قنبر اور اپنے دونوں صاحبزادوں حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام بطور گواہان پیش کیے مگر قاضی شریح نے غلام قنبر کی گواہی تو تسلیم کر لی اور کہا کہ حسنؓ اور حسینؓ کی گواہی قبول نہیں۔ اس پر خلیفہ وقت علی مرتضیؓ نے فرمایا کہ میں نے خود حضرت عمرؓ بن خطاب سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جنت کے نوجوانوں کے سردار حسن اور حسین ہوں گے۔ کیا آپ سردارانِ جنت کی گواہی بھی قبول نہ کریں گے۔ اس پر قاضی شریح نے کہا کہ یہ حدیث سر آنکھوں پر مگر اسلامی شریعت سے مطابق والد کے حق میں بیٹوں کی گواہی قابلِ قبول نہیں ہوتی۔ حضرت علیؓ نے کوئی اور گواہ پیش نہ کیا اور فیصلہ یہودی کے حق میں ہو گیا۔ یہودی یہ دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا اور وہ پکار اٹھا کہ بے شک یہ پیغمبرانہ عدل ہے۔ اس نے کہا کہ میرا دعویٰ جھوٹا تھا۔ یہ زرہ حضرت علی ہی کی ہے۔ یہودی نے اسی وقت کلمہ پڑھا اور مسلمان ہو گیا۔ عمران خان برسراقتدار آئے تو ہم جیسے ان کے کئی بہی خواہوں اور خیر خواہوں نے انہیں مشورہ دیا تھا۔ اب عدالتوں، احتسابی اداروں کو خود کام کرنے دیں اور آپ کاروبار حکومت میں ہمہ تن جت جائیں۔ مگر ہو کیا رہا ہے کہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار، پہلے سے پیش گوئی کر دیتے ہیں کہ فلاں شخص نیب کی حراست میں اور فلاں پسِ دیوارِ زنداں جا رہا ہے۔ صدر آصف علی زرداری کے خلاف نااہلیت کا ریفرنس حکومت نے الیکشن کمیشن میں دائر کر رکھا تھا جسے گزشتہ روز واپس لے لیا گیا اور مزید ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ سابق صدر کو نا اہل قرار دلوانے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ ہمارا اندازہ تھا کہ مختلف اطراف سے آنے والے مشوروں کی روشنی میں حکومت اپوزیشن کے ساتھ لڑائی پھیلائے گی نہیں سمیٹے گی اور سیاسی معاملات کی ڈور کو مزید الجھائے گی نہیں سلجھائے گی۔ تا ہم حکومتی رویے اور تیور تو یہ بتاتے ہیں کہ وہ کرپشن کے خلاف تمام تر کارروائی کو عدالتوں کی صوابدید پر چھوڑنے کی بجائے اس جنگ کو خود جارحانہ انداز میں لڑنا چاہتی ہے۔ گزشتہ روز ای سی ایل سے بلاول اور مراد علی شاہ کے نام نہ نکالنے پر وفاق اور سندھ کے درمیان شدید نوعیت کی لفظی جنگ شروع ہو گئی ہے اور سندھ نے دھمکی دی ہے کہ وہ وفاقی حکومت کے بدکلام وزیروں کا سندھ میں داخلہ بند کر دے گی۔ جہاں تک معیشت کے منہ زور گھوڑے کا تعلق ہے تو اس کی باگیں ابھی تک وزیر خزانہ اسد عمر کے ہاتھ میں نہیں آئیں۔ وہ پہلے بجلی، گیس اور دوسری اشیائے صرف کی قیمتوں کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچا چکے ہیں اور اب منی بجٹ لانے اور کئی نئے ٹیکس لگانے کی نوید سنا رہے ہیں۔ اشیاء اور خدمات کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے سے غریب ہی نہیں سفید پوش طبقے کی چیخیں بھی بلند ہو رہی ہیں۔ ابھی ابھی ٹیلی ویژن پر خبر دیکھی ہے کہ حکومت بیماروں پر ’’میڈیسن بم‘‘ گرانے کی بھی تیاری کر رہی ہے۔ اسد عمر نے یہ بھی کہا ہے سعودی اور اداراتی قرض پر سود ادا کرنا ہو گا۔ عوام بیچارے اس کے سوا اور کیا کہہ سکتے ہیں ع اک ستم اور مری جاں ابھی جاں باقی ہے ان سب معاشی مصائب وسائل کا حل سیاسی استحکام اور شرح نمو میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ہے جبکہ شرح نمو 5.8سے 3.7پر آ چکی ہے۔ جب جوش ہوش پر غالب آ جائے تو پھر یہ خیال بھی نہیں رہتا کہ وفاقی کابینہ جس وزارت کی سفارش کو مسترد کر رہی ہے اس وزارت کے انچارج خود وزیر اعظم عمران خان ہیں۔ وزارتِ داخلہ کا قلمدان براہِ راست ان کے پاس ہے۔ جناب چیف جسٹس کی ہدایت پر اپنی وزارتِ داخلہ کی سفارش کو مسترد کرنے کا آفٹر تھاٹ کسی جذباتی بقراط کے ذہنِ رسا کا شاہکار لگتا ہے۔ اقتدار کے سنگھاسن پر متمکن ہو کر بالعموم حکمرانوں کو اپنے رویوں پر ریویو کرنے کی توفیق کم ہی نصیب ہوتی ہے۔ عمران خان ویک اینڈ پر اب تک کی کارکردگی کا جائزہ لیں۔ لوگوں نے ان سے بے شمار امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔ عوام ریاست مدینہ کے ثمرات سے فیض یاب ہونے کے منتظر ہیں۔ خدانخواستہ یہ سہانا خواب کسی ڈرائونے خواب میں بدلا تو نقصان وزیروں مشیروں کا نہیں ہو گا۔ اصل نقصان عمران خان اور عوام کا ہوگا۔ عمران خان یاد رکھیں وزیروں مشیروں کا انتخاب حاکم وقت کی عقل و دانش کا امتحان ہوتا ہے۔ ریاست مدینہ کے نام لیوا وزیر اعظم کی عدالت میں پیشی اس کی توہین نہیں توقیر ہے۔