8 فروری کو ہونے والے الیکشن کے تنازعات میں ہر روز اضافہ ہورہا ہے ۔ انتظامی نااہلی ، جانبدارانہ طرزعمل اور عدم شفافیت الیکشن سے پہلے ہی نظر آرہی تھی اور اب جو صورتحال سامنے آرہی ہے اس نے الیکشن اور اس کے نتائج کو بری طرح متاثر کردیا ہے۔ پاکستان میں الیکشن نتائج کو تسلیم نہ کئے جانے کی روایت تو ہمیشہ ہی رہی ہے ۔ مگر اس بار تو جو جیتے ہیں وہ بھی اپنی جیت کو تسلیم نہیں کر رہے ہیں ۔ کراچی کے حافظ نعیم جن کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے انہوں نے یہ کہہ کر اپنی جیتی ہوئی نشست الیکشن کمیشن کو واپس کردی کہ ان کے پاس جو نتائج ہیں اس کے مطابق آزاد امیدوار کے ووٹ زیادہ ہیں اور یہ کہ مجھے اس طرح خیرات میں نشست نہیں چاہیئے۔ ہارنے والے ( یا ہرائے جانے والے ) تو احتجاج کر ہی رہے ہیں مگر ایسا اس بار دیکھنے میں آیا ہے کہ جیتنے والے امیدوار بھی شرمسار سے ہیں اور کھل کر اپنی جیت کا اظہار نہیں کر پارہے ہیں۔ اس ضمن میں الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے پورا کرنے میں ناکام رہا ہے ۔ الیکشن سے پہلے ہی اس کے طرز عمل پر اعتراضات کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا اور جس باریک بینی کے ساتھ اس نے اپنے سارے قواعد و ضوابط کا اطلاق محض ایک سیاسی جماعت ( پاکستان تحریک انصاف ) پر کیا وہ ہر گز مساوی اور منصفانہ نہیں تھا پھر انتظامی مشکلات ان کے سوا تھیں۔ اس کے باوجود وہ سب کچھ نہیں ہوا جو بعض سیاسی اور غیر سیاسی حلقے چاہتے تھے۔ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار علیحدہ علیحدہ نشانات کے ساتھ آزادحیثیت میں کھڑے ہو ئے اور بڑی تعداد میں کامیاب رہے ۔ الیکشن نتائج کے مطابق کوئی بھی سیاسی جماعت قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل نہیں کرسکی البتہ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار سب سے زیادہ کامیاب ہوئے۔ پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کامیابی کے اعتبار سے بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔ الیکشن کے نتائج نے سیاسی صورتحال کو پیچیدہ اور گھمبیر بنادیا ہے۔ ایک طرف حکومت سازی کے لئے کوششیں جاری ہیں۔ مختلف تجاویز اور فارمولے زیر بحث ہیں تو دوسری طرف الیکشن نتائج سے غیر مطمئن سیاسی جماعتیں ملک گیر احتجاج کے لئے منظم ہو رہی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کا یہ دعویٰ ہے کہ اسکی واضح اکثریتی جیت کو تبدیل کیا گیا ہے وہ قومی اسمبلی میں ایک بڑی سیاسی قوت کے طور پر تو سامنے آئی ہے مگر وہ تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔اسمبلی میں دیگر دو بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی سے وہ کسی بھی طرح کا اشتراک کرنا نہیں چاہتی ۔ یہ بات تو طے ہے کہ ان نتائج کے بعد وفاق میں مخلوط حکومت بننا ہے ۔ وفاق میں حکومت کی تشکیل کے لئے پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے مابین مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے ۔ اس مخلوط حکومت میں دیگر سیاسی جماعتوں کی شمولیت بھی متوقع ہے ۔ ریاست اس وقت جن مشکلات سے دوچار ہے اس میں تو ضرورت تو اس بات کی ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام کو جلد از جلد ممکن بنایا جائے الیکشن کا انعقاد کا بنیادی مقصد ہی یہ تھا کہ ایک منتخب حکومت کی تشکیل ہو جو پورے اعتماد کے ساتھ اہم فیصلوں کے ذریعہ ریاست کو مشکلات کے بھنور سے نکال سکے۔مگرایسا ہوتا نظر نہیں آرہا ۔ صورتحال ہر روز تبدیل ہو رہی ہے ۔گزشتہ دنوں کمشنر راول پنڈی ڈویژن کی جانب سے کی گئی پریس کانفرنس نے صورتحال کو مزید متنازع بنادیا ہے۔ انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ان کے ڈویژن کی 13 قومی اسمبلی اور 26 صوبائی اسمبلی کی نشستوں پرنتائج تبدیل کئے جانے کے احکامات دیے اور آزاد امیدواروں کی جیت کو ہار میں بدلا گیا۔ اس اعترافی بیان کی سچائی کی تصدیق تو ابھی ہونا باقی ہے مگر ان کے ضمیر کے اس طرح بیدار ہونے سے نہ صرف الیکشن بلکہ ریاست کی ساکھ مقامی اور عالمی سطح پر کتنی داغدار ہوئی ہے اس کا انہیں ادراک نہیں ۔ سچ کچھ بھی ہو مگر یہ طرز عمل انتہائی غیر سنجیدہ ہے ۔ اس کی اعلی سطحی تحقیقات کی جانی چاہیئے اور اس قضیہ کوجلد از جلد انجام تک پہنچایا جانا ضروری ہے۔ کیا سیاستدان ، انتظامیہ اور دیگر فیصلہ ساز نہیں جانتے کہ ان کا یہ رویہ اس ملک کے نوجوانوں کو کس قدر مایوس کر رہا ہے۔ ریاست اور اس کے اداروں سے ان کا اعتماد اور اعتبار کا رشتہ دن بدن کمزور ہوتا جارہا ہے۔ ریاست کے تما م سیاسی ، انتظامی ، عدالتی اور عسکری اداروں کو اس صوتحال میں اپنے طرز عمل کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ریاست ہر ادارے اور ہر منصب سے بالا تر ہے ۔ ریاست کو وجود اس کی بقا اور اس کی ترقی میں ہی سب کی بقا ہے ۔کہنے کو توسب یہ کہتے ہیں کہ انہیں ریاست کا مفاد سب سے زیادہ عزیز ہے مگر عمل ہر ایک کا اس کے منافی نظر آتا ہے۔ ریاست کا مفاد تو اس میں تھا کہ الیکشن آزادانہ اور منصفانہ کرائے جاتے ان کے نتائج شفاف طریقے پر مرتب اور بر وقت پیش کئے جاتے ۔ عوام کی رائے کو مقدم سمجھ کر اسے قبول کیا جاتا اور اقتدار ان کے سپرد کردیا جاتامگر یہ سب کہاں ممکن بنایا گیا ۔ الیکشن کمیشن نے اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرنے میں غفلت کا اظہار کیا ۔ سیاسی جماعتوں نے تحریک انصاف کے ساتھ کئے جانے والے طرز عمل پر اپنے مفاد میں خاموشی اختیار کئے رکھی۔ نگران حکومت کی انتظامیہ اپنی غیر جانبداری پیش نہیں کر سکی ۔اعلی عدلیہ نے بھی اس تمام تر صورتحال پرکوئی از خود نوٹس لینا ضروری نہیں سمجھا۔اگر بروقت تمام ادارے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتے تو آج ریاست جس سیاسی بحران کا شکار ہے اسے اس کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ جمہوری اور آئینی طرز حکمرانی کے تناظر میں پاکستان کا ریاستی تشخص اقوام عالم کی درجہ بندی میں مسلسل مائل بہ زوال ہے۔ایک عالمی ادارے کے جائزے کے مطابق 150 ممالک کی فہرست میں پاکستان کا نمبر 118واں ہے ۔گزشتہ سال کی رپورٹ میں پاکستان کی درجہ بندی 105 ویں نمبر پر تھی ۔یہ با ت تو سب ہی جانتے ہیں کہ فی زمانہ تیز رفتار اطلاعاتی سہولتوں نے عوامی شعور کو اجاگر کرنے میں اپنا کردار خوب ادا کیا ہے ۔ اب ریاست کے تمام سیاسی اور غیر سیاسی اداروں کا کردار اور طرز عمل عوامی نشانہ پر ہے۔ آئینی طور پر ریاست پر حکمرانی کا اختیار عوام کے منتخب نمائندوں کا ہے ۔عوام کو اس اختیار سے بہت دیر تک محروم نہیں رکھا جاسکتا یہی زمینی حقیقت ہے۔ بس اس کھلی حقیقت کو سمجھنے اور ماننے کی ضرورت ہے ۔ ریاست کو درپیش تمام بحران کم ہونا شروع ہوجائینگے ۔