اس وقت مملکت خدادادمیں، قوم جذباتی، بحران بڑے اور لیڈر چھوٹے ہیں،کاش کوئی ایک آگے بڑھ کر قوم کو دلدل سے نکالنے کا فیصلہ کرے۔توازن اور اعتدال تو صرف انبیاء کا خاصہ ہے مگر رسوم سے اجتناب اور نمائشی تکلفات سے احتراز کی کوشش کرنی چاہیے ۔اسی کے باعث مسائل قابو میں رہیں گے ۔ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ حج کوٹہ واپس کیا گیا ۔یہ مسئلہ کیوں پیش آیا؟سیاسی ہیجان،عدم استحکام ،مہنگائی اور بدانتظامی۔ رواں برس حج کی مد میں 12 لاکھ روپے کے قریب وصول گئے ۔ 2020 ء کے لیے حج کے اخراجات چار لاکھ 86 ہزار 270 روپے مقرر کیے گئے تھے، جو 2019 ء میں چار لاکھ 36 ہزار 935 روپے اور 2018 ء میں تقریباً دولاکھ 93 ہزار50 روپے تھے۔ اس طرح یہ دو سال میں تقریباً 66 فیصد اضافہ بنتا ہے۔اگر ملک میں ایسے ہی افراتفری رہی تو آئندہ برس یہ اخراجات 15لاکھ روپے سے تجاوز کر جائیں گے۔ ان حالات میں عام آدمی کے لیے حج کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوتا جا رہا ، متوسط طبقے کے افراد شش و پنج میں مبتلا ہیں کہ کیا وہ کبھی حج ادا کر بھی سکیں گے؟حج کے تین بڑے اخراجات ہیں ۔فضائی ٹکٹ ،40روزہ رہائش،کھانا پینا ،ٹرانسپورٹ اورپانچ دن کے مکاتب کا خرچہ ۔اگر فضائی ٹکٹ کی بات کی جائے ،تو وہ ڈالر کے ساتھ نتھی ہے۔لہذا جب تک ہماری معیشت مضبوط نہیں ہو سکتی ،تب تک ہمیں مہنگا ٹکٹ خریدنا پڑے گا۔ڈالر کی قیمت واپس آنے کے دور دور تک کوئی امکان نہیں۔پاکستان کے سیاسی نظام میں چیز مہنگی ہو سکتی ہے لیکن سستا ہونا انتہائی مشکل ۔لہذا متبادل کے طور پر حکومت بحری سفر کا انتظام کر سکتی ہے ۔اس سے نہ صرف اخراجات میں کمی واقع ہو گی بلکہ ہوٹل کا کرایہ بھی کچھ دنوں کا کم ہو سکے گا۔فضائی سفر کے ذریعے جب آپ حج پر جائیں گے، تو اس کے لیے سعودی حکومت شدید رش کے باعث دنیا بھر کے لوگوں کے لیے ایک شیڈول جاری کرتی ہے کہ آپ کا جہاز کس دن اور کس وقت لینڈ کر سکتا ہے۔مگر بحری جہاز کے لیے سخت شیڈول نہیں ہے ۔لہذا آپ 40یوم سے کم دن بھی قیام کر کے واپس آ سکتے ہیں ۔اس سے نہ صرف رہائشی اخراجات کم ہوں گے بلکہ فضائی بھی ۔ اگربحری جہاز حج شروع ہونے سے سات دن پہلے روانہ ہو جائے تو سعودی عرب جانے اور 7۔ 8 دن کے لیے ہوٹل کرائے پر لینے کی ضرورت نہیں ہوگی جس سے ڈیڑھ سے دو لاکھ روپے کی بچت ہونے کی امید۔ متحدہ ہندوستان میں حجاج بحری جہاز پر ہی جاتے تھے ۔اب تو جدید بحری جہاز بھی آچکے ۔بنگلہ دیش کئی عشروں کے بعد بحری جہاز کی جانب آرہا ہے ،تو ہم کیوں نہیں آ سکتے ؟بنگلہ دیش نے 32 منزلہ بحری جہاز کے حصول کی کوششیں شروع کر دی ہیں، جو چٹاگانگ سے جدہ کے سمندری راستے پر آٹھ دنوں میں عازمین حج کو سعودی عرب لے کر جائے گا۔سعودی حکومت نے حج کے لیے منیٰ میں جو کیمپس لگائے ہیں، انھیں چار زونز میں تقسیم کیا گیا ہے:زون اے: یہ سب سے مہنگا بہترین سہولیات سے آراستہ زون ہے۔ یہ جمرات کے قریب ترین خیمے ہیں، جن میں اے سی وغیرہ سب سہولیات میسر ہیں۔ اس مکتب میں بفے کھانا، پرائیویٹ واش روم، صوفہ کم بیڈ وغیرہ سب کچھ منیٰ کی اصل حدود کے اندر ملے گا۔ زون بی: یہ جمرات یعنی شیطان سے تقریباً ایک کلومیٹر دور ہے۔ یہاں بھی اے سی، بفے کھانا، صوفہ کم بیڈ وغیرہ منیٰ کی پرانی اور اصل حدود کے اندر میسر ہو گا مگر واش روم مشترکہ ہو گا۔ زون سی:یہ جمرات یعنی شیطان سے دو سے تین کلومیٹر دور ہے ، یہاں اے سی نہیں ہو گا البتہ یہ کیمپ کولر والا ہے۔ یہاں واش روم کم اور لوگ زیادہ ہوتے ہیں۔ یہاں کچھ خیمے منی کی اصل حدود کے اندر اور کچھ منی کی حدود سے باہر نیو منی میں ہیں۔ زون ڈی: یہ جمرات یعنی شیطان سے خاصے دور مزدلفہ میں چار سے پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور یہاں کولر والے کیمپ ہیں، جن میں کم واش روم اور لوگ بہت ہی زیادہ ہوتے ہیں۔ یہ سب خیمے منی کی اصل حدود سے باہر نیو منیٰ میں ہیں۔ اب وہ افراد جن کے پاس سرمایہ کی کمی نہیں،وہ سہولیات والے زون کو ترجیع دیتے ہیں۔مگر غریب لوگ یہاں بھی زون ڈی میں ہوتے ہیں۔ حج مشکلات کا نام ہے ،اس لیے اس راستے میں اگر مشکلات آتی ہیں ،تو اسے خندہ پیشانی سے قبول کرنا چاہیے ۔حکومت پاکستان زون ڈی میں اپنے مہمانوں کو رکھ کراخراجات کم کر سکتی ہے ۔ حکومت پاکستان سعودی یونیورسٹیوں میں پڑھنے والی پاکستانی طلبا کی خدمات بھی بطورمعلم کے حاصل کر سکتی ہیں ۔اس سے معلم کے اخراجات کم ہو سکیں گے ۔سعودی عرب میں رہائش اور نقل و حمل کے اخراجات کو کم کر کے بھی حج کو سستا بنایا جا سکتا ہے۔ بھارت اپنے شہریوں کے لیے حج کے سفر کو سستا، آسان اور پرلطف بنانے کی راہ پر گامزن ہے،اس وقت بھارت میں حج کی ادائیگی پر فی حاجی 4 لاکھ روپے خرچ آتا ہے، اسے کم از کم 3 لاکھ روپے تک لایا جا رہا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملائیشیا کی طرز پر ہم انتظامات کیوں نہیں کر سکتے ؟ہمارے ہاں بھی حلال سرمایہ کاری کا اجرا ہو چکا ،اب تو بینک سیکٹر میں بھی یہ سہولت میسرہے۔ملائیشیا تو 1963سے یہ ماڈل اپنا چکا ہے ۔ملائیشیا میں ابتدائی طور پر 1281 لوگوں نے 46 ہزار610رنگٹ سے اکاؤنٹ کھلوائے اور 2019 تک اس میں 93 لاکھ اکاؤنٹ کھل چکے ہیں جن میں73 ارب رنگٹ جمع ہیں۔ اس منصوبے کے تحت کوئی بھی ملائیشین شہری کسی بھی ٹی ایچ برانچ میں مفت اکاؤنٹ کھلوا کر ہر ماہ اپنی استطاعت کے مطابق اس میں رقم جمع کرواتا رہتا ہے۔ ملائیشیا میں شاندار کامیابی کے بعد انڈونیشیا اور مالدیپ نے بھی اس منصوبے کو اپنا لیا۔ مولاناآزادنے کہا تھا :میں نے لوگوں کے عیب چننے کی بجائے ہمیشہ ان کی خوبیاں تلاش کی ہیں،جو لذت حسن تلاش کرنے میں ہے،وہ کسی اور چیز میں نہیں ،محاسن کی ڈھونڈ کر ہی سے آدمی اپنے محاسن کو بڑھا اور چمکا سکتا ہے ۔ دانشوروں سے بھی یہی گزارش ہے کہ وہ دوران حج آنے والی تکالیف کی بجائے ،اسے عام آدمی کے لیے آسان بنانے کی تجاویز دیں ۔محاسن تلاش کریں،آپ میں بھی نکھار آئے گا ۔