مجرموں کے ساتھ بہترین سلوک، سرکار کے خزانے سے ان کی زندگی کو سہولت آمیز کرنے کے لیے عملی اقدامات ، پنجاب کی جیلوں میں قید ہزاروں مجرموں کے لیے سرکار کا خزانہ حاضر ہے ،جبکہ یہیں پنجاب میں لاکھوں محنت کش سرکار کے سوتیلے پن کا شکار غربت اور افلاس کی گھٹن میں زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹ رہے ہیں۔،وزیراعلی مریم نواز شریف کا حالیہ کوٹ لکھپت جیل کا دورہ اس کی تازہ ترین مثال ہے۔ جب وزیراعلی قیدی خواتین کو پلیٹیں پیش کر رہی تھیں تو مجھے اپنا وہ پرانا کالم یاد آگیا جو میں نے اسی تضاد پر لکھا تھا۔اس کا کچھ حصہ قند مکرر کے طور پر کالم کا حصہ بناتی ہوں"یہ عجیب تضاد ہے کہ جیلوں میں بند چھٹے ہوئے بدمعاشوں اور خطرناک جرائم پیشہ افراد کو ہر حکومت سہولتیں دیتی ہے ۔اس کے برعکس ملک میں ڈیڑھ کروڑ مزدور طبقے کے لیے کبھی کسی حکومت نے معاشی سہولتوں کے کسی خصوصی پیکج کا اعلان نہیں کیا ان غریبوں کو تو ان کے نام پر ہونے والی چھٹی بھی نہیں ملتی۔یہ دیہاڑی دار پیٹ کا ایندھن بننے کے لئے روزانہ کنواں کھودتے ہیں۔ صبح سے دوپہر ہونے کے درمیان اگر آپ لاہور شہر کا ایک چکر لگائیں تو شہر کے مختلف چوکوں اور چوراہوں پر ایسے دیہاڑی داروں کے جتھے کے جتھے دیہاڑی کے منتظر دکھائی دیتے ہیں۔ یہ کھلے آسمان تلے بیٹھے سردی اور گرمی کے موسم کی سختیاں اپنے بدن پر سہتے ہیں۔ ہمارے ہاں کے طویل گرم موسم میں جب لو بھری دوپہریں انسانوں کو سائے اور چھاؤں کی تلاش کے لیے مجبور کر دیتی ہیں ہمارے یہ مفلوک الحال دیہاڑی دار لو کے تھپیڑے کھاتے کھلے آسمان کے تلے اپنی روزی روٹی کا انتظار کرتے ہیں۔ جبکہ پنجاب کی جیلوں میں بند 53 ہزار جرائم پیشہ افراد ہمارے اور آپ کے ٹیکسوں کے پیسے سے کسی بھی مزدور سے اچھا پیٹ بھر کے کھاتے ہیں اور آسودہ زندگی گزارتے ہیں۔ قتل و غارت منشیات منی لانڈرنگ انسانی سمگلنگ دھوکہ رہی جنسی زیادتیوں جیسے گھناؤنا جرائم میں ملوث لوگوں یہ آسودگی اور بہبود کے لئے ر یاست اپنا پیسہ لگاتی ہے ۔یقیناً قیدی ہونے سے انسانی حقوق معطل نہیں ہوتے اور ان کے بنیادی انسانی حقوق کی پاسداری ریاست کا فرض ہے۔ پنجاب کی جیلوں پر مختلف نوعیت کے جرائم میں ملوث قیدیوں کو دن میں تین دفعہ کھانا اور دووقت چائے دی جاتی ہے۔ان کے مینیو میں ہر قسم کی دالیں سبزیاں ہفتے میں پانچ چھ دفعہ مرغی کا سالن دیا جاتا ہے تاکہ ان کا پروٹین ان ٹیک پورا رہے۔قیدی بیمار ہوجائیں تو سرکار کے خرچ پر بہترین ڈاکٹر ان کا علاج کرتے ہیں۔ اس کے برعکس ایک مزدور جو سخت محنت مشقت کرکے دیہاڑی کماتا ہے وہ شاید مہینے میں ایک دفعہ بھی مرغی خرید کر کھانے کا نہیں سوچ سکتا۔اس کے لیے دو وقت کی دال روٹی پورا کرنا بھی جوئے شیر لانے کے برابر ہے۔ جبکہ محنت کش مزدور بیمار پڑ جائے تو پیناڈال پر گزارہ کرتا ہے ڈاکٹر کی فیسیں دینے کے پیسے نہیں ہوتے کہ قید خانوں میں جرائم پیشہ افراد کو پورا رمضان دودھ کجھوروں پراٹھوں پر مشتمل بہترین سحری اور افطاری ملتی رہی اس کے علاوہ بھی مخیر حضرات کی طرف سے کھانے کی فراہمی کا سلسلہ جاری رہا۔اس کے برعکس میرے ملک کے غریب محنت کش کے سحر اور افطار کیسے روکھے اور پھیکے تھے آپ میں سننے کا یارا ہو تو کسی مزدور سے پوچھ کر دیکھ لیں۔قیدیوں کی فلاح و بہبود کے لیے مراعات کا اعلان کرنے والے حکمرانوں کو یہ دیہاڑی دار مزدور کیوں دکھائی نہیں دیتے۔ جو زندگی کو ایک سزا کی طرح کاٹ رہے ہیں غربت اور فاقوں کے باوجود وہ جرم نہیں کرتے بلکہ محنت کر کے اپنا پیٹ بھرنے کی کوشش میں روز میں گھر سے نکلتے ہیں۔ موسموں کی شدت میں کھلے آسمان تلے بیٹھے دیہاڑی کا انتظار کرنے والوں کے لئے بیٹھنے کی مناسب جگہیں ہونی چاہیں ۔ ان کی اجرت بڑھائی جائے۔ پورا سال دیہاڑی دار مزدوروں کو سبسڈائزڈ راشن عزت اور احترام کے ساتھ ملنا چاہیے۔ فرمایا کہ الکاسب حبیب اللہ۔۔اللہ کے دوستوں کے ساتھ ریاست کا سلوک مجرموں کا سا ہے۔سچ اور دیانت کی سیدھی راہ پر چل کر محنت کرنے والے کسی سزا کی طرح زندگی گزارتے ہیں۔ جبکہ معاشرے کا امن تباہ کرنے والے۔لوگوں کی زندگیاں برباد کرنے والے چھٹے ہوئے بدمعاش اور بدترین جرائم پیشہ افراد سرکار کے خرچے پر بہترین زندگیاں گزارنے ہیں پھر بھی سرکار ان کی فلاح و بہبود کے لئے گھلی جاتی ہے۔ یہ مضحکہ خیز تضاد ، قابل گرفت مجرمانہ غفلت ہے کہ جرائم پیشہ افراد ریاست کے لاڈلے ہیں اور اللہ کے دوست محنت کشوں کے ساتھ ریاست کا سلوک مجرموں کا سا ہے " جیل میں موجود قیدیوں کے لیے تقریبا ہر حکومت نے ریلیف پیکجز کا اعلان کیا۔ عمران خان کی حکومت میں بھی جیل میں قیدیوں کے کھانے کو اپ گریڈ کیا گیا تھا اور ان کو سحری اور افطاری میں دودھ دہی کھجوریں اور بہترین کھانا دیا جاتا تھا۔ وزیراعلی مریم نواز شریف نے اخلاقی ، قانونی اور معاشرتی قوانین کو توڑ کر جیل کاٹتے ہوئے قیدیوں کے ساتھ افطاری کی اب وہ ایک افطار کسی ایک محنت کش کے گھر میں جا کے کر لیں اور دیکھیں کہ یہ دیہاڑی دار مزدور جو ریاست کے سوتیلے پن کا شکار ہیں، ان کے سحر اور افطار کیسے گزرتے ہیں ؟ان کے خستہ حال مکانوں میں کس طرح سے بھوک اور قحط کے سائے ہیں۔ ان کے بچوں کی آنکھوں میں کتنی حسرتیں دم توڑ رہی ہیں۔یہ محنت کش اور دیہاڑی دار مزدور معاشرے کا وہ طبقہ ہیں جو سرکار کے اعلان کردہ رمضان کے ریلیف پیکج حاصل کرنے کے لیے قطار اور انتظار میں ذلیل و خوار ہوتے ہیں، رمضان نگہبان جیسے پروگرام کچھ لوگوں تک تو پہنچ جاتے ہیں تاکہ فائلوں کا پیٹ بھی بھرا رہے اور غربت دور کرنے کا نعرہ بھی لگایا جا سکے۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔یہ عجیب تضاد ہے، سرکار ان مجرموں کو جا کر پچکارتی ہے جنہوں نے قانونی اخلاقی اور معاشرتی حدود توڑیں کسی نہ کسی کی زندگی تباہ کی، کسی کو قتل کیا اور مختلف طرح کے جرم ثابت ہونے کے عدالت کی اعلان کردہ سزائیں کاٹ رہے ہیں۔جب کہ اللہ کے دوست رمضان کے اس مہینے میں ایک آٹے کا تھیلا لینے کے لیے سڑکوں پر ذلیل و خوار ہوتے ہیں۔