زرعی شماری کسی بھی ملک کے اُن مکمل اور معروضی اعداد وشمار کا مجموعہ ہوتی ہے جو فارم مینجمنٹ کی سرگرمیوں، ملک میں فارم میکانائزیشن کی موجودہ حالت، کھیت کے اوسط سائز، مختلف فصلوں کے زیرِکاشت رقبوں اوران کی کاشت اور پیدوارسے منسلک عوامل، آبپاشی کی موجودہ حیثیت اور ذرائع سے متعلق رہنمائی کرتیہے۔ یہ اعدادوشمار حکومت، محکمہ زراعت، فارم تنظیموں، پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کے تجزیہ کاروںاورمحققین کے لئے زرعی ترقی اور مستقبل کی منصوبہ بندی کے لئے تجاویزکے تعین میں معاون ہوتے ہیں ،جن کی بنیاد پر مقامی، صوبائی اور وفاقی پالیسیوں کے بارے میں فیصلوں کو بہتر بنایا جا سکتا ہے،ایسے خطوں کی نشاندہی کی جا سکتی ہے جنہیں زیادہ فنڈز کی ضرورت ہے، ایسی قانون سازی کی جاسکتی ہے جو پائیدار زراعت کی حمایت کے لیے موزوں ہے۔ مزید برآں یہ عمل مارکیٹ تک رسائی کو بڑھا، غذائی تحفظ کا تجزیہ اور تعین کرنے کے ساتھ ساتھ پائیدار ترقی کے اہداف کی طرف پیش رفت اور ایک منافع بخش زرعی مستقبل کو آسان بنا سکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور جاپان جیسے ترقی یافتہ ممالک خوراک کی پیداوار بڑھانے اور زرعی طریقوں کو بہتر بنانے کے لیے ہر پانچ سال کے بعد زرعی شماری کا انعقاد کرتے ہیں۔یہاں تک کہ ہندوستان نے اب تک 11 زرعی اور 20 مویشیوں کی شماریاں کی ہیں،جس کے واضح اثرات ان کی زرعی پالیسی اور ترقی کے ضمن میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس کے برعکس، ہم نے اب تک صرف چھ زرعی اور لائیو سٹاک کی تین شماریاں کی ہیں۔ چنانچہ نئے اعدادوشمار کی عدم موجودگی کے اثرات ہماری زرعی ترقی میں بڑے واضح انداز میں دیکھے جا سکتے ہیں ۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن تمام تر منصوبہ بندی ان اعداد و شمار پر مبنی ہے جو زراعت کے لیے تقریباً 13 سال اور مویشیوں کے لیے 17 سال پرانے ہیں۔ اس ڈیٹا کی بنیاد پر ہم زرعی شعبے میں انقلاب برپا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، یہ خوفناک ہے۔ ہم کسانوں کی مدد کے لیے حکمت عملی تیار اور تجویز کر رہے ہیں، لیکن ہمیں یقین نہیں ہے کہ کس مخصوص نمبر پر زور دیا جائے۔ 2010ء کی شماری کے مطابق 89 فیصد فارموں کے پاس 5 ہیکٹر سے کم اراضی تھی، پاکستان کی 47 فیصد کھیتی اور اس کی 55 فیصد زیر کاشت زمین اس 89 فیصد فارموں کی ملکیت ہے۔گزشتہ تیرہ برس میں زمین کی تقسیم میں مزید تبدیلی کس طرح سے رونما ہوئی ،ہم یہ بتانے سے قاصرہیں۔ مزید یہ کہ، پرانی شماری میں موسمیاتی تبدیلی کے فوری اثرات اورموسمی موافقت کے بارے میں بھی معلومات کا فقدان ہے۔مویشیوں کا معاملہ زیادہ تشویشناک ہے، اس سلسلے میں ہم 2006ء کی شماری کے تخمینوں کو استعمال کر رہے ہیں جس کی بنیاد پر درست رجحان اور رفتار کے بارے میں یقین سے کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا ۔ اس شعبے کی بہتری کے لیے گزشتہ 17 سال میں نافذ کیے گئے خصوصی اقدامات کے اثرات کو مدنظر رکھے بغیر، سیلاب، جانوروں پر بیماریوں کے حملے وغیرہ جیسے عوامل جو مویشیوں اور پولٹری جانوروں کی تعداد اور پیداوار کو نمایاں طور پر متاثر کرتے ہیں،یہ تخمینہ صرف جانوروں کی تعداد میں اضافے اور اس کے نتیجے میں ان کی قومی آمدنی کے تناسب میں اضافے کی عکاسی کرتا ہے۔ پاکستان کے اقتصادی سروے 2022-23ء کے بعد زرعی ترقی کے تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق زرعی شعبے کی نمو 1.55 فیصد تھی۔ ربیع کے موسم میں شدید خشک سالی اور خریف کے موسم میں نمایاں سیلاب کی وجہ سے بڑی فصلوں کا حصہ منفی3.2 فیصد رہا۔ چنانچہ زرعی شعبے کی مثبت شرح نمو جنگلات، ماہی گیری اور لائیوسٹاک کے شعبوں کی کارکردگی کا نتیجہ ہے ۔شعبہ جنگلات کی شرح نمو 3.90فیصد، ماہی گیری 1.44فیصد اور لائیوسٹاک کا حصہ 3.78فیصد ہے ۔یہ اعدادو شمار انتہائی مشتبہ ہیں ۔خصوصی طور پر گزشتہ سال پاکستان میں سیلاب کی وجہ سے مویشیوں کے بہت زیادہ نقصان کے باوجود اس دہائی کی ریکارڈ شرح نمو تک پہنچنا کیسے ممکن ہے۔اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ ہم آج بھی مویشیوں کے بارے اعدادوشمار کا اجراء 1996ء اور 2006ء کی لائیو سٹاک کی شماریوںکی پیشین گوئیوں سے کر رہے ہیں۔لہذا، یہ ترقی ،قدرتی آفات، بیماری وغیرہ کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کو نظر انداز کرتے ہوئے،سترہ برس پرانے اعداد و شمارکے تخمینوں کی عکاسی کرتی ہے ۔آپ ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں برق رفتار زرعی ترقی کے لئے مصنوعی ذہانت کا استعمال تیزی سے فروغ پا رہا ہے اور ہم 17 سال پرانے اعداد و شمار پر مبنی تخمینوں پر اپنی سالانہ ترقی پیش کر رہے ہیں، یہ انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ اس کے نتیجے میں صرف زراعت کی ترقی پر سوالیہ نشان نہیں لگ رہا ہے بلکہ مجموعی ترقی کے اعداد و شمار صحیح معنوں میں درست نہیں رہتے۔ یہ غلط بیانی نئے اعدادوشمار یا نئی زرعی شماری کی عدم موجودگی میں برقرار رہے گی۔ ملک میں دوسرے سبز انقلاب کے لیے زرعی پالیسی اور حکمت عملی وضح کی جا رہی ہے ۔ ترقی کے موجودہ مشکوک اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے، زراعت میں کوئی بھی انقلاب لانے کے لیے زراعت اور مویشیوں کی نئی شماری کی ضرورت ایک بنیادی شرط ہے۔ نئی شماری کے بغیر کوئی انقلاب نہیں آ سکتا۔حکومت اور پالیسی سازوں کو جلد از جلد زرعی اور مویشیوں کی شماری کرانی چاہیے جس کے نتیجے میں تمام اسٹیک ہولڈرز دیہی معیشت کے مسائل سے نمٹنے اور پائیدار زرعی ترقی کے مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے بہتر طریقے سے لیس ہوں گے۔مزید برآں،نئی شماری کے بعد ہر پانچ یا دس سال کے بعد بروقت شماری کے تسلسل کو بھی یقینی بنایا جانا چاہئے کیونکہ یہ باخبر فیصلہ سازی، وسائل کی تقسیم، پالیسی کی تشکیل اور تحقیق و ترقی کے لیے ضروری ہے بصورت دیگر پاکستان موجودہ مشکوک اعداد و شمار کے ساتھ دوسرے سبز انقلاب کے صرف خواب ہی دیکھ سکتا ہے۔