ہم لوگ اکثر سیاسی عدم استحکام کا شکوہ کرتے ہیں اور یہ لکھتے یا کہتے ہیں کہ سیاسی پالیسیوں میں تسلسل ہونا چاہیے وغیرہ۔ یہ بات اپنی جگہ درست ، مگر بڑا المیہ یہ کہ پاکستان میں صرف سیاست اور حکومتیں ہی تبدیل نہیں ہوا کرتیں ، بلکہ کرکٹ بورڈ میں کہیں زیادہ تبدیلیاں آتی ہیں، ملک کا مقبول ترین کھیل بھی اس سے بری طرح متاثر ہوتا رہتا ہے۔ اب یہی دیکھ لیں کہ صرف چند دن پہلے تک پاکستانی کرکٹ بورڈ کے کرتا دھرتا، مدارالمہام اوربظاہر اگلے کئی برسوں تک قیادت پر ٹکے رہنے کی سوچ رکھنے والے نجم سیٹھی صاحب اچانک رخصت ہوگئے ۔ان کی جگہ سابق چیئرمین کرکٹ بورڈ زکا اشرف آ رہے ہیں۔ الیکشن کا عمل ابھی ہونا ہے، مگر ہم سب جانتے ہیں کہ یہ رسمی کارروائی ہی ہے۔ عید کے بعد کرکٹ بورڈ کی قیادت زکااشرف کے پاس ہوگی ، تب امکانات ہیں کہ سابق کرکٹر عامر سہیل کی بھی سنی جائے، ممکن ہے انہیں کوئی اہم عہدہ مل جائے ۔ ایک زمانے میں وہ چیف سلیکٹر رہ چکے ہیں، مگر اب تو وہ چیف ایگزیکٹو ٹائپ بننا پسند کریں گے۔ سیٹھی صاحب کی رخصتی حیران کن ہے، کم از کم مجھے اس کی زیادہ سمجھ نہیں آرہی۔ زرداری صاحب کی سیٹھی صاحب جیسے بااثر اور کارآمد شخص سے ایسی کیا ناراضی ہوسکتی تھی کہ انہیں باہر کر دیا۔ سازشی تھیوریز پسند نہیں مگر جب سوشل میڈیا پر کسی نے یہ بے پر کی اڑائی کہ قبلہ سیٹھی صاحب کو بدلے میں کوئی اور بڑا منصب دیا جائے گا،نگران سیٹ اپ میں، تب ہم نے بھی دلچسپی سے وہ پوسٹ پڑھ ڈالی کہ ہمارے ہاں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ خیر سیٹھی صاحب کے مستقبل کو چھوڑیں، پہلے ان کے ماضی قریب کی بات کر لیتے ہیں۔ سیٹھی صاحب نے عمران خان حکومت کے تبدیل ہونے کے بعد ذمہ داری سنبھالی۔وہ ایک تجربہ کار، جہاندیدہ آدمی ہیں، وضع دار بھی ، مگر انہوں نے خاصے بھونڈے طریقے سے تب چیئرمین کرکٹ بورڈ رمیز راجہ کو نکالا۔ انہیں اپنے دفتر سے سامان خود لینے کی اجازت بھی نہ ملی۔ یہ افسوسناک امر رہا۔ سیٹھی صاحب نے شاہد آفریدی کوچیف سلیکٹر بنا کر ہر ایک کو حیران کر دیا، یہ جرات مندانہ فیصلہ تھا، ان کے ساتھ سلیکشن کمیٹی میں عبدالرزاق اور رائو افتخار انجم بھی شامل تھے۔ یہ دونوں کھلاڑی ڈومیسٹک سٹرکچر اور نوجوان کھلاڑیوں کو اچھی طرح جانتے تھے ۔ اچھی امیدیں پیدا ہوئیں، بلکہ شاہد آفریدی نے چند نوجوان باصلاحیت کھلاڑیوں کو چند دنوں کے لئے سینئر ٹیم کے ساتھ ڈریسنگ روم بھی شیئر کرایا ۔ شاہد آفریدی سے نجم سیٹھی کی نہ بنی یا کچھ اور، مگر یہ سیٹ اپ فوری بدل گیا۔ نجم سیٹھی نے کرکٹ بورڈ میںبلند وبانگ دعوئوں کے ساتھ انقلابی تبدیلیاں لانے کی کوشش کی۔ تب اس پر لکھا بھی کہ وہ کچھ عرصے کے لئے ہیں، عام انتخابات کے بعد کوئی اور حکومت آ سکتی ہے اور اگر عمران خان آ گئے تب نجم سیٹھی تو لازمی چلے جائیں گے، اس لئے سٹرکچر کو تبدیل نہ کریں۔ ایسی بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں بار بار ہونا مناسب نہیں ۔ عمران خان جب وزیراعظم تھے تو ان کی ہدایت پر ڈیپارٹمنٹ کرکٹ ختم کر دی گئی اور ڈومیسٹک سرکٹ کو چھ ٹیموں میں تقسیم کر دیا گیا۔ آسٹریلیا میں ایسا ہوتا ہے، خان صاحب ان کے ڈومیسٹک سٹرکچر سے بڑے متاثر تھے۔ ان کا خیال تھا کہ کم ٹیمیں ہوں گی تو اچھے میچز ہوں گے اور مسابقت کا ماحول بنے گا۔ ڈیپارٹمنٹ کرکٹ ختم ہونے پر خاصا شور مچا کیونکہ سینکڑوں کرکٹر اچانک بے روزگار ہوگئے ۔ ڈیپارٹمنٹ کرکٹ ویسے اپنا عروج کا زمانہ تو گزار چکی تھی، جب سے سرکاری بینکوں کی نجکاری ہوئی ، ڈیپارٹمنٹ کی ٹیمیں کم ہوگئی تھیں۔ اب تو سوئی ناردرن گیس، واپڈا، کے آر ایل جیسے چند محکمے ہی بچے تھے۔ عمران خان سے مصباح الحق، اظہر علی اور محمد حفیظ جا کر ملے بھی تھے اور انہیں درخواست کی تھی کہ چھ ٹیموں کو آٹھ کر دیں تاکہ زیادہ کھلاڑی ایڈجسٹ ہوسکیں۔ عمران خان نے اس مشورے کو رد کر دیا۔ یقینی طور پر انہوں نے ایک بلیغ لیکچر ان تینوں کرکٹرز کو دیا ہوگا اور انہیں بتایا ہوگا کہ وہ اس معاملے کو سب سے بہتر انداز میں جانتے اور سمجھتے ہیں ۔ بہرحال یہ سٹرکچر تبدیل ہوگیا، برے بھلے اس کے نتائج بھی آنے لگے ۔ نجم سیٹھی نے آ کر پورا عمل ریورس کر دیا،اب ڈیپارمنٹ بھی بحال ہوگئے اور زون بھی، ایک عجیب ملغوبہ سا بن گیا۔ نجم سیٹھی نے ایک اور عجیب وغریب کام یہ کیاکہ ٹیم کی کوچنگ کے لئے مکی آرتھر سے معاہدہ کر لیا۔ صرف اس لئے کہ چند سال پہلے جب وہ کرکٹ بورڈ میں تھے تب انہوں نے ہی مکی آرتھر کو انگیج کیا تھا۔ مکی آرتھر تجربہ کار کوچ ہیں، انہیں دوبارہ لینے میں حرج نہیں تھا، مگر سب سے پہلے تو یہ دیکھنا چاہیے کہ کوچ فل ٹائم دستیاب ہے یا نہیں ؟مکی آرتھر نے ایک عجیب وغریب ماڈل پیش کیا ۔ وہ برطانوی کائونٹی ڈربی شائر سے کئی سال کا معاہدہ کر چکے ہیں،انگلش کائونٹی سیزن اپریل سے ستمبر کے اواخر تک چلتا ہے۔ مکی آرتھر نے نجم سیٹھی کو کہا کہ وہ ان چند ماہ میں پاکستانی ٹیم کے ساتھ نہیں رہیں گے ، البتہ آن لائن کوچنگ کر سکتے ہیں، انگلش سیزن آف ہونے کے بعد وہ قومی ٹیم کے ساتھ سفر کریں گے۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس جواب کے بعد یہ بات ختم ہوجاتی۔ نجم سیٹھی نے نجانے کیوں مکی آرتھر سے معاہدہ کرنا زندگی موت کا مسئلہ بنا لیا۔ اب پاکستان باضابطہ طور پر مکی آرتھر کے ساتھ یہ معاہدہ کر چکا ہے۔ مکی آج کل انگلینڈ میں مصروف ہیں، پاکستانی کرکٹ ٹیم سری لنکا جا رہی ہے جولائی کے وسط میں اس نے دو ٹیسٹ میچز کھیلنے ہیں، مگر مکی آرتھر انگلینڈ میں بیٹھ کر آن لائن ہدایات دیں گے۔ انہوں نے اپنے مطلب کی ایک ٹیم بنائی ہے، ایک صاحب جو پہلے قومی ٹیم کے فیلڈنگ کوچ تھے، اب انہیں ہیڈ کوچ بنایا ، ایک جنوبی افریقی فاسٹ بائولر سے بائولنگ کا معاہدہ کیا جبکہ بیٹنگ کے لئے جسے کوچ بنایا گیا، اس کا اپنا ریکارڈ صفر ہے اور نہ کوئی خاص تجربہ اور نہ ہی وہ ایشین پچوں پر کبھی کھیلے ہیں۔ اس سے بری چوائس شائد ہی کوئی اور ہو۔ نجم سیٹھی صاحب نے یہ سب کچھ گوارا کیا اور ان تمام سے معاہدے کر لئے ۔ ایشیا کپ کا معاملہ بھی ساتھ چلتا رہا۔ پاکستان اس سال میزبان ہے، بھارت نے آنے سے انکار کر دیا۔ پاکستان نے ایک ہائبرڈ ماڈل کی تجویز پیش کی جس میں صرف چار میچز پاکستان میں ہوں گے، چھوٹی ٹیموں کے جبکہ زیادہ تر میچز سری لنکا میں ہوں گے ، فائنل بھی۔ اس ہائبرڈ ماڈل کی بھی کسی کو کوئی سمجھ نہیں آئی۔ پاکستان کا حق تھا، بھارت اگر نہیں آتا تو باقی ٹیمیں پاکستان آ جاتیں۔ دوسری آپشن یہ تھی کہ ایشیا کپ اگلے سال کے لئے ملتوی کر دیا جاتا، ممکن ہے اگلے ساتھ پاک بھارت تعلقات میں ایسی بہتری آجاتی کہ کرکٹ ٹورز ہوسکتے۔ نجم سیٹھی صاحب نے ہائبرڈ ماڈل پسند کیا ، وہ اس پر فخر بھی کرتے رہے۔ نئے متوقع چیئرمین زکا اشرف نے اپنے بیان میں ہائبرڈ ماڈل پر اعتراضا ت کئے ہیں۔یہ معلوم نہیںاس سٹیج پر وہ کچھ کر بھی سکتے ہیں یانہیں؟ نجم سیٹھی چند ماہ کے لئے آئے تھے، انہیں اتنے بڑے کاموں میں ہاتھ ہی نہیں ڈالنا چاہیے تھا۔ وہ کرکٹ بورڈ کا بیڑا غرق ہی کر گئے، پارٹ ٹائم کوچ ڈھونڈا، معمولی تجربہ رکھنے والا بیٹنگ کوچ، ڈیپارٹمنٹ کرکٹ کی بحالی کے نام پر ناکافی اقدامات ،جبکہ ہائبرڈ ماڈل کا انوکھا تجربہ بھی سب کے سامنے ہے۔ سیٹھی صاحب کی آمد بھی مایوس کن تھی، ان کا جانا بھی ویسا ہی رہا۔’’ کھایا پیا کچھ نہیں، گلاس توڑا بارہ آنے‘‘ کے مصداق وہ کچھ بھی ڈھنگ کا نہ کر پائے، الٹا چیزیں مزید بگاڑکر چل دئیے۔