اس ملک کا اصل مسئلہ سیاسی ہے اور سیاسی لڑائی میں معیشت یا معاشی ترجیحات کہیں نظر نہیںآتی ۔یہی وجہ ہے کہ معیشت کی بھاگ دوڑ انتہائی تجربہ کار،چاربار اقتصادی امور کا قلمدان سنبالنے والے اور پاکستان میں سب سے زیادہ بجٹ پیش کرنے والے وزیر خزانہ کے ہاتھوں میں ہونے کے باوجود تیرہ جماعتی اتحاد اس برس اپنے تمام تر معاشی اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہاہے۔اندازہ کیجئے کہ اگر اتنے تجربہ کار لوگ نہ ہوتے تو معیشت کی کیا صورتحال ہوتی۔اس سے دو ہی فوری نتائج برآمد ہوتے ہیں یا تو ملک کی معاشی حالت واقعی اتنی گھمبیر ہے کہ اس سے باہر نہیںآیا جا سکتا تھا۔مگر گزشتہ اقتصادی سروے سے ،جو کہ اسی حکومت نے رجیم چینج کے فوری بعد پیش کیا تھا، سے ہمیں کوئی ایسے شواہد نہیں ملتے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان کا اقتصادی امور کو دیکھنے کا طریقہ کار درست نہیں ہے۔ ایک تو طریقہ کار درست نہیں ہے، دوسرے آپ کو معاشی امور میں کہیں سنجیدگی نظر نہیں آتی۔اس سلسلے میں حکومت نے کفایت شعاری مہم کا نعرہ لگایا اور اپنے اخراجات کم کرنے کا اعلان کیا۔مگر دوسری جانب وزیروں اور مشیروں کی فوج ظفر موج میں بھی تواتر سے اضافہ ہوتا رہا۔نا صرف وزراء اور مشیروں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ مراعات میں بھی۔معیشت کی حالت دگرگوں ہے اور آپ صرف ان کے بیرونی دوروں کے اخراجات اٹھا کے دیکھ لیجئے اور سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ ابھی کل ہی سبھی سابق چیرمین سینٹ کے لئے بے تحاشا مراعات کا بل سینٹ میں پیش کیا گیا ہے مگرایک بھی ممبر کو اس کی مخالفت کی جرات نہیں ہوئی ، حتی کہ حزب اختلاف کو بھی۔ چنانچہ کفائت شعاری اوراخراجات میں کمی ایک نعرے سے زیادہ نظر نہیں آتی۔ اس سال ہماری مجموعی معیشت کا حجم بھی سکڑ گیا ہے گذشتہ برس ہماری مجموعی معیشت 375بلین ڈالر تھی جو اس وقت صرف 341بلین ڈالر رہ گئی ہے ۔ فی کس سالانہ آمدنی لگ بھگ 11.3 فیصد کم ہوئی ہے ، گزشتہ برس فی کس سالانہ آمدنی 1765ڈالر تھی جبکہ حالیہ اعدادو شمار کے مطابق یہ آمدنی 1568ڈالر سالانہ تک محدود ہو چکی ہے۔ ان حالات میں جناب وزیرِ خزانہ نے ایک انتہائی غیرپیداواری بجٹ پیش کیا ہے۔ دفاعی اور ترقیاتی مصارف میں اضافہ کردیا گیا ہے، سبسڈی دینے کا طریقہ اور غیر پیداواری سرکاری اداروں کو مسلسل سہارا دیے رکھنے کا فیصلہ برقرارہے،مختلف شعبوں کو دی جانیوالی ٹیکس چھوٹ جو کہ گزشتہ برس 2.2ٹریلین تھی،ابھی بھی اسی طرح باقی ہے ۔اس بات کا واضح امکان تھا کہ اس برس کے بجٹ میں ترقیاتی بجٹ کو خصوصی اہمیت دی جائے گی،چنانچہ ترقیاتی بجٹ کی مد میں گیارہ سوارب روپے رکھے گئے ہیں جو کہ گزشتہ برس کے مقابلے میں سترہ فیصد زائد ہے ۔پاکستان کو اس وقت تاریخ کی بلند ترین مہنگائی کا سامنا ہے۔تازہ اعدادوشمار کے مطابق افراطِ زر 38فیصد تک پہنچ چکا ہے جبکہ حکومت نے بجٹ میں اسے اکیس فیصد تک لانے کا عہد کیا ہے ۔جو فنانس بل میں تجویزکردہ لائحہ عمل سے قطعی قرین قیاس نظر نہیں آتا۔ حالیہ فنانس بل میں ٹیکس کی مد میں جمع کی جانیوالی رقم کا ہدف 9200ارب تک بڑھا لیا گیاہے مگر دوسری طرف بالواسطہ ٹیکسوں پر بوجھ پہلے سے زیادہ ہوتاہوا نظر آرہا ہے جو کہ حتمی طور پر ایک عام آدمی کی جیب پر ہی پڑے گا۔موجودہ بجٹ میں ہم نے ایک بار پھر اپنے ٹیکس کے نظام کو پھیلانے کی طرف توجہ نہیں دی ۔موجودہ ایف بی آرکے نظام میں بھی اصلاحات کی گنجائش ہے جسے مسلسل نظر انداز کیا جا رہاہے۔ایف بی آر یہ تو بتا رہا ہے کہ مزیدگیارہ لاکھ لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں شامل کیاگیا ہے مگر وہ تمام شعبے جو ابھی تک ٹیکس سے مبراہے انہیں اس نظام میں لانے کے لئے نہ تو کوئی اقدامات کئے گئے ہیں نا کئے جانے کا ارادہ ہی کیا گیاہے۔ جن میں نمایاں طور پر زرعی شعبہ بھی شامل ہے اور ریٹیلرز بھی،کیٹرنگ،بیوٹی سیلون اوراس طرح کے کئی ایک شعبے ہیں جنہیںٹیکس نیٹ میں شامل کر کے ٹیکس کے نظام کو مزید پھیلایا جاسکتاتھا ۔ فی الحال اگرٹیکس کے نظام کو پھیلانے کی طرف توجہ نہیں دی تو کم از کم ملک میں ٹیکس چوری پر قابو پانے کے لئے ہی کسی لائحہ عمل پر آغاز کر دیا جاتا ۔لائحہ عمل بنانا تو دور کی بات یہاں تو کسی بھی ایسے عمل کا آغاز تک نہیں کیا جاتا۔ IPSOS کے مطابق پاکستان میں میں سالانہ 956ارب روپے کی ٹیکس چوری ہو رہی ہے۔ اس چوری میں پچاس فیصد سے زائد حصہ صرف رئیل اسٹیٹ سے ہے جس کا تخمینہ پانچ سو ارب کے لگ بھگ ہے جبکہ اس چوری میں شریک دیگرنمایاں شعبہ جات میں سگریٹ، چائے، ٹائرز اور آئل اور ادویات کی مد میںبالترتیب 240ارب ، 45ارب، 106 ارب اور 65ارب روپے کی چوری ہو رہی ہے۔اگر صرف ٹیکس چوری کے راستے ہی بند کردیئے جائیں، تو ایک ہزار ارب روپے ٹیکس کی مد میں بڑھائے جاسکتے ہیں ۔جس سے یقینی طور پر بالواسطہ ٹیکس کم کر کے عام آدمی کو سہولت دی جا سکتی ہے ۔ ہماری معیشت میں نقد رقم کا حجم پہلے ہی بہت زیادہ ہے اس سلسلے میں ڈیجیٹل کرنسی کے استعمال کے فروغ کو بھی ترجیح دی جانی چاہیے مگرحکومت نے ایک بار پھر سے نقد رقم کے اخراج پر ودہولڈنگ ٹیکس لگا دیا ہے جو کہ یقینی طو رپر نقد رقم کی معیشت کے فروغ کا سبب ہو گاجس کے نتیجے میںمزید فنانسل انکلوژن جیسے مقاصد میں کامیابی قطعی طور پر ممکن نہیں، دوسرے اس طرح کے اقدامات کے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا طبقہ بھی تنخواہ دار طبقہ ہی ہو گا۔ ایسے محسوس ہوتاہے کہ حکومت نے اس ٹیکس کوتجویز کرتے ہوئے زمینی حقائق اور ماضی کے تجربات کو نظر اندازکر دیاہے ۔چنانچہ فنانس بل منظور کرنے سے پہلے ایک نظر اس طرف بھی ڈال لیں۔(جاری ہے)