19 اگست کو ملک کے تقریباً تمام چینلوں نے خبر دی کہ صدرِ مملکت نے آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹس ایکٹ کے ترمیمی بلوں پر دستخط کردیے ہیں اور یہ بل اب قانون بن گئے ہیں۔ اگلے دن 20 اگست کو یہی خبر تقریباً تمام اخبارات نے شائع کی۔ اسی دن دوپہر کو صدرِ مملکت نے ٹویٹ میںحلفاً کہا کہ انھوں نے ان بلوں پر دستخط نہیں کیے۔ ملک میں پہلے سے موجود آئینی و قانونی بحران میں یہ اب تک کا سنگین ترین موڑ ہے جس کے مختلف پہلوؤں پر ملک بھر میں مباحثہ جاری ہے۔ میں یہاں صرف اس سوال پر فوکس کررہا ہوں کہ قانونِ حکومتِ ہند 1935ء سے 18ویں آئینی ترمیم 2010ء تک صدر کے دستخط کے متعلق آئینی دفعات کا ارتقا کیسے ہوا؟ 1935ء کے قانون کی دفعہ 32 میں گورنر جنرل کو 4 اختیارات دیے گئے تھے جو اس کی مرضی (discretion) پر منحصر تھے: وہ چاہے تو بل پر دستخط کرکے منظوری دے؛ دستخط روکنے کا اعلان کرے؛ بل کو واپس دوبارہ غور کیلیے بھیج دے؛ یا اسے شہنشاہِ معظم کی منظوری کیلیے روک دے۔ پہلی تین صورتوں کیلیے کوئی مدت مقرر نہیں کی گئی، لیکن آخری صورت میں 12 مہینوں کی مدت مقرر کی گئی تھی۔ یہی قانون آزادی کے بعد پاکستان کے عبوری آئین کے طور پر نافذ کیا گیا، لیکن قانونِ آزادیِ ہند 1947ء کی دفعہ 6 (3) نے شہنشاہِ معظم کا اختیار ختم کردیا تھا اور دفعہ 8 (2) (سی) نے گورنر جنرل کی ’’مرضی‘‘ والے اختیارات ختم کردیے تھے۔ 1954ء میں مولوی تمیز الدین خان کیس میں گورنر جنرل غلام محمد کی جانب سے آئین ساز اسمبلی کی تحلیل کا معاملہ سندھ چیف کورٹ کے سامنے آیا تو کہا گیا کہ عدالت اس مقدمے کو سن ہی نہیں سکتی کیونکہ جس ترمیم کے ذریعے اسے اختیارِ سماعت دیا گیا ہے، اس پر گورنر جنرل کے دستخط نہیں ہیں۔ عدالت نے یہ دلیل مسترد کردی اور قرار دیا کہ جب شہنشاہِ معظم کی منظوری کی ضرورت باقی نہیں رہی تو اس کے نائب کے دستخط کیوں لازم ہوں؟چنانچہ عدالت نے اسمبلی بحال کردی۔ اس فیصلے کے خلاف اپیل میں فیڈرل کورٹ نے قرار دیا کہ گورنر جنرل کے دستخط نہ ہونے کی بنا پر مذکورہ بل قانون نہیں بن سکا تھا اور اس وجہ سے سندھ چیف کورٹ کے پاس مذکورہ رٹ جاری کرنے کا اختیار ہی نہیں تھا کیونکہ گورنر جنرل آئین ساز اسمبلی کا لازمی جزو ہے اور اس کی منظوری کے بغیر قانون وجود میں نہیں آسکتا! فیڈرل کورٹ کا یہ فیصلہ پاکستان میں غیر آئینی اقدامات کی بنیاد بنا۔ بنچ میں جسٹس کارنیلیس نے فیصلے سے اختلاف کیا اور اس قاعدے کا ذکر کیا جو قائدِ اعظم کے زیرِ صدارت اسمبلی کے اجلاس میں منظور کیا گیا تھا اور جس کے تحت بل پاس ہونے کے بعد اسمبلی کے صدر نشین (سپیکر) کے دستخط درکار تھے۔ بہرحال، اکثریتی فیصلے کے نتیجے میں نہ صرف اسمبلی کی تحلیل کا حکم جائز قرار پایا بلکہ پچھلے 6 سال میں منظور ہونے والے 46 قوانین کالعدم ہوگئے جن پر گورنر جنرل کے دستخط نہیں تھے! 1956ء میں جب پہلا آئین نافذ کیا گیا تو اس کی دفعہ 57 میں صدر کو تین اختیارات دیے گئے: دستخط کرکے منظوری، دستخط کرنے سے انکار یا دوبارہ غور کیلیے اسمبلی واپسی؛ اور ان تینوں امور کیلیے 90 دن کی مدت مقرر کی گئی اور قرار دیا گیا کہ صدر کی جانب سے دستخط سے انکار یا بل کو اسمبلی میں واپس بھیجنے پر اگر اسمبلی دوبارہ مذکورہ بل کو دو تہائی اکثریت سے منظور کرے تو پھر صدر پر لازم ہوگا کہ وہ اس پر دستخط کرے، لیکن اس دوسرے راؤنڈ میں دستخط کیلئے مدت کی تصریح نہیں کی گئی۔ 1962ء کے آئین میں اس موضوع پر ایک بہت ہی تفصیلی دفعہ 27 میں دستخط کرنے،اس سے انکار، یا بل کی واپسی کیلیے مدت کم کرکے 30 دن کردی گئی اور کہا گیا کہ اس مدت میں صدر نے ان میں کوئی کام نہیں کیا، تو فرض کیا جائے گا کہ اس نے منظوری دے دی ہے اور بل اب قانون بن گیا ہے۔ یہ بات 1935ء ، 1947ء اور 1956ء کی دستاویزات میں نہیں تھی۔ مزید کہا گیا کہ صدر دستخط سے انکار کرے تو اسمبلی اس بل کو دوتہائی اکثریت سے دوبارہ منظور کرکے صدر کے پاس دستخط کیلئے بھیج سکتی ہے ، لیکن اب صدر یا تو 10 دن میں اس پر دستخط کرے گا یا ریفرنڈم کے ذریعے الیکٹورل کالج ("بنیادی جمہوریت" کے ارکان) کی رائے لے گا جس کی سادہ اکثریت سے فیصلہ ہوگا۔ بل کی اسمبلی میں واپسی پر صدر اور اسمبلی کے درمیان سمجھوتے کی صورت میں اسمبلی سے منظوری کیلیے سادہ اکثریت، اور سمجھوتہ نہ ہونے کی صورت میں دو تہائی اکثریت کی شرط رکھی گئی۔ دونوں صورتوں میں صدر یا تو 10 دن میں دستخط کرتا یا ریفرنڈم کراتا اور اس مدت میں ان میں سے کوئی کام نہ کرنے پر بل کی منظوری فرض کی جاتی۔ واضح رہے کہ 1962ء کے آئین نے صدارتی نظام دیا تھا جس میں ہمارے آئین کے استاد مرحوم راجا بشیر احمد صاحب کے الفاظ میں صدر کو فیصل آباد کے گھنٹا گھر کی حیثیت حاصل تھی۔ اس کے برعکس 1973ء کے آئین میں پارلیمانی نظام اس طور پر دیا گیا کہ صدر کی محض نمائشی حیثیت رہ گئی۔ چنانچہ دفعہ 75 میں صدر پر لازم کیا گیا کہ پارلیمان کے منظور کردہ بل پر وہ 7 دنوں کے اندر دستخط کرے ورنہ اس کی منظوری فرض کی جائے گی۔ اب صدر کے پاس بل پر دستخط سے انکار یا بل واپس بھیجنے کے اختیارات باقی نہیں رہے۔ جنرل ضیاء الحق نے مارشل لا کے ذریعے اس آئین کو معطل کیا اور جب مارچ 1985ء میں آئین کی بحالی کا حکم نامہ جاری کیا تو صدر کے اختیارات میں اضافہ کرتے ہوئے ایک تو دستخط کیلیے مدت بڑھا کر 45 دن کردی اور بل کو واپس پارلیمان میں بھجوانے کا اختیار بھی پھر سے صدر کو دے دیا۔ مزید قرار دیا کہ بل کی واپسی کی صورت میں پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں پارلیمان کی کل تعداد کی اکثریت نے اسے پھر منظور کیا تو اسے پھر صدر کے دستخط کیلیے بھیجا جائے گا، لیکن یہاں مدت کی تصریح نہیں کی۔ اسی سال نومبر میں "غیر جماعتی" پارلیمان نے آٹھویں آئینی ترمیم کے ذریعے 45 دن کی مدت کو کم کرکے 30 دن کردیا اور مشترکہ اجلاس کیلیے پارلیمان کی کل تعداد کے بجائے "موجود اور ووٹ ڈالنے والے ارکان" کی اکثریت ضروری قرار دی۔ قانون کی یہ صورت 2010ء تک برقرار رہی جب 18 ویں ترمیم نے اس میں دو تبدیلیاں کیں: ایک یہ کہ دستخط کیلئے مدت کو کم کرکے 10 دن کردیا ؛ دوسری یہ بات اضافہ کی کہ بل کی واپسی اور مشترکہ اجلاس میں اس کی منظوری کے بعد صدر نے 10 دنوں میں دستخط نہیں کیے، تواس کی منظوری فرض کی جائے گی۔ آئین کی دفعہ 75 کی موجودہ صورت کو اس تاریخی پس منظر کی روشنی میں پڑھا جائے، تو چند اہم سوالات پیدا ہوتے ہیں جن پر اگلے کالم میں گفتگو کریں گے، ان شاء اللہ۔