میری رات دن میں چھپی ہوئی میرا دن چھپا کسی رات میں میری زندگی کوئی راز ہے کوئی راز ہے میری بات میں کوئی مطمئن بھی نہیں ہوا کوئی ہو بھی جائے تو اس میں کیا میں بھی اپنے ساتھ الجھ پڑا رہ کار زار حیات میں مگر ایک خیال تسلی کا کہ میں جہاں کہیں بھی بھٹک گیا‘ وہیں گرتے گرتے سنبھل گیا۔ میں بھی اپنے ساتھ الجھ پڑا رہ کار زار حیات میں۔ کبھی کبھی انسان یکسانیت سے تھک جاتا ہے۔ ایک مرتبہ کسی بزلہ سنج نے کہا تھا کہ انیس ناگی لکھتے چلے جا رہے ہیں اور پتہ نہیں کیا لکھے جا رہے ہیں اور زاہد ڈار پڑھتے جاتے ہیں اور پتہ نہیں کیا پڑھتے جاتے ہیں۔ برہحال یہ دلچسپ جملہ مشفق خواجہ صاحب کے سوا کس کا ہو سکتا ہے۔ ساتھ ہی ان کا ایک اور جملہ یاد آ گیا کہ کشور ناہید کو اردو سائنس بورڈ کا سربراہ بنا دیا گیا ہے۔ اچھا کیا کہ محترمہ کشور ناہید اتنی ہی سائنس جانتی ہیں جتنی آئین سٹائن اردو جانتے تھے۔ مقصد تو بات کا آغاز کرنا تھا کہ شہ سرخی لگی ہوئی ہے کہ نگران وزیراعظم نے کہا ہے روشن اور خوشحال مستقبل کی طرف گامزن ہیں ویسے یہ غلط بھی نہیں کہ آنے والے کو ایسی ہی خبر دینی چاہیے۔ آئے تو پی ڈی ایم والے بھی ایسے ہی جذبے کے ساتھ بلکہ ان سے پہلے بھی ہم اچھی تبدیلی کے متمنی تھے پھر خواب ہوا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا۔ یہ بھی ایک پریکٹس ہے جو جاری ہے۔ سب عوام کے نام پر ہی آتے ہیں خدا کرے کہ وزیراعظم کی بات سچی ہو کہ کچھ بندوبست تو ایسے ہورہے ہیں۔ آفیشل سیکرٹ آرمی ایکٹ ترمیمی بلز نافذالعمل ہو گیا ہے۔ صدر صاحب کے دستخط اس پر مثبت ہو چکے ہیں۔ ایک بات بہت اچھی کہ کوئی بھی فوجی اہلکار ریٹائرمنٹ کے پانچ سال بعد تک سیاست میں حصہ نہیں لے سکے گا۔ یقیناً اس کا مطلب یہ بھی تو ہے کہ کوئی حاضر سروس بھی اس میں ملوث نہیں ہوگا۔ ہمارے شاہ صاحب یعنی شاہ محمود قریشی پر بھی اسی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج ہوا ہے۔ انہیں سائفر کیس میں بھی گرفتار کیا گیا ہے اس ایکٹ میں کسی سرچ وارنٹ کی ضرورت نہیں۔ میں بھی کیا ہوں کہ لکھنے کچھ بیٹھا تھا اور کس معاملے کو ہاتھ ڈال لیا کہ بقول غالب کار دنیا میں سر کھپاتا ہوں۔ میں کہاں اور یہ وبال کہاں۔ ایسے ہی مرزا تقی ہوس کا ایک شعر سامنے آ گیا : تیز رکھنا سر ہر خار کو اے دشت جنوں شاید آ جائے کوئی آبلہ پا میرے بعد ویسے غافل کیغزل کا مقطع بھی تو کمال کا ہے: بعد مرنے کے مری قبر پہ آیا غافل یاد آئی مرے عیسیٰ کو دوا میرے بعد اب آتا ہوں میں اصل موضوع کی طرف کہ تمہید زیادہ لمبی ہو گئی۔ یقینا آپ سب نے وزیراعظم انوارالحق کاکڑ صاحب کی پریس کانفرنس سنی ہوگی۔ مجھے تو بہت خوشگوار حیرت ہوئی کہ انہوں نے غالب کا وہ مشکل ترین شعر پڑھا جو اکثر شاعروں کی سمجھ میں نہیں آتا۔ تب میں نے خیال کیا کہ وہ گہرے آدمی ہیں اور ہمارے آدمی ہیں کہ شعر ہمارا مسئلہ ہے۔ اس شعر میں آپ کو گہرائی نظر آئے گی: لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی چمن زنگار ہے آئینہ باد بہاری کا میں کوئی کلاس تو لے نہیں رہا کہ اس پر لیکچر دوں کہ اس پر تو کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ آپ نے آئینہ کے پیچھے رنگ تو دیکھا ہوگا کہ جس کے باعث آئینہ آپ کو خوبصورت دکھاتا ہے تو غالب کے ذہن رسا نے کیا خوب سوچا کہ اس طرح یہ جو کائنات کی رنگارنگی اور بو قلمونی ہے۔ خاص طور باد بہاری میں یہ جو حسن ہے یہ اسی سبزہ کے باعث ہے۔ یقینا انوارالحق صاحب کے ذہن میں بھی کچھ ایسا ہی چل رہا ہوگا۔ کچھ کثافت بھی ضرور ہوتی ہے تاکہ لطافت پیدا کی جا سکے۔ ویسے تو جسم بھی ضروری ہے روح جیسی لطیف شے کو سنبھالنے کے لیے۔ اس کے کئی پہلو ہیں۔ وہی کہ کچھ نہ کچھ سختی بھی ضروری ہے تاکہ اہتمام اور ڈسپلن پیدا ہو سکے وگرنہ سارا نظام ہی سوشل میڈیا کی طرح بے سہارا ہو جائے: یہ بھی شاید ہے تقاضا حسن بے پرواہ کا بے مہارا ہورہا ہے وہ شتر جانے کے بعد آپ شتر جانے‘ پر پریشان ہوں گے کہ میں نے خود شتر کو فعل کے طور پر اختراع کیا ہے۔ انگریزی میں تو یہ عام ہے۔ ویسے بھی شتر کو باندھنا کوئی آسان نہیں۔ محاوہ تو شتر بے مہار کا ہے اور وہ بھی تو کہتے ہیں کہ اونٹ رے اونٹ تیری کونسی کل سیدھی۔ ویسے شتر کا تعلق ہمارے معاملے کے ساتھ ہے۔ وہ بھی تو کہتے ہیں کہ یہ خطرناک جانور ہے۔ شترکینہ بھی آپ نے سنا ہوگا کہ یہ بے کل جانور بات دل میں رکھتا ہے۔ اس کو صحرائی جہاز بھی کہتے ہیں بہت ہی مفید جانور ہے لیکن اس کے ساتھ پیار کریں تو بدکتا نہیں۔ آخری بات یہی ہے کہ عوام اس وقت آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ کوئی چارہ نہیں۔ مہنگائی نے ان کی جان نکال رکھی ہے۔ وہی کہ جو بھی آتا ہے ہمیں اور رلا جاتا ہے۔ کوئی بھی ختم کرے کرپشن‘ اقربا پروری اور لوٹ مار ختم کردے جو اس ملک سے کمائے باہر نہ لے جائے۔ یہ کمائے کا لفظ میں نے محتاط استعمال کیا ہے۔ ہمارے رہنمائوں اور دوسرے کرم فرمائوں کو اس ملک میں رہنا چاہیے۔ اس کی مٹی کے ساتھ۔ میرا پاکستان کوئی دکان نہیں یہ آپ کی غارت گری کے لیے نہیں جس دن یہ لوگ یہاں رہیں گے اور ان کے بچے یہاں پڑھیں گے وہ دن ہماری ترقی کا دور ہوگا۔ ٭٭٭٭٭