سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ میں جسٹس اعجاز الاحسن ،جسٹس منیب اختر،جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک نے اکژیتی رائے سے 9مئی کے واقعات کے حوالے سے ملزمان کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیس میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دے دیا تھا ۔ فوجی عدالتوں کے خلاف فیصلہ سپریم کورٹ کے ماضی میں اپنے ہی کیے ہوئے 2015 اور 2017ء کے فیصلوں کے خلاف تھا۔مبینہ طور پر ججزنے اپنے فیصلے میں 9مئی کے واقعات میں ملوث افراد کو ریلیف دینے کیلئے ریاست اور ریاستی اداروں کے تحفظ، اہمیت اور افادیت کو یکسر نظر انداز کیا تھا۔بعض قانونی ماہرین کے بقول اس فیصلے کے مطابق کوئی بھی ملکی یا غیر ملکی دہشت گرد اگر فوج پر براہ راست حملہ بھی کرتا ہے تو اس کا مقدمہ فوجی عدالت میں نہیں چل سکتا۔سویلینز کا فوجی ٹرائل روکنے کا فیصلہ تحریک انصاف ، غیر ملکی این جی اوزکچھ صحافیوں کی طرف سے سراہا گیا لیکن شہداء کے وارثین کی طرف سے افسوس ناک قرار دیا گیااور اسی بنیاد پر اس فیصلہ کے خلاف اپیلیں دائر کی گئیں۔ جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 6رکنی لارجر بینچ نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کالعدم قرار دینے کے جسٹس اعجاز الاحسن بنچ کے فیصلے کو معطل کردیا ۔شہدا کے ورثا نے جسٹس سردار طارق مسعودکی سربراہی میں لارجر بنچ کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے امید کا اظہار کیا کہ ان کوفوجی عدالتوں سے فوری انصاف ملے گا۔جب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ چیف جسٹس آف پاکستان بنے ہیں ایک تاثر نظر آرہا ہے کہ اب فیصلے کسی کی منشا کے مطابق نہیں بلکہ آئین اور قانون کے مطابق ہورہے ہیں۔ 1966ء میں اس آرمی ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے اس کا دائرہ اختیار عام شہریوں تک بڑھا دیا گیا، جس میں بغاوت پر اکسانے‘ دشمن کو خفیہ معلومات مہیا کرنے اور فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے جیسے جرائم شامل کئے گئے۔امریکہ کے افغانستان پر حملے کے بعد پاکستان میں دہشتگردی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا جومسلم لیگ ق اور پیپلز پارٹی کے دور اقتدارمیں بالکل بے قابو ہوچکا تھا۔افغان مہاجرین کی آڑ میں دہشت گردوں نے پاکستان بھر میں اپنا مضبوط نیٹ ورک قائم کرکے ہر طرف دہشت گردی کے واقعات شروع کیے ہوئے تھے۔سانحہ آرمی پبلک سکول کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے دہشت گردی کے خلاف موثر حکمت عملی اپنائی۔ نہ صرف ملک بھر میں امن وامان کی واپسی کو ممکن بنایا بلکہ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو انجام تک پہنچانے کیلئے قومی اسمبلی کے ذریعے آرمی ایکٹ میں ترمیمی بل منظور کروایا۔اس ترمیم سے دہشت گردی اور اس کی سہولت کاری میں ملوث شہریوں کے خلاف مقدمات چلانے کے لئے خصوصی فوجی عدالتوں کی اجازت دی گئی۔ عمومی طور پر دیکھا گیا تھا کہ ہماری ماتحت عدالتیں دہشت گردوں کو سزا دینے میں ناکام رہتی ہیں، یہ بھی کہا گیا تھا کہ کئی جج ڈر اور خوف کی وجہ سے دہشت گردوں کو چھوڑ دیتے ہیں اور یوں دہشت گردی کا خاتمہ ناممکن ہو جاتا ہے۔دنیا بھر میں انصاف کی فوری فراہمی کے لیے فوجی عدالتوں اور کمیشن کا قیام کو ئی انہونی بات نہیں ہے۔ فوجی عدالتوں میں مقدمہ کے خلاف اپیل کرنے کا ایک بہترین نظام موجود ہے جس کی موجودگی میں کسی بھی مقدمہ کی کارروائی اور شفافیت کاباریک بینی سے جائزہ لینے کا موقع موجود رہتا ہے۔ فوجی عدالتوں نے متعدد مقدمات کی سماعت کر کے اپنی اس صلاحیت کو منوایا ہے کہ وہ"مطلوبہ طریقہ کار"اورانسانی حقوق کے عالمی پیمانوں کے مطابق کام کر سکتی ہیں۔ 9مئی کو کیے گئے جرائم کی طویل فہرست ہے۔ یہ وہ افراد ہیں جو جی ایچ کیو راولپنڈی، کورکمانڈر ہائوس لاہور، پی اے ایف بیس میانوالی، آئی ایس آئی سول لائنز فیصل آباد، حمزہ کیمپ، بنوں کیمپ اور گوجر انوالہ کیمپ پرحملوں میں ملوث ہیں۔ ریاستی تنصیبات ، شہدا کی یادگاروں پر حملے ،توڑ پھوڑ اور بے حرمتی کوئی معمولی جرائم نہیں ہیں جن کو نظر انداز کیاجائے۔ فوجی عدالتوں کے خلافکچھ حلقے نامناسب پروپیگنڈہ کررہے ہیں۔فوجی عدالتوں کیخلاف شور شرابہ کرنیکا مطلب یہ اعتراف ہے کہ یہ لوگ مذکورہ واقعات میں ملوث ہیںاور سول قانون میں گنجائش اور سسٹم سے فائدہ اٹھاکر بچ نکلنا چاہتے ہیں۔فوجی عدالتوں کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہر زیرحراست شخص کو لازمی سزا دی جائے گی،یہ تو واضح ہے کہ جو بے گناہ ثابت ہونگے انکو رہا کردیا جائے گا دوسرا یہ کہ ان عدالتوں سے سزا پانے کے بعد وہ اپیل کاحق بھی رکھتے ہیں۔ ہماری سول عدلیہ کا یہ حال ہے کہ ملزم کا بااثر اور مالی طور پر مستحکم ہونا ضروری ہے پھر اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس نے کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ جو جتنا بڑا جرم کرتا ہے وہ اتنا بڑا وکیل کر لیتا ہے۔معززججز ایسے’’ جگے‘‘ وکیلوں کے خلاف کیسے فیصلہ سناسکتے ہیں؟ وطن دشمنوں کو اگر کمزور ثبوتوں کی بنیاد پہ عدالتیں چھوڑ دیں گی تو پھر کیا حل ہے؟سول عدالتوں سے چھوٹ ملنے کی صورت میں دہشت گردوں کے حوصلے بلند اور اعتماد مضبوط ہوتے ہیں اور ملک میں جرائم اور دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوتاہے۔ کیا پاکستان کی عام عدالتیں اس قابل ہیں کہ وہ فوج، عوام اور پاکستان پر حملہ آور ہونے والوں کے ٹرائل کے فیصلہ کریں؟دہشت گردی کے مقدمات میں سول عدالتوں کے ججز، پراسیکیوٹر اور گواہ خود کو غیرمحفوظ سمجھتے ہیں۔ فوجی جج چونکہ محفوظ حصار میں ہوتاہے اس لئے وہ جرات مندانہ فیصلے کرسکتا ہے۔فوجی عدالتوں کے ذریعے ٹرائل سے دہشت گردوں، جاسوسوں اور ریاست دشمن عناصر کی حوصلہ شکنی ہوگی۔لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ فوجی عدالتوں کو مکمل اختیارات اور آزادی کے ساتھ کام کرنے دیا جائے تاکہ پر امن اور مستحکم پاکستان کی تعبیر ممکن ہوسکے۔