ملک میں جب پی ڈی ایم اور تحریک انصاف کے درمیان جنگ چھڑی ہو ایسے میں بلوچستان کے موضوع پر لکھناکچھ دوستوں کو عجیب محسوس ہوا۔یہ اس لئے ہے کہ ہم لوگوں کی اکثریت صرف اسی کو حالات حاضرہ کا موضوع سمجھ بیٹھی ہے۔یہ یقینا اہم بات ہے کہ میں سیاسی جماعتوں کے ایک دوسرے پر حملوں پر تبصرہ کرتا رہوں لیکن میرے پیش نظر حالات کی وہ انگڑائیاں بھی اہم رہتی ہیں جن پر بوجوہ‘ ذرائع ابلاغ توجہ نہیں دے پاتے۔ بلوچ روایات میں خواتین کا احترام ہے۔کہا جاتا ہے کہ بلوچ کی سواری اور عورت پر حملہ ناقابل معافی جرم سمجھا جاتا ہے۔انگریز نے بلوچ سرداروںکی ہر طرح سے تذلیل کی لیکن ان کی خواتین کے معاملے میں احتیاط کا مظاہرہ کیا۔بلوچ سماج خوبصورت ہے۔ہمارا بچپن پی ٹی وی کے ان نغموں کا زمانہ ہے جب اہل لاہور فیض بلوچ کی دھن پر جھومتے تھے پنجاب میں بلوچ آبادی کے بے شمار گائوں ہیں۔چاکر اعظم کا مقبرہ ست گھرا اوکاڑہ میں ہے۔بلوچ قوم کا سیاسی و ثقافتی تعلق پختون‘ پنجابی اور سندھی قوم کے ساتھ رہا ہے۔نیا سوال یہ ابھرا ہے کہ اس صدیوں پر محیط محبت کا جغرافیائی نام جب پاکستان رکھ دیا گیا تو کچھ قوتوں نے بلوچ عوام کو ورغلانا شروع کر دیا۔اس کے نتیجے میں تشدد کا ایک سلسلہ ہے جسے علیحدگی پسندی کی تحریک کہا جاتا ہے۔نفرت اس قدر گہری کی جا رہی ہے کہ اب یہ سوال کوئی کر ہی نہیں رہا کہ محبت کے پاکستان کے سوا کوئی منزل نہیں۔ بلوچستان میں تشدد کے سلسلے میں ایک نیا رنگ شامل ہوا ہے۔علاقے میں غربت ہے۔عسکریت پسند کسی بیرونی سرمایہ کاری کے راستے میں رکاوٹ بن جاتے ہیں کوئی سکول‘ ہسپتال ‘ کارخانہ اور کاروبار قائم ہونے میں مزاحم ہوتے ہیں۔لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ ریاست ان کی معاشی ترقی کی دشمن ہے۔نیا ہتھکنڈہ یہ ہے کہ معصوم اور محترم خواتین کی غربت اور مجبوریوں کو ریاست سے نفرت کی آگ پر اس قدر پکایا جاتا ہے کہ وہ آسانی کے ساتھ تخریب کارروائیوں میں استعمال ہونے کے لئے خود کو پیش کر دیتی ہیں۔شرپسند عناصر خواتین کی غربت اور مجبوریوں کا فائدہ اٹھارہے ہیں۔ایسے واقعات بھی سامنے آ رہے ہیں کہ بیوہ خواتین کی برین واشنگ کی جاتی ہے۔انہیں بتایا جاتا ہے کہ ان کے مسائل کی وجہ ریاست ہے۔یہ سب اس ہوشیاری کے ساتھ ہو رہا ہے کہ ان بے چاری خواتین کو معلوم ہی نہیں ہو پاتا کہ وہ جن کو اپنا ہمدرد سمجھ رہی ہیں دراصل ان ہی کی وجہ سے بلوچستان کے کچھ علاقے ترقی سے محروم اور لوگ غربت کا شکار ہیں۔ سی ٹی ڈی بلوچستان کی ماحل بلوچ سے حاصل کی گئی معلومات تازہ ترین ہیں۔سی ٹی ڈی کے مطابق کوئٹہ میں ایک ایسے گروہ کی موجودگی کا پتہ چلا جس کا تعلق ایک کالعدم دہشت گرد تنظیم سے تھا۔بی ایل ایف کے اس گروہ کا لیڈر یوسف خان تھا۔یہ ڈاکٹر اللہ نذ بلوچ کا قریبی ساتھی تھا۔انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر 17فروری کو ایک خاتون ماحل بلوچ کو خودکش جیکٹ سمیت گرفتار کیا گیا۔خاتون نے اعتراف کیا کہ اس کا شوہر بی ایل ایف کا رکن ہے۔ماحل بلوچ کے متعلق مزید معلوم ہوا کہ وہ ایک گائوں گیاب کی رہائشی ہے۔یہ گائوں ضلع کیچ کا ہے۔ماحل بلوچ ایک غریب خاندان میں پیدا ہوئی۔اردگرد کا ماحول ایسا تھا کہ ریاست کے خلاف بات کرنا عام تھا۔بتایا جاتا ہے 2013ء میں اس کی شادی ایسے خاندان میں ہوئی جس کا تعلق بی ایل ایف سے تھا۔یہ خاندان دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث رہا ہے۔اس کے والدین کو شہر کی عسکریت پسندانہ سرگرمیوں کا معلوم ہوا تو انہوں نے ماحل کو طلاق کے لئے راضی کرنے کی کوشش کی لیکن وہ اپنے آنے والے بچے کے خیال سے طلاق پر آمادہ نہ ہوئی۔ ماحل بلوچ کراچی منتقل ہوئی تو وہاں بی ایل ایف کے لوگوں نے اس سے رابطہ کیا۔بی ایل ایف والے مسلسل اس کو آمادہ کرتے رہے کہ وہ ان کا ساتھ دے۔شروع میں اسے دوسری خواتین کو اپنا ہمخیال بنانے اور ریلیوں میں شریک ہونے کا ہدف دیا گیا۔بلوچستان لبریشن فرنٹ اس دوران اس کے گھر میں مختلف ذرائع سے اخراجات بھجواتی۔اس ساری ٹرانزکشن کے ثبوت بنک اکائونٹس‘ موبائل ٹرانسفر کے ذریعے ملتے ہیں۔ ماحل بلوچ کو پہلے اس کی نند بی بی گل اور پھر دوسری نند پری گل پیسے بھیجتی اور معاملات دیکھتی رہی۔ماحل بلوچ نے دوران حراست بتایا کہ اس کا سسرال اسے اس کی بچیوں کی وجہ سے بلیک میل کرتا رہا کہ وہ کسی سے تنظیمی معاملات کا ذکر نہ کرے ورنہ اس سے دونوں بیٹیاں چھین لی جائیں گی۔ماحل بلوچ بتاتی ہے کہ بی ایل ایف کے ایک کمانڈر شربت خان نے اسے گرفتاری سے ایک ہفتہ پہلے ایک جیکٹ بھجوائی جو اس نے ایک ہفتہ تک گھر میں چھپا کر رکھی۔گرفتاری کے وقت ماحل بلوچ یہ جیکٹ کسی دوسرے شخص کو دینے کے لئے گھر سے نکلی تھی۔ بلوچ سماج میں خواتین قبائل کے جھگڑے ختم کرانے میں اہم کردا کرتی رہی ہیں۔حالیہ دنوں ایک بلو چ سردارکی حراست میں جب خاتون نے قرآن اٹھا کر رہائی کی اپیل کی تو پورے ملک میں سخت ردعمل سامنے آیا۔اسی ردعمل کے نتیجے میں سردار عبدالرحمن کو ایک خاتون اور دو نوجوانوں کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ایسے میں پروپیگنڈہ پر مبنی خبریں اور غلط افراد کی باتوں میں آ کر بلوچ خواتین کی منفی تصویر پیش کی جا رہی ہے۔