یوم پاکستان گذشتہ روز منایا گیا۔ پاکستان خطے کی اسلامی روایت کا امین ہے۔اسلامی روایت کیا ہے اس کا جاننا ضروری ہے وگرنہ پاکستان کا دفاع اور استحکام مشکل ہو جائے گا۔ریاست وہی قائم دائم رہتی ہے جس کے اغراض و مقاصد بلند اور حقیقت پر مبنی ہوتے ہیں۔آل انڈیا مسلم لیگ نے 23مارچ 1940ء کو مینار پاکستان لاہور(سابق منٹو پارک) میں باضابطہ ایک آزاد اسلامی ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا۔ 1941ء تک مسلم لیگ کی تمام صوبائی تنظیموں نے مسلم اکثریتی علاقوں‘صوبوں یعنی شمالی مغربی اور مشرقی خطوں]علاقوں اور صوبوں) نے ایک آزاد‘ خود مختار اسلامی ریاست کے حصول کو اپنی حتمی منزل بنا لیا اور قائد اعظم نے منتشر مسلم معاشرہ کو نظریاتی اور سیاسی یکجہتی کی مضبوط رسی میں پرو کر سیسہ پلائی مزاحمتی دیوار بنا دیا جس کا اظہار ہندوستانی مسلمانوں نے 1943ء اور 1946ء کے صوبائی اور مرکزی عام انتخابات(الیکشن) میں کیا۔ مرکز کی تمام مسلم نشستوں پر مسلم لیگ کامیاب ہوئی اور صوبائی مسلم نشستوں پر ماسوائے صوبہ سرحد موجودہ خیبر پختونخواہ میں کچھ نشستیں سرحدی گاندھی عبدالغفار خان کی پارٹی اے این پی(ANP)نے حاصل کیں۔ابتداء میں مذکورہ قرار داد کا نام قرار داد لاہور تھا جو ہندو اور انگریز میڈیا کے مسلسل اور مواتر پروپیگنڈے کے زیر اثر قرار داد پاکستان کے نام سے مشہور ہوئی۔قائد اعظم نے قرار داد لاہور میں تقسیم ہند کے مطالبے کو مسلم انڈیا اور ہندو انڈیا کا نام دیا تھا جبکہ قائد اعظم کے دوست‘ مرشد اور راہنما علامہ اقبال نے بمقام الٰہ آباد میں ہندو انڈیا اور مسلم انڈیا کی بنیاد پر ایک آزاد‘ خود مختار اسلامی ریاست کو خطے کی حتمی تقدیر قرار دیا تھا۔علامہ اقبال کے خطبہ الٰہ آباد دسمبر 1930ء کے بعد اور گول میز کانفرنسز بمقام لندن کے دوران کیمبرج یونیورسٹی لندن کے بعض طلباء نے چودھری رحمت علی کی 6رکنی کمیٹی کے تحت مسلم انڈیا یا آزاد خود مختار خطوں کو پاکستان کا نام دیا۔قرار داد لاہور کے خلاف ہندو میڈیا نے لفظ قرار داد پاکستان استعمال کر کے زبان زد عام کر دیا جبکہ اس لفظ تخلیق کیمبرج لندن کے احاطے میں ہوئی تھی۔چودھری رحمت علی کمیٹی کے ایک رکن اے پی پی APPکے سابق ڈائریکٹر جنرل احمد بشیر صاحب کے بڑے بھائی تھی تھے۔ 23مارچ 1940ء کی قرار داد پاکستان کا فوری اور حتمی فیصلہ ہندو قیادت اور کانگرس کی صوبائی وزارتوں کی مسلم دشمن سرکاری پالیسی تھی جسے انگریز سرکار کی سرپرستی بھی میسر تھی۔انڈیا ایکٹ 1935ء کے ہونے والے انتخابات کے نتائج کے 7صوبوں میں آل انڈیا کانگرس کی صوبائی حکومتیں قائم ہوئیں ان حکومتوں نے مسلمانوں کو ہندو بنانے کی سرکاری مہم شروع کر دی جس کے تحت ودیا مندر سکیم‘ واردھا سکیم‘بندے ماترم اور اردو کو مسلمانوں کی زبان قرار دے کر رد کیا اور ہندی زبان دیوناگری رسم الخط میں رائج کر دی۔ تحریک خلافت کے بعد آل انڈیا مسلم لیگ خاصی کمزور پڑ گئی تھی تحریک خلافت ہندو مسلم سیاسی یکجہتی کی عملی کہانی ہے۔جبکہ آل انڈیا مسلم لیگ اور کانگرس کے درمیان میثاق لکھنؤ جداگانہ قومی تشخص کی بنیاد پر ہندو مسلم متحدہ سیاسی لائحہ عمل کا عہد نامہ تھا۔جس کو بدقسمتی سے گاندھی نے سبوتاژ کی۔علی برادران کی دوستی کے جلو میں گاندھی نے تحریک خلافت میں شمولیت اختیار کر لی جب تحریک خلافت کی ساری مسلم قیادت بشمول علی برادران(مولانا محمد علی جوہر‘ مولانا شوکت علی) انگریز سرکار کی قید و بند میں تھے یہ کہہ کر کہ میں اہنسا‘ (Non-violance)کا پرچارک ہوں چونکہ اب تحریک خلاف پرتشدد ہو گئی ہے، تحریک خلافت سے علیحدگی اختیار کر لی ۔ اس طرح گاندھی نے مسلمانوں کو منجدھار میں چھوڑ دیا۔گاندھی نے تحریک خلافت کی مشترکہ جدوجہد کے ذریعے میثاق لکھنؤ کی جداگانہ اسلامی شناخت کو شدید نقصان پہنچایا۔ گو قائد اعظم نے گاندھی اور کانگرس مہاسبھائی رویے کو دیکھ کر کانگرس کی رکنیت ختم کر دی اور مکمل طور پر مسلم لیگ شمولیت پر اکتفا کیا گاندھی نے تحریک خلافت کے بعد RSSبنائی۔مسلمانوں کو دوبارہ ہندو بنانے کے لئے (Back to home)’’شدھی‘‘ اور ہندوئوں کے مسلمانوں کے خلاف متشدد اتحاد کے سنگھٹن تحریک بنائی گو مسلمانوں نے شدھی اور سنگھٹن کے سدباب کے لئے تبلیغی جماعت بنائی۔ تحریک خلاف کی بظاہر ناکامی اور ہندو کی مکاری کے باعث آل انڈیا مسلم لیگ تقسیم در تقسیم‘ انتشار در انتشار کا شکار ہو گئی اسی دوران کانگرس نے ’’نہرو رپورٹ‘‘ میں دعویٰ کیا کہ مسلمان علیحدہ قوم نہیں۔ یہ ہندوئوں کا حصہ ہیں لہٰذا ان کا جداگانہ اسلامی تشخص بے معنی ہے۔قائد اعظم کے 14نکات اور علامہ اقبال کا خطبہ الٰہ آباد دسمبر 1930ء کی ہندوئوں کی متحدہ قومیت کے رد میں تھا ۔گول میز کانفرسز لندن کی ناکامی اور کمیونل ایوارڈ کا اجراء مسلمان قیادت کی کامیابی تھی۔ مگر آل انڈیا مسلم لیگ کا مرکزی اور صوبائی تنظیمی ڈھانچہ تتر بتر ہو چکا تھا۔اب قائد اعظم اور علامہ اقبال نے مشترکہ طور پر آل انڈیا مسلم لیگ کی ازسرنو تنظیم سازی کی اور مسلم لیگ کو دوبارہ عوامی اسلامی سیاسی تنظیم بنانے میں کامیابی حاصل کی۔23مارچ 1940ء کی قرار داد پاکستان آل انڈیا مسلم لیگ ملک گیر کامیابی تھی۔یہ قائد اعظم کی تنظیمی صلاحیت تھی کہ 1945-46ء کے عام انتخابات(الیکشن) میں مرکزی اور صوبائی مسلم نشستوں میں حصول پاکستان کی بنیاد پر شاندار کامیابی حاصل کی قرار داد پاکستان کی منظوری کے بعد تحریک خلافت کی طرح ہندو کانگرس قیادت اور انگریز سرکار نے کئی تجاویز دیں اور ہندوئوں نے ناکام تحریک چلائی کہ قائد اعظم اور آل انڈیا مسلم لیگ ایک آزاد‘ خود مختار اسلامی ریاست پاکستان سے دستبردار ہو جائے مگر سب کو ناکامی ہوئی دشمن کابینہ مشن کے بارے میں کہتا پھرتا ہے کہ قائد اعظم اور مسلم لیگ نے کابینہ مشن تسلیم کر کے پاکستان کے مطالبے یعنی قرار داد پاکستان 1940ء سے دست کشی اختیار کر لی تھی جبکہ قائد اعظم نے کابینہ مشن کی جبری نکاتی تسلیم‘ کے وقت کہا تھا کہ کابینہ مشن میں 10سال کے لئے اندرونی خود مختاری کے ساتھ متحدہ بنگال اور پنجاب میسر آتا ہے اور ہندو انڈیا شمالی مغربی اور مشرقی مسلم اکثریتی یونٹ میں سینڈوچ ہو کر رہ جائے گا یہی سبب تھا کہ کانگرس اور انگریز برطانوی سرکار کابینہ مشن کے عملی نفاذ کے لئے بہانے بنا کر بھاگ گئی۔