ایرانی ِ صدر ابراہیم رئیسی حکومتی وفد کے ہمراہ تین روزہ پاکستانی دورے پر ہیں۔ یہ دورہ پاکستان اور ایران کے دیرینہ اور دیرپا تعلقات پہ دور رَس نتائج کا حامل ہوگا۔اِس دورے کا عالمی پس ِ منظر ہے۔ پہلے صہیونی ریاست اسرائیل نے دمشق میں ایران کی ایمبیسی پرراکٹ حملہ کرکے سات ایرانی شہری شہید کردیئے۔ جس کے جواب میں ایران نے صہیونی ریاست پہ تین سو میزائلوں اور ڈرونز سے حملہ کیا۔ اگرچہ ایرانی حملہ میں کوئی اسرائیلی شہری ہلاک نہیں ہوا مگر ایران نے صہیونی ریاست اور اْس کے حلیفوں کو یہ پیغام ضرور دے دیا کہ اسرائیل ایران کی پہنچ میں ہے۔ شنید ہے کہ ایرانی حملہ کے جواب میں صہیونی ریاست نے ایران کے صوبہ اصفہان میں تین ڈرونز سے حملہ کیا۔ ایرانی حکام کے مطابق تینوں ڈرونز ہوا میں ناکارہ کردیے۔ مگر مغربی میڈیا اْسے کامیابی قرار دے رہا ہے۔ اِس پس ِ منظر میں ایرانی صدر نے پاکستان کادورہ کیا ہے جو ہر لحاظ سے کامیابی سے ہمکنار ہونے جارہا ہے۔ اْمید ہے ایرانی صدر کے اِس دورہ سے کھٹائی میں پڑا گیس پائپ لائن کا منصوبہ بھی جلد پایہ ِ تکمیل کو پہنچے گاکیونکہ وزیراعظم پاکستان عندیہ دے چکے ہیں کہ وہ ایران سے سستی گیس خریدیں گے۔ صرف گیس نہیں بلکہ حکومت ِ پاکستان کو چاہئے کہ ایران سے سستا تیل بھی خریدے اور ملک میں جاری مہنگائی کے طوفان کو روکنے میں ایران کا تعاون حاصل کرے۔ ایران جس طرح بے جا عالمی پابندیوں کا شکار ہے، ہمیں اِس وقت ایران کا بھرپور ساتھ دینا چاہئے کیونکہ ایران سے ہمارے دیرینہ مذہبی، ثقافتی، سیاسی و معاشی تعلقات ہیں۔ہمیں اِس وقت اپنے اتحاد کو مضبوط کرنا چاہئے کیونکہ ہمارے اتحاد سے مخالفین کی قوت کو نقصان پہنچتا ہے۔ مثلاََ آپ اندازہ لگائیں کہ ایک طرف ایرانی صدر اور اْن کا وفد پاکستان کے دورہ پر ہے اور دوسری جانب امریکی حکومت کے ترجمان دفتر ِ خارجہ نے حکومت ِ پاکستان کو دھمکاتے ہوئے خبر دار کیا ہے کہ پاکستان ایران کے ساتھ اقتصادی تعاون بڑھانے سے گریز کرے کیونکہ ایران پابندیوں کی زد میں ہے۔ اگرچہ دفتر ِ خارجہ نے اِس بات کا بھی اظہار کیا ہے کہ پاکستان پہ پابندیوں کا جائزہ نہیں لیا جارہا مگر دبے الفاظ میں وہ دھمکابھی گئے ہیں کہ ایسا ہوسکتا ہے۔ یہ سب امریکی حکومت محض اپنے ’بغل بچہ‘ یعنی صہیونی ریاست کی سالمیت اور اْس کی جانب سے نہتے معصوم فلسطینیوں پر مظالم کو تحفظ دے رہی ہے۔ مگر دوسری جانب امریکی حکومت کو اپنے ہی عوام کے بھرپور احتجاج کا سامنا ہے۔ جس انداز میں امریکی عوام صہیونی ریاست کے ہاتھوں فلسطین کے معصوم شہریوں کی شہادت پہ سراپا احتجاج ہیں، ہمیں اِس صورتحال میں امریکی عوام کو مزید حقائق سے آگاہ کرنا چاہئے۔ اِس وقت امریکی حکومت کو امریکی عوام آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔ امریکی عوام کی تنقید بلاشبہ صد فی صد درست ہے کہ امریکی عوام کے ٹیکس کا پیسہ صہیونی ریاست کے دفاع کیلئے ہتھیاروں پہ کیوں لگایا جارہا ہے؟ خاص طور پر جب امریکی عوام سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع معلومات سے اِس اَمر سے بخوبی واقف ہوں کہ صہیونی ریاست وہ اسلحہ معصوم اور نہتے فلسطینی شہریوں کا قتل ِ عام کیلئے استعمال کررہی ہے۔ امریکی حکومت خصوصاََ امریکی کانگریس صہیونی لابی کے ہاتھوں مجبور ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ بتاتے ہیں کہ صہیونی لابی امریکی سینیٹرزکے الیکشن پر خوب پیسہ خرچ کرتی ہے تاکہ جب کانگریس میں صہیونی ریاست کے حوالے سے کوئی بل پیش کیا جائے تو اسرائیل نواز سنیٹرز صہیونی ریاست کی بھرپور معاونت کریں۔ بلاشبہ امریکی عوام دنیا کی بہترین قوم ہے جو اپنے ٹیکس کے پیسوں سے دْنیا بھر کے انسانوں کی مدد کرتی ہے۔ مثلاََ USAIDخصوصی طورپر امریکی عوام کے ٹیکس سے بنایا گیا فنڈ ہے جس کے ذریعے دنیا بھر کے ممالک میں جہاں تعلیم، صحت اور فلاح و بہبود کا مسئلہ درپیش ہو یہ پیسہ وہاں خرچ کیا جاتا ہے۔ اِس فنڈ سے امریکی حکومت کا کوئی لینا دینا نہیں ہوتا بلکہ یہ خالصتاََ امریکی عوام کے ٹیکس کا پیسہ ہوتا ہے جو وہ خلوص ِ دل سے غریب ممالک کے عوام کی فلاح و بہبود کیلئے دیتے ہیں۔ دراصل یہ امریکی عوام کی فیاض دِلی ہے جس کی بنا پر امریکی حکومت ٹِکی ہے۔ مگر صہیونی لابی اِس قدر باریک بینی سے کام کررہی ہے کہ وہ اپنے مظالم کا جواز پیش کرنے کے لئے امریکی حکومت کا کندھا استعمال کرتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ جونہی صہیونی ریاست کے مظالم کا جواب دینے کی آواز کِسی ملک سے اْٹھتی ہے تو ساتھ ہی امریکی حکومت سامنے آجاتی ہے۔ حالانکہ نہ تو ایران نے براہِ راست امریکہ کو دھمکایا ہے اور نہ کسی اور ملک نے مگرصہیونی ریاست نے اپنے میڈیا کے ذریعے امریکی عوام کو ایران کی اور خود پاکستان کی منفی تصویر دکھا رکھی ہے۔ ایران امریکی عوام کی نظر میں ایک دہشت گرد ملک ہے حالانکہ نہ تو کبھی ایران نے امریکہ پہ حملے کا پہلے عندیہ دیا ہے اور نہ کبھی پاکستان نے۔بلکہ یہ دونوں ممالک دہشت گردی کا شکار ہیں مگر مغربی میڈیا نے ہمیشہ اِن ممالک کے حوالے سے منفی تاثر کو تقویت دی ہے اور صہیونی ریاست کو معصوم دکھایا ہے۔ ہوسکتا ہے یہی سبب ہو جس کی بدولت امریکی حکومت ہمیشہ صہیونی ریاست کی جانب سے چھیڑی جنگ کے عین درمیان میں کودپڑتی ہے۔ غزہ میں جاری جنگ کا آغاز بھی صہیونی ریاست نے کیا اور اب مکمل تباہی کے بعد بھی موردِ الزام فلسطین کو ٹھہرایا جارہا ہے۔ حیران کن طور پر امریکی حکومت کوغزہ میں چالیس ہزار معصوم فلسطینیوں کا قتل ِ عام نظر نہیں آرہا ہے مگر صہیونی ریاست کی سالمیت کو اِس قدر شدید خطرہ نظر آرہا ہے کہ وہ جوبائیڈن ہو یا کوئی اور حکومتی اہلکار اْسے فوراََ صہیونی ریاست کے دفاع کا ’دورہ‘ پڑجاتا ہے۔ اگر امریکی عوام جاگ گئی تو امریکی حکومت صہیونی ریاست سے پیچھے ہٹنے پہ مجبور ہوجائے گی۔ ساتھ ہی ساتھ ہم سب پہ یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم سوشل میڈیا کے مثبت استعمال کے ذریعے پاکستان کا مثبت چہرہ دنیا کو دکھائیں۔