دنیا کی نام نہاد ’’بڑی‘‘ جمہوریت‘‘ کے ہاں اس برس انتخابات کا عمل شروع ہو چکا ہے اور 4 جون تک یہ عمل جاری رہے گا۔ان انتخابات کے نتائج کیا ہوں گے؟اس بارے میں قبل ازوقت کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن مسلم آبادی کے حوالے سے بھارت کی تمام سیاسی جماعتوں کاطرز عمل بالکل واضح اور دوٹوک ہے۔بھارت میں مسلمانوں کی آبادی اس وقت انڈونیشیا کے بعد سب سے زیادہ ہے۔بھارت میں رائے عامہ کے سروے اوپنیین پول(Opinon pole ) کے مطابق2024ء میں بھارتی مسلمان دس وجوہ سے جان بوجھ کرپسماندہ رکھے گئے ہیں یااچھوت تصور کیے جاتے ہیں۔ بھارت میں مسلمان عام طور پر تعلیم، روزگار اور اقتصادی مواقع کے لحاظ سے دیگر کمیونٹیز سے پیچھے ہیں۔بھارتی سیاست میں مسلمانوں کی نمائندگی کم ہے، ان کی آبادی کے فیصد کے مقابلے میں پارلیمنٹ میں کم سیاسی عہدے اور نشستیں ہیں۔مسلمانوں کو ملازمت، تعلیم، رہائش اور قانون کے نفاذ اورمختلف شعبوں میں امتیازی سلوک اور تعصب کاشدید ترین شکار کیا گیا ہے۔مسلمان فرقہ وارانہ تشدد اور فسادات سے متاثر ہوئے ہیں، خاص طور پر بابری مسجد کے انہدام اور 2002ء کے گجرات فسادات کے بعد انہیں مستقل تشدد کا شکار رکھا گیا ہے۔ منفی رویوں اور تعصبات کو برقرار رکھتے ہوئے مسلمانوں کو دقیانوسی تصور کیا جاتا ہے اور میڈیا میں غلط طریقے سے پیش کیا جاتا ہے۔بھارت ایک سیکولر ریاست ہے، مسلمانوں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے میں بدترین پابندیوں اور چیلنجوں کا سامنا ہے، خاص طور پر بیف کی کھپت اور مسلم پرسنل لاء جیسے شعبوں میں۔دیہی علاقوں میںمسلمانوں کی معیاری تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال تک محدود رسائی ہے۔مسلمانوں کو روزگار اور اقتصادی مواقع میں امتیازی سلوک کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے بے روزگاری کی شرح اور غربت میںمسلسل اضافہ ہورہاہے۔مسلمان اکثر سیاسی طور پر پولرائزڈ ہیں، کچھ مسلمان غالب سیاسی نظریات کے حوالے سے شدیددباؤ کا سامنا کررہے ہیں۔ قوم پرستی اور ہندو ازم کے تناظر میںبھارتی مسلمانوں کو اپنی شناخت اور تعلق کے بارے میں سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے،جس کی وجہ سے معاشرے میں ان کی اپنی پہچان گم ہورہی ہے۔ ان دس وجوہ کے علاوہ اور بھی مسائل کا ذکر سروے میں موجود ہیں۔ جن میں خصوصیت کے ساتھ طبقاتی تقسیم اور قدیم ہندوانہ روایات کے پس منظر کے ساتھ ہندو تہذیب کا فروغ شامل ہے۔ مودی حکومت کی ہندواتوسوچ اوربنیاد پرستانہ حکومت کی وجہ سے مسلمانوں کے علاوہ اقلیتوں کو شدید زک پہنچی ہے۔یہ تاثریقین میں بدل چکا ہے کہ بھارت صرف بنیاد پرست ہندئوں کا مرکز ہے۔ سات مرحلوں پر مشتمل لوک سبھا انتخابات جاری ہیں۔ بیس برسوںمیں پہلی مرتبہ ہندوتوا بھارتیہ جنتاپارٹی سمیت تمام بڑی سیاسی پارٹیوں اور ان کے اتحادیوں نے مسلمانوں سے امتیازی سلوک کے ساتھ انہیں سب سے کم پارٹی ٹکٹ جاری کیے ہیں۔ لوک سبھا انتخابات نے’’ سب کا ساتھ، سب کا وکاس ‘‘(ترقی)کا نعرہ لگانے والی اور سیکولر الزم کی دعوے دار بھارت کی تمام سیاسی جماعتوں کے مسلمانوں کے خلاف ہتھکنڈوں، ان کے کردار اور چہرے کو بری طرح بے نقاب کر دیا ہے۔حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی نے صرف دومسلمانوں کو پارٹی کا ٹکٹ دیا ہے۔ کانگریس پارٹی نے جھارکھنڈ اور گجرات سمیت دس بڑی ریاستوں میں ایک بھی مسلم امیدوار کھڑا نہیں کیا ہے۔اگرچہ کانگریس نے مغربی بنگال میں مسلمانوں کو سب سے زیادہ ٹکٹ دیے ہیں، لیکن یہاں سخت مقابلے کی وجہ سے کسی مسلم امیدوارکے لیے جیتنا آسان نہیں۔لوک سبھا کی 543 نشستوں میں سے 65 ایسی ہیں جہاں مسلمانوں کی آبادی 30 سے 80 فی صد تک ہے۔ یہ حلقے اترپردیش، آسام، بہار، کیرالہ، جموں و کشمیر، مغربی بنگال اور تیلنگانہ وغیرہ میں ہیں۔ جب کہ 35-40 سیٹیں ایسی ہیں جن پر مسلمانوں کی قابلِ لحاظ آبادی ہے۔کانگریس نے صرف کورم پورا کرنے کے لیے کمزور سیٹوں پر مسلمانوں کو پارٹی ٹکٹ دیا ہے۔’’پیو ریسرچ ‘‘کے مطابق 2020ء میں بھارت میں مسلمانوں کی آبادی تقریبا 15 فیصد تھی اور آبادی کے تناسب سے پارلیمنٹ کے ایوان زیریں لوک سبھا میں مسلمانوں کو82 کے قریب نشستیں دی جانی چاہیں۔بھارتی آئین کے دیباچے میں موجود سیاسی انصاف کے تحت پارلیمنٹ کی 25 فیصد (131)نشستیں دلتوں اور قبائلیوں کے لیے مخصوص ہیں۔’’الجزیرہ ‘‘کی رپورٹ کے مطابق بی جے پی حکومت نے بھارت میں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرتے ہوئے ان کے مکانات اور مذہبی مقامات کو مسمار کیے اور روزگار کے حصول کو بھی مشکل بنا دیا ہے۔ الجزیرہ کی رپورٹ میں یہ انکشاف سامنے آیاہے کہ انتخابات میںبھارتی مسلمان شدید خوف و ہراس کا شکار ہیں۔بھارتی مسلمانوں کا کہنا ہے ’’ہم مسلسل ڈرے ہوئے رہتے ہیں‘‘، مسلمانوں کا کہنا ہے کہ نفرت اور انتہا پسندی کی سیاست ملک میں غالب ہوتی ہوئی نظر آتی ہے، ’’اگر دوبارہ بی جے پی حکومت اقتدار میں آ گئی تو مسلمانوں کے لیے بہت مشکل ہو جائے گی، پچھلے دس برسوںسے بھارت میں مسلم آبادی حکومتی عدم توجہی کا شکار ہے۔‘‘ بھارت کے گزشتہ چارانتخابات کے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو واضح ہوتا ہے کہ پارلیمنٹ میں مسلمانوں کو صرف تیس کے قریب نشستیں دی گئی ہیں۔2004میں 34 مسلم ایم پیز جیتے تھے۔ 2009میں یہ تعدادمزید کم ہوکر 30ہوگئی اور 2014میں صرف22 مسلمان اور 2019 میں 27مسلمان جیت کر بھارتی پارلیمنٹ پہنچنے میں کامیاب ہوئے تھے۔تاہم اس باردونوں بڑی جماعتوں بی جے پی اور کانگریس اور بی جے پی نے مسلمانوں کو سب سے کم پارٹی ٹکٹ دیے ہیں۔جوکہ بھارت کے ایک سیکولر ملک ہونے کی بجائے ایک ہندوتوا ملک ہونے کا واضح ثبوت ہے جہاں مسلمانوں کے لیے عرصہ حیات تنگ ہورہا ہے۔ ’’دی گارڈین ‘‘کے مطابق مودی سرکار ایک جانب دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ کر رہی ہے، تو دوسری جانب انتخابات سے پہلے ہی جیت کا اعلان کرتی نظر آتی ہے، اپوزیشن جماعت کے اکائونٹس منجمد ہونا، تمام اہم اپوزیشن لیڈروں کی گرفتاری، استغاثہ کا بطور ہتھیار استعمال اور بی جے پی کو 1.25 بلین کی امداد حاصل ہونا کوئی اتفاق نہیں ہو سکتا۔ مختلف سرویز سے پتا چلتا ہے کہ بھارتی عوام بے روزگاری، مہنگائی اور آمدنی اور مالی عدم تحفظ کے متعلق شدید پریشانی کا شکار ہیں، مودی سرکار ان تمام مسائل کے بارے میں نہایت ناقص ریکارڈ کی حامل ہے۔’’دی گارڈین ‘‘کے مطابق بھارت 200 ملین سے زائد مسلمانوں کا گھر ہے لیکن مودی انھیں نظر انداز کرتے ہوئے محض ہندو انتہا پسندوں کو ترجیح دیتا ہے، جن کی جانب سے مسلمانوں کو امتیازی سلوک اور تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے، مودی جنوبی بھارت میں مقبولیت سے محروم ہے کیوں کہ وہاں علاقائی و ثقافتی شناخت کو ہندومت پر ترجیح دی جاتی ہے۔