ہم ڈالرز کے معاملے میں ابھی بھی اس قدر کمزور ملک کیوں ہیں ۔ اس سلسلے میں غیرملکی پاکستانی بہت بڑا اثاثہ ہیں جو اس کمزوری کو طاقت میں بدل سکتے ہیں۔ انہیں ترجیحات اور سہولت فراہم کی جائے تو ترسیلاتِ زرکی مد آنیوالی رقم ہمارے خسارے کو کافی حد تک کم کر سکتی ہے ۔ اس کا مشاہدہ ہم گذشتہ چند برسوں میں کر بھی چکے ہیں جب غیر ملکی پاکستانیوں نے ریکارڈ ترسیلاتِ زر ہمارے ملک میں بھیجیں ۔ پاکستان کے لئے ترسیلاتِ زر کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتاہے کہ ہم جتنا سرمایہ برآمدات سے کماتے ہیں قریب قریب اُتنا ہی ترسیلاتِ زر کی مد میں غیرملکی پاکستانی ہمیں بھیج دیتے ہیں۔ اب ہونا تو یہ چاہیئے کہ ان کے لئے کوئی رعائت دی جائے یاکسی منصبوے کا اعلان کیا جائے ، مگر ہم تو ۹۷ لاکھ پاکستانیوں کو آپ ووٹ کا حق تک دینے کے لئے تیار نہیں ہیں اس قسم کے عوامل کا واضح ردِعمل گزشتہ برس میں ترسیلاتِ زر کی مد میں شدید ترین کمی کی صور ت میں دیکھاگیا۔ترسیلاتِ زر میں ہونیوالی کمی کا تخمینہ 13فیصد کے قریب ہے۔اکنامک سروے کے حالیہ اعدادو شمار کے مطابق ترسیلاتِ زر گذشتہ برس 26.1بلین ڈالر تھی وہ اب کم ہو کے صرف 22.7بلین ڈالر رہ گئی ہیں ۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ آپ گزشتہ کئی ماہ سے عالمی مالیاتی ادارے سے صرف ایک بلین ڈالر کے لئے ڈیل کر رہے ہیں ۔ بیرونی ذرائع سے فنانسنگ کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے بھی آپ صرف چار بلین ڈالر کا انتظام کر پائے ہیں جبکہ ترسیلاتِ زر میں ہونیوالی کمی ہی تقریباََ ساڑھے تین بلین ڈالر کے قریب ہے۔ جبکہ کچھ آزاد ذرائع کے مطابق یہ کمی لگ بھگ عالمی مالیاتی ادارے کے پورے پروگرام کے برابر ہے جسے درست انداز میں ریکارڈ نہیں کیا جا رہا ۔ یہاں سے آپ ترسیلات ِ زر میں ہونے والی کمی کی اہمیت کا اندازہ لگائیں۔اصل پریشانی کی بات یہ ہونی چاہیے کہ اس کمی کا تسلسل ٹوٹ نہیں رہاجو یقیناً پاکستان کے لئے مزید مشکلات کا سبب بن سکتاہے۔سو بیرون ملک پاکستانی ہمارا بہت بڑا سرمایہ ہیں، یہی وہ قوت ہے جو پاکستان کو اپنے قدموں پہ مضبوطی سے کھڑا کرنے کے قابل بنا سکتی ہے۔ ان کی طرف خصوصی توجہ کیجئے ان کیلئے خصوصی منصوبے ترتیب دیجئے اور اپنی سیاست سے بالاترہو کر ان کا اعتماد بحال کیجئے کیونکہ یہ پاکستان کی معیشت اور مستقبل کی معاملہ ہے ۔ تمام مسائل کے فوری حل کے لئے بہترین امر یہ ہے کہ پاکستان کسی بھی طرح سے اپنی آمدنی کو بڑھانے کے اسباب کرے مگر موجودہ حالات میں ایسا ممکن نظر نہیں آتا ۔ شرح سود اکیس فیصد کی تاریخی بلندترین شرح پر ہے ۔ایسے میں کاروبار کرنے کی قیمت بہت زیادہ ہے ۔دوسری طرف پاکستان میں کاروبار کرنا مزید مہنگا ہوتا جا رہاہے ۔یہی وجہ ہے کہ گزشتہ سال میں ہمارا صنعتی شعبہ بڑی شدت سے متاثر ہوا ہے،ہماری بڑی صنعتیں جو 10.6فیصد کی شرح سے ترقی کر رہی تھیں اس سال ان کی شرح نمومنفی 8.1فیصد پر آگری۔چنانچہ صنعتی شعبے کو مضبوط کرنے کے لئے فوری طور پر اصلاحات کی ضرورت ہے جن میں صنعتی شعبے کیلئے درکار توانائی کے لئے اصلاحات سرِفہرست ہونی چاہیئں کیونکہ توانائی کی اس قیمت پر کاروبار سودمند نہیں ہے ، توانائی کے شعبے کو اس وقت صرف سبسڈی کے ذریعے ہی سہولت دی جارہی ہے ،جس کے لئے ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں مزید برآں سبسڈی عالمی مالیاتی ادارے کو بھی پسند نہیں۔ہم اس وقت قریب قریب 26 بلین ڈالر کی توانائی درآمد کر رہے ہیں سو توانائی کے شعبے کی ترویج کے لئے فیول کے مقامی ذرائع کی طرف رجوع کی ضرورت ہے مگر اس کے لئے بھی سرمایہ درکار ہے۔چنانچہ کاوربار کو باسہولت بنانے کے لئے باقاعدہ منصوبہ سازی کیجئے اور اس منصوبہ بندی کے تسلسل کا انتظام بھی تاکہ اعتماد کی فضا بھی بحال ہو ۔اس سلسلے میںایک فوری اور مناسب حل یہ بھی ہے کہ خوراک کی درآمد پر جو تقریباََدس بلین ڈالر خرچ ہو رہے ہیں انہیں کم کیاجائے۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ برآمدات میں اضافہ کے لئے اقدامات کئے جائیں جو ہمارے خزانے میں مزید ڈالرز میں اضافہ کا سبب ہو سکتے ہیں اور یقینی بات ہے کہ اس سے ہمارا خسارہ کم ہو گا۔ مگر اس سلسلے میں ایسے شعبوں پرخصوصی توجہ دینی ہو گی جن کے لیے زیادہ توانائی درکار نہیں ۔ان شعبوں میں ٹیکنالوجی کا شعبہ سرفہرست ہونا چاہیے، پاکستان نے حالیہ فنانس بل میں اس طرف توجہ بھی دی ہے ۔ ٹیکنالوجی کے شعبہ میں فر ی لانسنگ کے لئے خصوصی سہولت اور رعائت کا اعلان بھی کیا گیا ہے اس پر جس قدر تیزی سے عمل درآمد ہو گا اتنی ہی تیزی سے ملکی خزانے کو بھی فائدہ ہوگا ۔ مزید برآں زرعی مصنوعات کے ضمن میں بھی خاصے مواقع ہیں جن سے قومی خزانے کو توانا کیا جا سکتاہے ۔ زراعت کے شعبہ کے لئے کئی ایک سہولیات اور رعائتوں کا اعلان کیا گیاہے ۔ جو یقیناً سودمند ہو گا مگر حکومت کو زرعی مصنوعات کی قدر میں اضافے کے لئے خصوصی ٹریننگز کا اہتمام بھی کرنا چاہئے ۔ بیرون ملک پاکستانیوں کے بعد زراعت ہی وہ واحد شعبہ جو انتہائی سرعت سے ملک کے حالات پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ اسٹیل مل ، پی آئی اے، بجلی کی پیداواری اور ترسیلی کمپنیاں اور ریلوے ایسے بیسیوں قومی ادارے جو برس ہا برس سے قومی خزانے پر بوجھ ہیں ، ان کی نجکاری بھی ضروری ہے مگر اس بارے میںبھی کوئی منصوبہ بندی نظر نہیں آتی۔اگر نجکاری ان حالات میں ممکن یا سہل نہیں ہے تو کم ازکم ان کی بحالی کا ہی کوئی پلان بنالیاجائے۔ساری دنیا ریلوے میں اشتہارات کے زریعے سے کماتی ہے ہماری ریلوے کی انہی خطوط پر تشکیل نو کیوں نہیں کی جا سکی ، اس کا م کے لئے تو سرمایہ بھی درکار نہیں ۔یا کم ازکم ان کی بھاگ دوڑ ٹیکنوکریٹ کے سپرد کیوں نہیں کر دی جاتی یا سرکاری اور نجی شراکت داری سے انہیں کیوں نہیں چلایا جاتا۔ اسی طرح کے کئی ایک حل موجود ہیں ضرورت صرف ارادے کی ہے ۔اس قدر غیر یقینی حالات میں بھی غیر معمولی فیصلے نہیں کئے جائیں گے تو پھر کب کئے جائیں گے۔ پاکستانی معیشت کے ممکنہ حل یقینی طور میں مختصر دورانیئے میں سیاسی لحاظ سے غیر مقبول ہیں مگر خدارا فیصلے کیجئے۔