محبت بھی کیا انمول چیز ہے کہ جب یہ کسی سے ہو جائے تو پھر نہ مذہب دیکھتی ہے اور نہ عقیدہ اور نہ ہی شکل صورت عربوں کی تاریخ میں قیس بن عامر ایک سردار کا بیٹا تھا لیکن لیلیٰ کے ساتھ بے انتہا محبت کرنے کی وجہ سے مجنون بن گیا۔ دوسری طرف حکایات میں یہ بھی آتا ہے کہ لیلیٰ رنگ کی کالی تھی لیکن مجنون کی نگاہ میں وہ سب کچھ تھی اس لیے وہ ساری زندگی لیلیٰ لیلیٰ پکارتا رہا اور آخر اِس جہانی فانی سے کوچ کر گیا لیکن اُس کی محبت بھری کہانی آج بھی زندہ ہے اب ہم اپنے مایہ ناز بیورو کریٹ اور ادیب قدرت اللہ شہاب کی ایک محبت کا ذکر کریں گے ۔ اصل میں قدرت اللہ شہاب ایک انتہائی نرم دل اور درویش منش بیوروکریٹ تھے جنہوں نے ساری زندگی دوسروں کو فائدے ہی دئیے قدرت اللہ شہاب نے اپنی زندگی کے بہت سے گوشے اپنی شہرہ آفاق آب بیتی شہاب نامہ میں ظاہر کیے ہیں جبکہ آخری عمر میں وہ گوشہ نیشن ہو گئے تھے اور اُنہوں نے لوگوں سے ملاقاتیں بہت کم کر دی تھیں ،ما سوائے اپنے چند ادیب دوستوں کہ جن میں ممتاز مفتی ، اشفاق احمد خان ، ابن انشاء ، بانو قدسیہ وغیرہ شامل ہیں یہ وہ لوگ تھے جو شہاب صاحب کی زندگی کے تمام گوشوں سے واقف تھے اور اِن میں اشفاق احمد خان اور بانو قدسیہ نے قدرت اللہ شہاب پر بہت کچھ لکھا بھی ہے جن میں اشفاق احمد خان مرحوم نے بابا صابا میں قدرت اللہ شہاب کا ذکر بڑی عقیدت اور احترم سے کیا ہے اسی طرح ممتاز مفتی بھی قدرت اللہ شہاب کو اپنا مرشد قرار دیا کرتے تھے۔ قدرت اللہ شہاب ایک کاشمیری گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اُن کے والد عبداللہ شیخ شمالی علاقہ جات میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز تھے جو اپنے بیٹے کو انڈین سول سروس (ٓائی سی ایسٌ ) کرانا چاہتے تھے جموں کشمیر سے نکل کر جب قدرت اللہ شہاب نے لاہور گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا تو یہی سے اُن کی زندگی میں ایک نیا موڑ آیا اور وہ ایمن آباد گوجرانولہ کی ہندو لڑکی چندرا واتی کے عشق میں مبتلا ہو گئے ہوا یوں کہ وہ ایک دن جی سی کالج کی لائبریری میں اپنے امتحان کی تیاری کے لیے ایک کتاب ایشو کرانے گئے تو وہاں پر ایک لڑکی آگئی جو وہی کتاب اپنے نام ایشو کرانا چاہتی تھی لیکن لائبریرین وہ کتاب قدرت اللہ شہاب کو ایشو کر چکے تھے جبکہ اُس لڑکی نے منت سماجت کر کے شہاب صاحب سے دو دن کے لیے کتاب مانگ لی بس اُس گھڑی قدرت اللہ شہاب اُس ہندو لڑکی چندراوتی کے عشق میں ڈوب گئے اور پھر پورے دو سال وہ چندراواتی کے ساتھ محبت کرتے رہے چند راواتی جو موہنی روڈ داتا دربار کے عقب میں ہندؤوں کے ایک آشرم میں رہتی تھی وہ انتہائی خوب صورت سونے کی رنگت کی مانند تھی اور ایک انتہائی غریب گھرانے سے تعلق رکھتی تھی ۔ اُس کی والدہ ایمن آباد میں لوگوں کے گھروں میں کام کرتی یا پھر سلائی مشین چلایا کرتی تھی چند راوتی کی صرف والدہ تھی جب کہ باب بہت پہلے مر چکا تھا ۔قدرت اللہ شہاب نے لاہور میں ایک انگریز اور ایک ہندو خان بہادر کے بچوں کو ٹیوشن پڑھا کر ایک ریلے کمپنی کی سائیکل خرید لی تھی جس پر وہ چھٹی والے دن چند راوتی کو لے کر لاہور سے 45 کلومیٹر دور ایمن آباد جایا کرتا تھا جہاں پر وہ چند راوتی کی والدہ سے ملاقات کر تا اور سارا دن چند راوتی کے گھر بیٹھ کر تاش کھیلتے اور یوں شام ہونے سے قبل اُسی سائیکل پر واپس لاہور آجا یا کرتے تھے لاہور میں وہ کبھی راوی پار کامران کی بار داری یا پھر مقبرہ نور جہاں شاہدرہ پر جا کر چند راوتی کے ساتھ محبت کی باتیں کرتے۔ اُس زمانے میں ملکہ نور جہاں کی قبر کے سرہانے اُنہی کا اپنا شعر کتبے پر موجود تھا ۔ جہانگیر بادشاہ کی اِس چہیتی بیوی نے مرنے سے قبل اپنا یہ شعر اپنی قبر کے سرہانے نصب کرنے کی وصیت کی تھی جو شہزادہ خرم شاہ جہاں نے اُن کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے سنگ مرمر کی ایک بڑی تختی پر لکھوا کر نصب کرایا تھا ۔ برمزار ما غریباں نے چراغ نئے گلے نے پر پروانہ سو زونے صدائے بلبلے ترجمہ: ہم مسافروں کی قبر پر نہ کوئی چراغ جلانے والا ہے اور نہ ہی کوئی پھول ڈالنے والا ہے جہاں پر چراغ نہیں جلتا وہاں پر پروانہ نہیں آتا اور جہاں پر پھول نہیں ہوتے وہاں پر بلبل کا بسیرا نہیں ہوتا ۔ ملکہ نور جہاں نے جو بات اپنی زندگی میں اپنے مزار کے متعلق لکھی تھی وہ حرف بہ حرف سہی ثابت ہو رہی ہے کہ نور جہاں کی قبر پر آج بھی اندھیر ہی اندھیر نظر آتا ہے وہاں پر نہ کوئی پھول ہے اور نہ ہی کوئی چراغ جلتا ہے۔ ملکہ نور جہاں اپنی زندگی میں ہی اپنی حقیقت بیان کر گئی تھی۔ دن گزرتے گئے اور قدرت اللہ شہاب کی چند راواتی سے محبت بڑھتی گئی لیکن آخر ایک دن اِس سچی اور بے لوث محبت کا بھی اختتام ہونا تھا اور پھر ایک دن چند راوتی کو خون کی اُلٹیاں آنا شروع ہو گئی قدرت اللہ شہاب اُسے ایک ڈاکٹر کے پاس لے گیا جس نے آخری درجے کی ٹی بی بتائی اور یوں وہاُسے اُس کی ماتا جی کے پاس ایمن آباد لے گیا جہاں پر صرف پندرہ دنوں کے اندر چند راوتی کا سور گپاش ہو گئی اور اُس انتہائی خوب صورت جسم کو چتا پر لٹا کر آگ کے حوالے کر دیا گیا اور پھر تیسرے دن چند راوتی کی ماتا جی کی خواہش کے احترام میں قدرت اللہ شہاب نے اپنی ریلے سائیکل فروخت کر کے پچاس روپے چند راوتی کی ماتا جی کے حوالے کر دئیے جو اُس کی راکھ لے کر اُس کی ماتا جی کو لاہور ریلوئے اسٹیشن کے پلیٹ فارم نمبر 3 سے بنارس جانے والی گاڑی میں سوار کرا دیا جو کہ بنارس جا کر چند راوتی کی راکھ کو گنگا میں بہانا چاہتی تھی اور قدرت اللہ شہاب نے واپس آکر جی سی لاہور کے ہوسٹل میں تین دن روتے ہوئے گزارے اور پھر تیسرے دن اپنی زندگی کا پہلا افسانہ ’’مجھے چند راوتی سے اُس وقت محبت شروع ہوئی جب اُسے مرے ہوئے تیسرا دن تھا‘‘