جب سے غزہ کے حماس جنگجوئوں نے اسرائیل پر حملہ کیا اور جواب میں اسرائیل نے غزہ پر ظلم وجبر کے پہاڑ توڑ دئیے ہیں، مسلسل بمباری اور ناکہ بندی کر کے پانچ چھ ہزار سے زائد نہتے فلسطینیوں کو شہید کر دیا ہے، تب سے دنیا بھر میں کئی مباحث جاری ہیں۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ اس حملے سے مسئلہ فلسطین دوبارہ سے تازہ ہوگیا ہے بلکہ ہر ایک کو اندازہ ہوگیا کہ اسے دبائے رکھنا ممکن نہیں۔ مشرق وسطیٰ کے پائیدار حل کے لئے صرف عرب ممالک پر دبائوڈال کر اسرائیل کو تسلیم کرانا کافی نہیں بلکہ فلسطینیوں کو ان کا وطن بھی لازمی لے کر دینا ہوگا۔ خیر ان مباحث میں سے ایک بحث حماس کے حملے کے جواز اور اسباب کے حوالے سے ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ حماس کے اس حملے نے اسرائیل کو سفاکی اور بربریت کی انتہا پر جانے کا موقعہ فراہم کیا اور اس سے فلسطینیوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس حوالے سے ایک فلسطینی عالم دین علامہ محمد بن محمد الاسطل کی ایک تحریر سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے۔ علامہ صاحب کے دلائل ایسے مضبوط اور پرزور ہیں کہ انہیں اپنے قارئین تک پہنچانا ضروری لگا۔ اسے عربی سے اردو میں اشتیاق عالم فلاحی نے منتقل کیا ۔ علامہ محمد بن محمد الاسطل لکھتے ہیں :ـ ’’ میں ان لوگوں میں سے نہیں جو سوشل میڈیا پر چھڑنے والی ہر متنازع گفتگو کا جواب دینے کے لیے میدان میں اتر پڑتے ہیں۔ ایک دو دن پہلے بعض احباب کی طرف سے مجھ سے دریافت کیا گیا کہ : اس شخص کی رائے کے بارے میں آپ کا کیا جواب ہے جو یہ کہتا ہے کہ صہیونی دشمن کو چھیڑنے کی ضرورت نہیں تاکہ اسے اتنے شدید ردِ عمل کا موقع نہ ملے۔ ’’میں اس ضمن میں ذیل کے صرف چار اسباب آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ پہلی وجہ: ’’دشمن مسجدِ اقصیٰ کی بے حرمتی، اسے یہودی شناخت دینے، اور ہیکل کی تعمیر کے اپنے ایجنڈے پر ماضی کے مقابلے میں بہت زیادہ تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ اپنے اس ایجنڈے کو پورا کرنے کے لیے ماضی میں دو یا تین سالوں میں وہ جو اقدامات کرتا تھا اب وہ دو تین ہفتوں میں ہی وہ سب پورا کر رہا ہے۔ ساتھ ہی اہلیانِ شہر القدس کو ذلیل و رسوا کرنے، ہراساں کرنے اور ان کے اہلِ علم و فضل کو جیل میں بھرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ ’’صرف یہی نہیں، اس کی حرکتیں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ اب وہ مسجدِ اقصیِ میں نماز سے لوگوں کو روک رہا ہے۔ اس کی رکاوٹوں کی وجہ سے لوگ نماز کے لیے مسجد تک نہیں پہنچ سکتے۔ مسجد کے اندر تقریبا 50 علمی حلقے منعقد ہوتے تھے لیکن اب برسوں سے ان پر بھی پابندی عائد ہے۔ مجاہدین کے آپریشن سے چند دن پہلے تقریبا 5 ہزار صہیونیوں نے مسجدِ اقصیٰ میں گھس کر اس کی بے حرمتی کی۔ کئی دنوں سے ان کی یہی حرکات جاری تھیں۔ مسجد کی بے حرمتی کے ایسے مظاہر گزشتہ بیس سالوں میں بھی سامنے نہیں آئے تھے۔ مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی، اور اسے یہودی رنگ دینے کی بڑھتی ہوئی حرکتوں کے رد میں مجاہدین نے اپنے آپریشن کو انجام دیا۔ معرکہ کے نام "طوفان الاقصیٰ" سے ہی اس کا مقصود ظاہر ہوتا ہے۔ ’’دوسری وجہ: د،شمن ہمیں گزشتہ پندرہ سالوں سے دھیرے دھیرے موت کی طرف دھکیلنے کے اپنے منصوبے پر کار بند ہے.۔ہمارے درمیان نوجوانوں کی ایک پوری نسل ایسی ہے جس نے اسی بحران کے درمیان آنکھ کھولی ہے۔ وہ روزگار سے محرومی کی زندگی جی رہے ہیں، تعلیم پوری نہیں کر سکتے، شادی نہیں، گھر نہیں بنا سکتے۔ ان سب کا نتیجہ یہ ہے کہ معاشرہ میں طرح طرح کی سماجی مشکلات پھیل چکی ہیں۔ قریبی دنوں میں دسیوں ہزار کی تعداد میں نوجوانوں نے اس امید پر مغربی ممالک کی طرف ہجرت کی کوشش کی کہ انہیں زندگی گزارنے کے لیے روزگار کے کچھ مواقع میسر آئیں گے، مگر وہ ناکام رہے۔ ’’ تیسری وجہ ’’ہمارے جو افراد د،شمن کی قید میں ہیں ان کے ساتھ اس کا رویہ وحشیانہ ہے۔ وہ ایسی شدید اذیتوں کا سامنا کر رہے ہیں کہ گویا ہر دن کئی کئی بار موت کی چکی میں پیسے جا رہے ہیں۔ آپ تصور کریں کہ ان میں سے کچھ ایسے ہیں جو ڈیڑھ میٹر کے سیل میں 13 سالوں سے قید ہیں، کچھ قیدیوں کو براز و گندگی سے لت پت سیل میں ڈالا جاتا ہے۔ جب وہ قیدی کسی نہ کسی طرح سیل صاف کر لے تو اسے اسی طرح کے دوسرے گندے سیل میں منتقل کر دیا جاتا ہے تاکہ اذیت کا وہی سلسلہ پھر شروع ہو۔ ’’ماضی قریب میں قیدیوں کے ساتھ ہونے والا اذیت ناک سلوک برداشت کی حدوں سے بھی باہر جا چکا ہے۔ ان میں یہ احساس پیدا ہونے لگا ہے کہ امت انہیں بھول بیٹھی ہے۔ کسی کو ان کی مصیبت اور ان کے حالات کی فکر نہیں بلکہ کسی کو یہ بھی نہیں پتہ کہ ان کے ساتھ کیا کچھ ہو رہا ہے۔ گزشتہ مہینوں سے یہ آواز اٹھ رہی تھی کہ ان قیدیوں کی رہائی اور اس جہنم سے ان کی آزادی کے لیے جد وجہد ضروری ہے۔ اس مصیبت میں ہماری قیدی بہنوں کی اذیت کا اضافہ بھی کر لیجیے۔ ہماری بہنوں کو رسوا کیا جا رہا ہے، ان کے دین، ان کی عفت، اور ان کی حیا کوجس طرح تار تار کیا جا رہا ہے میں اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ایسے مرحلہ میں مجاہدین نے آپریشن کیا تاکہ مظا،لم کے اس لا متناہی سلسلے پر بند باندھا جائے۔ ’’چوتھی وجہ ’’مزاحمتی حلقوں کی طرف سے یہ وضاحت آ چکی ہے کہ انہیں موصول خفیہ معلومات کی روشنی میں یہ انکشاف ہوا تھا کہ دشمن غزہ کو تباہ کرنے کے لیے اس کے خلاف ایک بھر پور حملہ کی تیاری کر رہا ہے۔ چنانچہ مزاحمتی قوت نے یہ طے کیا کہ دشمن کو اچانک حملہ کا موقع نہیں دینا چاہیے، اچانک حملہ کر کے دشمن جو اہداف حاصل کرنا چاہتا ہے اسے روکنے کا یہی ایک طریقہ ہے کہ اس کارروائی کا آغاز خود مزاحمتی قوت کی طرف سے اچانک ہو نہ کہ دشمن کی طرف سے۔ چنانچہ مجاہدین نے ایک ساتھ کئی مقاصد اور اہداف کو سامنے رکھتے ہوئے بھر پور کارروائی کی۔ ’’میں نے جنگی جہا،زوں اور میز،ائلوں کی گھن گرج کے درمیان جلدی میں یہ چاراسباب بیان کیے ہیں۔ ’’پھر یہ بھی عرض کروں کہ دشمن کے مقابلے میں کھڑے لوگ اپنے احوال سے بہتر واقف ہیں۔ جو احوال سے واقف نہ ہو، اسے چاہیے کہ وہ کوئی بھی رائے قائم کرنے سے پہلے صحیح صورتِ حال دریافت کر لے۔ یہی حکمت کا تقاضہ ہے۔ جو وطن سے دور ہو اس پر ایسی کوئی پابندی نہیں کہ وہ ملکی معاملات میں فتویٰ نہیں دے سکتا، البتہ ضروری ہے کہ پہلے وہ حصول معلومات کے ممکنہ ذرائع کا استعمال کر لے کیونکہ فتویٰ کے لیے یہ ایک ضروری شرط ہے۔ ’’میں بہت ہی گھٹن کے ساتھ یہ سطور قلم بند کر رہا ہوں۔ جب معرکہ برپا ہو اس وقت ہمیں دستِ تعاون بڑھانا چاہیے نہ کہ تنقید اور محاسبہ کے تیر چلانے چاہیے۔ جو لوگ صہیونی بیانیہ پر تکیہ کرنے والے استبدادی حکمرانوں کے بیانیہ کو درست سمجھتے ہوں، وہ ان وضاحتوں سے بھی مطمئن نہیں ہو سکتے بلکہ یہ لوگ ہر اس شخص کے رد کے لیے تیار رہیں گے ۔ ہم نے برسہا برس سے ایسے تماش بیں لوگوں کو دیکھا ہے جن کے بارے میں رسول اللہ کی فرمودات میں ہمیں پہلے ہی بتا دیا گیا ہے۔ ہمیں نصوص میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ محازوں پر ڈٹنے والوں کو اللہ کے حکم سے نہ تو ان کے مخالفین نقصان پہنچا سکیں گے اور نہ ہی ان کو بے یار مددگار چھوڑ کر تماشہ دیکھنے والے.۔ ’’مجھے اچھی طرح اندازہ ہے کہ کچھ لوگوں کو اس پر کوئی دکھ نہیں ہوتا کہ پوری کی پوری قوم ذلت، رسوائی، فقر، اور مظلومیت کے دلدل میں ہے، انہیں قید و بند کی زنجیروں نے جکڑ رکھا ہے، مسجد ا،قصٰی کی حرمت پامال ہو رہی ہے، ہمارے قیدیوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک ہو رہا ہے. ان کے نزدیک یہ سب فطری اور معمول کی باتیں ہیں، ان سب کے ساتھ جینا سیکھ لینا چاہیے. ’’مجھے نہیں معلوم کہ وہ باطل کہاں ہے جو تمہیں اس کی اجازت دے دے گا کہ تم اسے اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کرو اور پھر اس پر خاموش رہ کر تم سے محبت اور مہربانی کے ساتھ پیش آتا رہے. ’’اللہ جل جلالہ سے بس یہی فریاد ہے کہ الٰہی ہم کمزور ہیں ہماری مدد فرما، ہم محتاج اور تیری عنایت کے طلبگار ہیں ہم پر کرم فرما۔ہم عاجز ہیں ہمیں غلبہ و قوت عطا فرما۔ ہم رسوائی سے دو چار ہیں ہمیں عزت و اقتدار عطا فرما۔ کسی بھی افواہ پھیلانے والے اور ساتھ چھوڑ کر بھاگنے والے کے احسان سے ہمیں بچا۔ اللہ اپنے معاملے پر غالب آ کر رہنے والا ہے لیکن اکثر لوگ اس حقیقت کو نہیں جانتے۔‘‘