خیال کیا جارہا تھا کہ اسرائیل کے افسوسناک مظالم کیخلاف انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کوئی جرأتمند اور توانا آواز ضرور بلند ہوگی اور صہیونی بربریت کا منہ توڑ جواب دینے کیلئے جہاد کا نقارہ بجے گا اور کوئی لازما فلسطینی عوام کے زخموں پر مرہم رکھے گا اور ان کے کھلے آسمان تلے پڑے بے یارو مدد گا بے گوروکفن لاشے دفنائے گا لیکن ابھی تک سب زبانی جمع تفریق سے کام لیا جارہا ہے۔ دنیا کے منصف بھی خاموش ہیں اور انتظار کر رہے ہیں کب فلسطینیوں کی جاں خلاصی ہو گی ۔ عالمی امن کے دعویدار وں نے بھی مجرمانہ چپ ساد ھی ہوئی ہے تاحال ادویات اور ضروری خوراک کی فراہمی بھی معطل ہے۔ غزہ کے سرکاری اور عالمی ریڈ کراس کے تمام ،ہسپتالوں کی عمارتیں اسرائیلی بمباری سے کھنڈر میں تبدیل ہوچکی ہیں۔5000سے زائد فلسطینی جام شہادت نوش کر چکے ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں زخمی کسی مسیحا کے منتظر ہیں ۔ اسرائیل آگ و بارود کی بارش کرکے غزہ کو ملیامیٹ کر رہا ہے، ایسے میں انسان دور کی بات ہے کسی حیوان کی روح کا زندہ رہ جانا بھی مشکل ہو گیا ہے اور ان حالات میں ستم بالائے ستم امریکہ نے اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں انسانی ہمدرردی کی بنیاد پر جنگ سے تباہ حال غزہ میں اپنی موت کے منتظر فلسطینی عوام کیلئے کسی بھی قسم کی امداد فراہم کرنے کی قرارداد کو ویٹو کر د یا ہے۔ اب گو یا فلسطینی تڑپتے لاشوں کو پانی کا گھونٹ دینا بھی جرم بن چکا ہے۔ اسرائیل اور امریکہ دنیا بھر میں یہ تاثر دے رہے ہیں کہ یہ جنگ دراصل اسرائیل اور حماس کے درمیان لڑی جارہی ہے اور حماس فلسطینی عوام کی ایک نمائندہ جماعت ہے۔ حماس کا اصل نام'' تحریک مزاحمت اسلامی'' فلسطین ہے عالمی سروے کے مطابق حماس کا شمار فلسطین کی صف اول کی جماعتوں میں ہوتا ہے جس کی جد وجہد کا مقصد ایک آزاد خود مختار فلسطینی ریاست کا قیام ہے۔ اسرائیل حماس کی مزاحمت سے خائف ہے اور ہمیشہ ایک منظم انداز میں حماس کی قیادت کو اپنے مظالم کا نشانہ بناتا رہتا ہے تاکہ نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ حماس کے کارکن اپنے دفاع کی جنگ لڑ رہے ہیں انھوں نے کبھی بھی عالمی قوانین کی خلاف ورزی نہیں کی جبکہ عالمی اور جنگی قوانین قوانین کی خلاف ورزی اسرائیل کا روز مرہ کا معمول ہے اور اکتوبر 2023ء میں شروع ہونے والی جنگ میں اس نے طلم و ستم کی سرحدیں پار کردی ہیں اور سرعام تمام عالمی و جنگی قوانین کو بھی اپنے پائوں تلے روند ڈالا ہے۔ جنگی جرائم میں ملوث اسرائیلی فوجی سرزمین فلسطین پر دندنا رہے ہیں، یہ ان ممالک کی آنکھیں کھولنے کیلئے بھی کافی ہے جو مسئلہ فلسطین کا حل دو ریاستی فارمولا میں تلاش کر رہے تھے۔ ابھی تک پاکستان سمیت دنیا کے 28سے زائد ممالک اسرائیل کے ناجائز وجود کو تسلیم نہیں کرتے لیکن اس کے باوجود اسرائیل نہتے فلسطینی عوام کو اپنے ظلم و جبر کا نشانہ بنانے سے باز نہیں آرہا اور جب اس کا ناجائز وجود پوری دنیا میں تسلیم کیا جا چکا ہوگا۔ پھر کیا صورتحال ہو گی سوچنے کی بات ہے کہ پھر کون ہے جو اس وقت مشرق وسطیٰ میں قیام امن کی ضمانت دے گا۔ امریکہ موجودہ اسرائیل اور فلسطین جنگ میں یہ ثابت کر چکا ہے کہ اسے اسرائیل کا وجود اپنے وجود کی طرح عزیز ہے ۔ فلسطینی عوام کو تہہ تیغ کرنے کیلئے سب سے پہلے بحری بیڑی امریکہ نے روانہ کیا اور آج بین الاقوامی میڈیا کی جانبدار ی کی وجہ سے تصویر کا صرف ایک رخ دنیا کے سامنے پیش کیا جارہا ہے۔ روتی، سسکتی، تڑپتی اور بلکتی انسانیت کو مسلسل نظر انداز کیا جارہا ہے کہ کہیں آقا ناراض نہ ہو جائیں، امت مسلمہ کی قیادت مجبوری اور بے بسی کی تصویر بنی نظر آرہی ہے۔ ان حالات میں ثابت قدمی سے اپنے موقف پر ڈٹے رہنے اور اس کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والوں کی جرأت اور بہادری کو سلام ہے۔ 6ماہ کے فلسطینی شیر خوار بچے کی شہادت مسلم اور عالمی برادری کے منہ پر ایک زور دارطمانچہ ہے اور اس کی شہادت پیغام دے رہی ہے کہ اب بھی وقت ہے بیدار ہو جائیں ورنہ کچھ ہاتھ نہیں آئے گا لیکن نہ جانے کیوں بے حسی کی نحوست ختم نہیں ہو رہی۔ تاریخ کے دریچوں میں جھانک کر دیکھا جائے ہمیں معلوم ہوگا کہ قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے اور پاکستان اس کے وجود کو کبھی بھی تسلیم نہیں کرے گا ۔ مینا ر پاکستان پر جلسہ میںیک بڑی سیاسی جماعت کے لیڈا نے اپنی تقریر میں ہمسایہ کے ساتھ دوستی کا ذکر کیا لیکن شاید انہیں بھول گیا تھا کہ یہ ہمسایہ فلسطینی عوام کی نسل کشی میں اسرائیل کی مکمل سپورٹ کر رہا ہے۔