مکرمی!ارضِ شمال میں سردیوں کی آمد آمد ہے۔ ہلکی ہلکی ہوا سے پتے جھڑ رہے ہیں۔موسم بہار کو زوال شروع ہو گیا ہے۔ ہوا میں عجیب سی خْنکی محسوس ہو رہی ہے۔دن مختصر اور راتیں لمبی ہونا شروع ہو گئی ہیں۔موسم خزاں سبزے کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔درختوں سے پتے جھڑنا شروع ہو گئے ہیں۔چمن یوں ویران ہے جیسے کسی نے آگ لگا دی ہو۔گلابوں کی رنگت زرد ہوتی جا رہی ہے۔پھولوں پر تتلیاں اڑتے ہوئے نظر نہیں آرہے ہیں۔شاید انھوں نے بھی گرم علاقوں کا رخ کر لیا ہے۔پندرہ نومبر سے برف جمنا شروع ہو گئی ہے۔نالوں میں پانی کی کمی کے باعث بجلی کی لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے۔بازاروں میں لنڈے کے سٹال لگے ہوئے ہیں۔لوگ گرم کپڑوں، لحافوں، جرابوں اور کمبلوں کی خریداری میں مصروف ہیں۔ بادام، گیری، اخروٹ اور دیگر خشک میوہ جات کے ساتھ گرم مشروبات کا استعمال جاری ہے۔سردیوں کا مقابلہ لکڑیوں کے بغیر ممکن نہیں۔لوگ لکڑیوں کا بندوبست کر رہے ہیں۔ بہرحال شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے خزاں کی آمد کو اس انداز میں بیان کیا ہے۔چمن سے روتا ہوا موسم بہار گیا/شباب سیر کو آیا تھا، سوگوار گیا۔اکثر شعرا کو بہار کے موسم سے بے پناہ لگاؤ ہوتا ہے۔وہ اپنی شاعری میں محبوب کی خوب صورتی، دلکش اداوں، ناز و نخروں کو محبوب کی حسین اداؤں سے تشبیہ دیتے ہیں۔گلاب کے نرم و نازک پنکھڑی کو صنم کے لبوں سے ملاتے ہیں۔بہار کو خوش حالی، ترقی اور کامیابی سے جوڑتے ہیں جبکہ خزاں کو زوال، تنزلی، بربادی اور کسی قوم کی پستی کے لیے استعارے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔مگر جہاں بہار کے موسم کی خوب صورتی ہے وہی خزاں کو بھی جداگانہ اہمیت حاصل ہے۔ (اقبال حسین اقبال،گلگت)