8فروری 2024ء کے الیکشن کی کوریج کیلئے غیر ملکی صحافیوںکو ویزے جاری کر دئیے گئے ہیں اور وفاقی کابینہ نے الیکشن کیلئے فوج اور آرمڈ فورسز تعینات کرنے کی منظوری بھی دیدی ہے، اس کے باوجود ہر زبان پر ایک سوال ہے کہ کیا الیکشن ہوں گے ؟ اسی بناء پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ الیکشن بھی کیسا الیکشن ہے۔ الیکشن کی گہما گہمی دیکھنے میں نہیں آ رہی ، سڑکوں ، دیواروں اور گلی محلوں میں پوسٹر اور پینا فلیکس محدود تعداد میں نظر آتے ہیں ، شاید خود امیدواروں کو بھی پختہ یقین نہیں کہ الیکشن ہو پائیں گے ، شکوک و شبہات کی کیفیت ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ۔ملک میں دیگر چھوٹی چھوٹی پارٹیاں بھی موجود ہیں مگر اس وقت مقابلہ دو پارٹیوں کے درمیان ہے، ایک مسلم لیگ(ن) اور دوسری پیپلز پارٹی ۔ تحریک انصاف کے حامی اعتراض کر سکتے ہیں کہ تحریک انصاف کا نام کیوں نہیں لیا ، یہ نہیں کہ نام میں نہیں لے رہا بلکہ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف اور اس کے نشان کو آئوٹ کر دیا ہے، جہاں تک سیاسی بات ہے تو تحریک انصاف آزاد امیدواروں کی صورت میں الیکشن میں موجود ہے۔ الیکشن کو متنازعہ بنانے میں الیکشن کمیشن ، حکومت اور دیگراداروں کا ہاتھ رہاہے، 1977ء کے الیکشن میں لاڑکانہ سے جماعت اسلامی کے صرف ایک امیدوار جان محمد عباسی کو الیکشن سے دور رکھنے کی کوشش کی گئی تھی جس سے پورا الیکشن متنازعہ ہو گیا تھا، اب اگر کسی ایک امیدوار تو کیا پوری تحریک انصاف کو ہی لپیٹ دیا جائے تو پھر کیا اس الیکشن کے نتائج تسلیم ہو جائیں گے ؟ 1977ء کے الیکشن کے بعد جو تحریک اٹھی اور جو حالات پیدا ہوئے قوم اس کا خمیازہ آج تک بھگت رہی ہے۔ میرے گائوں دھریجہ نگر کے بزرگ جو کہ میری عمر سے 8 سے 10 سال بڑے ہیں اور سیاست سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں ، مجھ سے مکالمہ کر رہے تھے کہ کیا آج تک ملک میں صاف اور شفاف الیکشن ہوئے ہیں؟ میںنے نفی میں جواب دیا تو وہ بولے کہ تم غلط کہہ رہے ہو۔ 1970ء میں شفاف الیکشن ہوئے مگر الیکشن کرانے والوں نے خود نتائج تسلیم نہ کئے جس کی بناء پر ملک دو لخت ہو گیا، ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کرانے والوں کو شفاف الیکشن کرانے چاہئیں اور نتائج بھی تسلیم ہونے چاہئیں۔ اس وقت الیکشن کے لیے صرف ایک جماعت ،جس کا تعلق فقط پنجاب سے ہے ،کو برسراقتدار لانے کے لیے ماحول بنایا جا رہا ہے، پچھلے 16 ماہ ملک میں سیاسی بحران پنجاب کے اقتدار کی وجہ سے رہا، اس سیاسی بحران سے ملک کی معیشت کی تباہی کے ساتھ مہنگائی سے غریبوں کا کچومر نکل گیا ، ان حالات میں مسلم لیگ (ن) کو بر سر اقتدار لانے کیلئے دوسری جماعتوں کو پیچھے دھکیلنا چھوٹے صوبوں کے احساس محرومی کو مزید بڑھا دے گا اور بے چینی پھیلے گی۔ الیکشن کے حوالے سے ملک میں پائی جانے والی مایوسی کا حل آزاد اور منصفانہ الیکشن کے ساتھ سیاسی اور مقتدر قوتوں کو آئندہ کا لائحہ عمل تیار کرنا ضروری ہے ۔ گزشتہ روز میاں شہباز شریف نے احمد پور شرقیہ کے انتخابی جلسہ میں سرائیکی میں تقریر کی ، ان کی ٹوٹی پھوٹی سرائیکی تقریر سے وسیب کے کچھ لوگ خوش ضرور ہوئے ہوں گے مگر یہ مسئلے کا حل نہیں۔ بلاول بھٹو انتخابی مہم کے سلسلے میں 26جنوری کو ملتان آ رہے ہیں ، اس سے قبل انہوں نے رحیم یار خان او ر کوٹ ادو میں بڑے جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے وسیب سے محبت کے اظہار کے ساتھ وسیب کی محرومی کے خاتمے کا وعدہ کیا مگر یہ سب انتخابی وعدے ہوتے ہیں ۔ سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے میڈیا سے گفتگو میں ایک بار پھر الگ صوبے کی بات کرتے ہوئے کہا کہ سیکرٹریٹ بنا دیا گیا ہے مگر ہم صوبہ چاہتے ہیں ، ایسا صوبہ جس کی اپنی اسمبلی ، اپنا وزیر اعلیٰ ، اپنا گورنر ، سینیٹ میں حصہ اور الگ ہائیکورٹ ہو، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم نے سینیٹ سے صوبے کا بل پاس کرایا ہے ، صوبے کو ایک آئین ساز ادارے سے آئینی تحفظ حاصل ہو چکا ہے۔ سیاسی رہنمائوں کے الگ الگ بیانات چل رہے ہیں ، مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف کا کہنا ہے کہ میں وزیر اعظم بننے نہیں الیکشن لڑنے آیا ہوں ، حالانکہ یہ بات موجودہ زمینی حقائق کے برعکس ہے ۔ بلاول بھٹو کہتے ہیں کہ نواز شریف کو چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بنایا گیا تو وہ مخالفین سے سخت انتقام لے گا، اس کے ساتھ بلاول بھٹو نے پی ٹی آئی کارکنوں سے اپیل کی کہ وہ ان کا ساتھ دیں تاکہ انتقام کی سیاست ختم ہو سکے حالانکہ تحریک انصاف اور اس کے سربراہ عمران خان بذات خود انتقامی سیاست کے سب سے بڑے داعی ہیں اور اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ وہ وزیر اعظم ہائوس پہنچ جانے کے باوجود سیاسی طور پر کنٹینر سے نہیں اُترے تھے۔ ملک کی بہت سی قد آور سیاسی شخصیات 8 فروری کو ہونیوالے الیکشن میں حصہ نہیں لے رہیں، ان میں حامد ناصر چٹھہ ، سردارنصر اللہ دریشک ، سردار ذوالفقار خان کھوسہ، نیاز جکھڑ، سردار عاشق گوپانگ، مخدوم شہاب الدین ، قیوم جتوئی، سکندر حیات بوسن اور دیگر سیاستدان شامل ہیں، اس عمل سے الیکشن ہونے یا نہ ہونے کے غیر یقینی تاثر کا اندازہ ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود کچھ سرکاری اقدامات بھی الیکشن کو مشکوک بناتے نظر آتے ہیں جیسا کہ پنجاب میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے ، پنجاب میں سات ہزار 832 پولنگ اسٹیشنز انتہائی حساس جبکہ پندرہ ہزار سے زائد حساس قرار دئیے گئے ہیں۔ بلوچستان میں مختلف اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز نے الیکشن سے متعلق سکیورٹی ایڈوائزری جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ خاتون خودکش حملہ آور اجتماعات اور رہنمائوں کو نشانہ بنا سکتی ہے۔ الیکشن سے متعلق سینئر سیاستدان فیصل واوڈا کا یہ دعویٰ کہ آصف زرداری کے بغیر آئندہ حکومت چلانا مشکل ہوگا اور آزاد امیدواروں کی بکرا منڈی میں بھائو لگے گا، کھلاڑی کا بھی بھائو لگے گا، جو اچھا بھائولگائے گا وہ میدان میں آئے گا اور سارا مال لپیٹ لے گا ، اگر ایسی بات ہے تو پھر اس طرح کے الیکشن سے الیکشن نہ ہونا بہتر ہے اور ایسے الیکشن کے لیے پھر وہی بات صادق آتی ہے کہ یہ الیکشن بھی کیسا الیکشن ہے کہ جس کی آغوش میں آئندہ کے فسادی طوفان چھپے نظر آتے ہیں۔