حالات دیکھ کر لگتا ہے کہ پاکستان دراصل قانون توڑنے کے عالمی ریکارڈ قائم کرنے کیلئے ہی بنایا گیا ہے تاکہ کم از کم دنیا اس دریافت سے محروم نہ رہ جائے کہ قانون شکنی کی آخری حد کیا ہو سکتی ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ قانون شکنی کی مثالیں دنیا میں کہیں نہیں ملتیں، ایسا مگر ضرور ہے کہ کسی باوقار ایٹمی قوت کی طرف سے منظم اور بے نظیر قانون شکنی کی ایسی فقید المثال مدبرانہ کاوشیں بہرطورڈھونڈے سے بھی نہیں ملتیں ۔ پاکستان میں جس طرح ؎ سرکاری سطح پر قانون شکنی کا اہتما م کیا جاتاہے ، اس کااعتراف نہ کرنا اور اس سے صرف نظرکر دینا بڑی ناانصافی ہے۔ اللہ کے فضل سے پاکستان نے جس دلجمعی سے قانون شکنی کو ایک لازمی ڈیوٹی سمجھ کر مسلسل ادا کیاہے،دنیا اس کا پوری طرح احاطہ کر ہی نہیں سکتی۔ویسے بھی سوائے اللہ کے کوئی اس کا کافی و شافی اجر دے ہی نہیں سکتا۔ افسوس دنیا نے اولمپکس وغیر ہ کے مقابلوں میں اچھی کارکردگی پر تمغے وغیرہ تو دئیے مگر اس خصوصی میدان میں پاکستا ن کی ذمے دارانہ مہارت پر نظر نہیں کی اور اس کیلئے کوئی تمغہ وغیرہ مقرر نہیں کیا ،شائد اس لیے کہ سونے وغیرہ کا تمغہ اس بنیادی کارنامے کے لیے کافی نہ ہو سکتا تھا اور ہیرے وغیرہ کے تمغے کا ابھی تک دنیا میں چلن نہیں ہو سکا۔رہے گنیز ورلڈ ریکارڈ والے تو انھیں اور بہت سے بے معنی کاموں کا ریکارڈ رکھنے سے ہی فرصت نہیں ملتی ، یوں پاکستان اپنی حسن کارکردگی کے صلے کیلئے نیک لوگوں کی طرح آخرت کا انتظار کرنے پر مجبور ہے۔ویسے اس معاملے میں اس کی دلجمعی ، دلچسپی اور جان ماری دیکھ کر کبھی تو یہ بھی لگتا ہے کہ اسے قیامت میں اجر لینے سے بھی کوئی زیادہ دلچسپی نہیں ،یہ دراصل قانون شکنی کی روح پر و ر لذت لینے کے لیے صلے اور ستائش کی تمنا کے بغیر پیشہ ورانہ طور پرہی قانون شکنی کیے چلا جا رہا ہے۔ ۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ جہاں کوئی شخص کسی کام پر ایسی ایمانداری سے ڈٹ جائے ، وہاں شیطان اسے بہکانے پر کمر کس لیتا ہے ، اسی کی ایک مثال یوں سامنے آتی ہے کہ ہمارے بعض پرانے خیالات کے اللہ معاف فرمائے قانون پسند کالم نگار ہمیں ہماری قانون شکنی سے گمراہ کرنے کیلئے بانی پاکستان کی قانون پسندی وغیرہ کی مثالیں دینے لگتے ہیں۔وہ بے چارے نہیں جانتے کہ قائداعظم کی قانون پسندی کی مثالوں کی تلافی کیلئے ہی تو ہمیںقانون شکنی میں کہیں زیادہ جان مارنی پڑتی ہے۔ اگرچہ دنیا میں پاکستا ن کو دنیا سے پیچھے بتانے والے کم ظرف بھی بہت ہیں، لیکن اتنا تو انھیں بھی ماننا ہی پڑے گا کہ بہرحال اس ایک معاملے میں کوئی پاکستان کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔قانون شکنی ان چند معاملات میں سے ایک ہے جس پر بجا طور ہم دنیا میں سر فخر سے بلند کر سکتے ہیں۔قانون شکنی کیلئے پاکستان کی محنت اور محبت کا اندازہ اس سے بھی کیجئے کہ پاکستان نے اپنا شمار ان ممالک میں کروا رکھا ہے، جہاں بکثرت قانون سازی کی جاتی ہے۔ ظاہر ہے زیادہ قانو ن ہوں گے تو ہی زیادہ قانون شکنی کی جا سکے گی۔قانون شکنی کے لیے پاکستان کا اہتمام ایسا ہے کہ انسانی محنت اور عظمت پر ایمان تازہ ہو جاتا ہے۔ یہاں سٹرکوں پر اشارے لگائے جاتے ہیں تاکہ سرکاری اور عوامی گاڑیاں اشارے کاٹ کے گزر سکیں۔یہاں عدالتیں بنائی جاتی ہیں تاکہ قانون کی مدد لینے آنے والوں کی غیر قانونی مدد ہو سکے ۔ یہاں ہراسگی روکنے کے محکمے قائم کیے جاتے ہیں تاکہ دفتر میں اعلٰی افسر ہراسگی کر سکیں۔یہاں اینٹی کرپشن کے محکمے بنائے جاتے ہیں تاکہ وہ کرپشن رواں اور بیلنس رکھنے پر نظر رکھ سکیں۔یہاں میڈیا کے ادارے قایم کیے جاتے ہیں تاکہ انھیں بتایا جا سکے کہ کون سی قانونی خبریں جاری کرنا قانون شکنی ہے۔ قانون شکنی کوملک خدا داد میں اس قدر مقبول ،اس قدر عام اوراس قدر سہل بنا دیا گیا ہے کہ ہر محکمے میں غیر قانونی معاملات کے ریٹ ، اوقات کار اور معاملات پوری طرح طے اور معلوم شدہ ہیں،تاکہ عوام کو غیر قانونی کام کروانے میں نہ دقت ہو اور نہ قانونی معاملات میں ان کا وقت ضائع ہو۔عوام میں البتہ جہالت اتنی ہے کہ کئی لوگ اس معروف و مشہور ملکی منشور و دستور کے خلاف کئی دفعہ قانون پر عمل درآمد کروانے بھی محکموں میں آ دھمکتے ہیں۔ انھیں اللہ کے فضل سے ایسا سبق سکھا دیا جاتاہے کہ وہ اپنی آئندہ نسلوں کو بھی قانون شکنی کا درس دے کے ہی مرتے ہیں۔ ْٓقانون شکنی کے ساتھ ساتھ یہاں آئین شکنی کا بھی تسلی بخش کام کیا جاتا ہے۔یہ لگژری اور عظیم الشان سہولت لیکن عوام کو حاصل نہیں ،اس کے لیے بڑے اونچے عہدوں والے بہت مخصوص لوگوں سے استدعا کی جاتی ہے،قانون شکنی کی طرح آئین شکنی بھی پاکستان کا ایسا محبوب مشغلہ ہے کہ خود قوم کی طرف مقتدرہ سے استدعا کی جاتی ہے کہ وہ یہ کار خیر اپنے دست مبارک سے سرانجام دیں۔قوم اس آئین شکنی کی ایسی دلدادہ ہو چکی ہے کہ اس میں کچھ دیر گزر جائے تو یہ بینر لگا کے اہم لوگوں کو اکسانے لگ جاتی ہے کہ حضور بھلا آپ کے عہدہ و اختیار کا بھی کیا فائدہ اگرآپ کے ہوتے آئین شکنی بھی نہ ہو سکے، ویسے بھی دیکھئے حکومت آئے آدھی مدت بیت چلی اور اب تک قانون آئین شکنی پر عمل درآمد ہی نہ ہو سکا ۔ آخر ہم نے دنیا کو اور کل حشر میں اللہ کو بھی کوئی منہ دکھانا ہے۔ ایسے میں مسیحا قوم کی امنگوں کی لاج رکھتے ہوئے آئین شکنی کی روایت جاری رکھتے ہیں۔ اس سلسلے کی نامور شخصیات میں جنرل مشرف ، جنرل ضیاالحق اور ان کے کئی معتبر رفقا کا نام اور کام بڑا نمایاں ہے، اگرچہ اس راہ کے گمنام شہید بھی بہت ہیں، جو ظاہر ہے ریاکاری پسند نہیں کرتے، چنانچہ ان کے نام لکھ کے گنہگار نہیں ہو اجا سکتا۔ داور حشر مرا نامہ اعمال نہ دیکھ اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں