بلوچستان کے کچھ دوستوں سے ملاقات ہوئی اور ہمیشہ کی طرح جی بوجھل ہو گیا ،وہی احساس محرومی ،حق تلفی ، ناانصافی اور غصہ ،ناراضگی اور نااعتباری جو ایسا غلط بھی نہیںکہ میں بلوچستان کی پسماندگی کا عینی شاہدہوں، میرا بلوچستان جانا رہا ہے یہ نومبر 2016کی بات ہے جب کراچی سے متصل بلوچستان کے ساحل پر گڈانی شپ بریکنگ یارڈ میں ایک بحری جہاز میں آگ لگنے کی اطلاع ملی، میں ان دنوں کراچی کے ایک نیوز چینل سے بطور رپورٹر وابستہ تھا، گڈانی سے آنے والی اطلاعات خوفناک تھیں بتایا جارہا تھا کہ جہاز میں سو سے زائد مزدو ر موجود ہیں، جن کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ، گڈانی کہنے کو تو بلوچستان میں ہے لیکن کراچی سے قریب ہونے کی وجہ سے ہمیں واقعے کی کوریج کے لئے روانہ کیا گیا،یہ دنیا کا تیسرا بڑا شپ بریکنگ یارڈ ہے، جہاں اپنی عمر پوری کر نے والے جہاز لائے جاتے ہیںاورکاٹ کر اسکریپ میں فروخت ہوتے ہیں،میں کوریج ٹیم کے ساتھ گڈانی پہنچا،ساحل پر نارنجی شعلوں میں لپٹا بحری جہاز سامنے تھا،جس پرفائر بریگیڈ کی سرخ گاڑیاں پانی پھینک کر رسم پوری کررہی تھیں، آگ جہاز کے ٹینکوں میں موجود بچے کھچے تیل میں لگی تھی باہر سے پھینکی جانے والی پانی کی دھاروں سے کیا بجھتی، اس کے لئے ائیریل فائر فائٹنگ چاہئے تھی ، دنیا میں اس کام کے لئے فائرفائٹر ہوائی جہاز ہوتے ہیں، یہاں بھی ایسے ہی کسی ہوائی جہاز کی ضرورت تھی لیکن وہاں تو ڈھنگ کی ایک فائر بریگیڈ گاڑی بھی نہ تھی ، کراچی کا سارا میڈیا گڈانی پہنچ چکا تھا یہاں سے اٹھتا دھواں اور آگ کے شعلے نیوز چینلز کی اسکرینوں تک آچکے تھے، مجبورا کمشنر صاحب بہادر کو بھی آنا پڑا،میڈیا نے انہیں گھیر لیا سوال پر سوال ہونے لگے ، جہاز میں کتنے مزدور ہیں ؟ جہازمیں تیل موجود تھا، تو اسے اسکریپ کرنے کی اجازت کیسے ملی ؟ مزدوروںکی سیفٹی کے لئے انتظامات کیوں نہیں کئے گئے؟ فائر بریگیڈ دیر سے کیوں پہنچیں ؟ میں نے کمشنر صاحب ہاشم غلزئی سے سوال کیا کہ یہاں حادثات ہوتے رہتے ہیں آگ لگنے کے واقعات تو عام ہیں، اسنارکل کہاں ہے ، اسنارکل فائر بریگیڈ کی وہ گاڑی ہوتی ہے جس کی سینکڑوں فٹ اونچی خودکارسیڑھی کثیر المنزلہ عمارتوں میں لگی آگ بجھانے میں کام آتی ہے،میرے سوال نے کمشنر صاحب کے لبوں پر طنزیہ مسکراہٹ کاشت کردی کہنے لگے ’’جناب ! آپ یہاں کی بات کررہے ہیں پورے بلوچستان میں کوئی ایک اسنارکل نہیں ہے۔ بلوچستان کی پسماندگی بے بسی اور اسکے نتیجے میں اٹھنے والے ابال کا اندازہ بلوچستان میں آئے بنا نہیں ہوسکتا،کراچی سے چند گھنٹوں کی مسافت پردنیا او رزندگی کا مفہوم ایک دم بد ل جاتا ہے ،لگتا ہے کسی ٹائم مشین نے آپ کو نصف صدی پہلے کی دنیا میں پہنچا دیا ہو یہاں زندہ رہنے کے لئے درکار بنیاد ی ضروریات ’’عیاشی ‘‘ مانی جاتی ہیں، بجلی گنتی کے چند شہروں میں آتی جاتی ہے باقی علاقے اس لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ ہیں کہ بجلی ہو تو لوڈشیڈنگ بھی ہوناں،آواران میں 2013ء میں زلزلہ آیاوہاںجانا ہوا سڑکیں وہاں تک تھیں جہاں تک ڈپٹی کمشنر کی لولی لنگڑی عملداری تھی ، اسپتال موجود تھا اندر ایکسرے مشینیں اور دیگر طبی آلات بھی تھے لیکن ڈبوں میں بند ، کسی نے زحمت ہی نہ کی کہ ان کی پیکنگ کھولی جائے ،خداجانے اسٹاف کہاں تھا ، تھا بھی یا نہیں ،حب میں بلاول بھٹو صاحب کا جلسہ تھا حب اور کراچی ساتھ ساتھ ہیں، گھنٹہ بھر میں پہنچا جاسکتا ہے ہمیں کراچی سے کوریج کے لئے بھیجاگیا،وہاں ایک پولیس افسر سے گپ شپ ہونے لگی بات سے بات نکلی تو دکھڑے رونے لگے بتانے لگے کہ پورے بلوچستان میں صرف ایک ہی مردہ خانہ ہے اور وہ بھی کوئٹہ میں ہے، اگر مکران بیلٹ میں کہیں قتل کی واردات ہو تو پوسٹ مارٹم کے لئے لاش سینکڑوں کلومیٹر دورکون اور کیسے پہنچائے ؟ ہمارے پاس دہشت گردی سے نمٹنے کے وسائل ہیں نہ کوئی تربیت ،حب ،لسبیلہ میں تو زیادہ مسئلہ نہیں لیکن دیگر علاقوں میں گھر سے نکلتے ہیں تو واپسی کا یقین نہیں ہوتا۔ ایسی زمین پراحساس محرومی، افلاس، مسائل ، بے روزگاری اور لاقانونیت بغاوت کی فصل کے لئے بہترین یوریا ثابت ہوتی ہے دشمن اسے مکاری اور عیاری سے استعمال کرتا ہے ،کل بھوشن یادیو بلوچستان کے اسی احساس محرومی ناراضگی کو بغاوت میں بدل کر بلوچستان کے نوجوانوں سے قلم کی جگہ کلاشنکوف تھمانے کے مشن میں تھا اب اسکی جگہ کوئی اور کل بھوشن اپنے مذموم مقاصد میں مصروف ہوگا لیکن ا س کا ٹاسک بھی مکمل نہیں ہوگا نہ ہوسکے گا کیوں کہ بلوچستان کی مٹی سے وطن کی خوشبوآنے لگی ہے جب میں 2021اور 2022میں نوشکی کے عثمان بلوچ اورعبدالقہار کاکڑ کوکاکول میں بہترین کیڈٹ کی اعزازی شمشیر کا حقدار قرار پاتا ہوں تو قدرے سکون ملتا ہے بلوچستان کے پسماندہ علاقوں نوشکی اور قلعہ عبداللہ کے یہ نوجوان افسر وطن کے محافظوں میں شامل ہیں انہوں نے حالات کا ماتم کرنے کے بجائے مقابلہ کرنے کی ٹھانی او ر آگے نکل گئے، مجھے چھوٹے بھائیوں جیسا عزیز صادق کاکڑ بھی یاد آرہا ہے جو اپنی ،محنت سے اسکا لر شپ پر بلجیئم میں قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہا ہے صادق کاکڑ ایک ٹرانسپورٹر کا بیٹا ہے اس کے خاندان میں کبھی ڈگری سے زیادہ ٹرک کی اہمیت دی جاتی تھی لیکن آج ا س کی وجہ سے سب کی سوچ بدل چکی ہے نوجوانوں کی سوچ بدل رہی ہے وہ کلاشن کوف اور قلم میں سے قلم کا انتخاب کرنے لگے ہیں۔ صادق جب بھی وطن آتا ہے تو مجھ سے ملنے آتا ہے ، چند ما ہ پہلے جب صادق کاکڑ آیا تومیں نے پوچھا آگے کا کیا سوچا ہے ؟ وہیں رہنا ہے یا واپس آؤ گے میرے سوال پر صادق چونک گیا اسکی نظریں میرے چہرے پر جم گئیں، جیسے اسے مجھ سے اس سوال کی توقع نہ ہو کہنے لگا سر !سوچنا کیا ، آف کورس واپس آؤں گا اپنا وطن اپناہوتا ہے ،میں نے مسکراتے ہوئے اسے سینے سے لگا لیا، میرے اطمینان کی وجہ بلوچ مٹی کے یہی نوجوان ہیں جو رکنا اور ڈٹ جانا جانتے ہیں حالات کے دھارے میں بہنے کو تیار نہیں۔