مہنگائی‘بیروزگاری اور غربت مایوسی بن کر عوام کو ڈسنے لگے ہیں جبکہ پورا نظام محض آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے کی رٹ لگائے ہوئے ہے‘اعداد و شمار کی کہانی بہت زیادہ بیان کی جاچکی‘ذمہ داران کو عوام کے کٹہرے میں لانے کا کھیل بھی بہت زیادہ کھیلا جاچکا‘اب صرف عوام کی سننی ہوگی ،وگرنہ جس قسم کے بھیانک ردعمل کی تصویر نوشتہ دیوار ہے‘اسے اگر نہ پڑھا گیا تو حالات کی سنگینی اشرافیہ کے پنجے مزید پاکستان میں مضبوطی سے جمے نہیں رہنے دیگی‘ کسی کو اس بابت شک ہو تو عوام کی بھیڑ میں داخل ہو کر ساری کہانی سن سکتا ہے‘آخر یہ ایک دو برس کی بات نہیں‘پون صدی کا ظلم ہے‘ظلم آخر ظلم ہوتاہے‘ بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ 76واں یوم آزادی منانے کے بعد بھی عوام کی ایسی حالت زار کا ذمہ دار کوئی ایک حکمران نہیں ہوسکتا بلکہ اس حمام میں سب عیاں ہیں‘وہ سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں جنہوں نے تسلسل سے اپنا تسلط برقرار رکھا‘عوام محرومی‘ظلم اور نا انصافی کی چکی میں پس پس کر اب ان سے سننے کو تیار نہیں کہ فلاں نے ملک کی معیشت‘معاشرت اور معاش کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا‘عوام اس وقت ریلیف چاہتے ہیں جو اشرافیہ کی مٹھی سے اس نظام کو باہر نکالے بغیر ممکن نہیں‘لوگ دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں اور نظام صرف من پسند چہروں کیلئے انتخابات تاخیر کا شکار کرکے راہ ہموار کرنے میں مصروف ہے‘الیکشن کمیشن کو صدر مملکت سے ملاقات میں اعتراض ہے جبکہ امریکی سفیر سے ملاقات میں کوئی عذر نہیں‘ کیا کوئی بتاسکتاہے کہ 1973ء کے آئین کو کب سے من مرضی کی تشریح کے تحت چلا کر جمہوریت کا نعرہ لگانا ہی فقط اس کی مضبوطی کی علامت ٹھہرا‘ 1973ء کا آئین طویل جدو جہد کے بعد معرض وجود میں آیا‘تمام سیاسی فریقین باہم جن نکات پر متفق ہوئے۔ 1973ء کا آئین سو تشکیل پایا‘افسوس سابقہ پی ڈی ایم حکومت نے اپنے آخری اجلاس میں 77بل پاس کئے‘جب پی ڈی ایم حکومت کے پاس قانون سازی کیلئے اکثریت نہیں تھی‘پھر بل پر بل منظور کئے گئے‘عدالتوں کے فیصلوں کو خاطر میں نہیں لایا گیا‘ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے چیف جسٹس کے فیصلے کے مطابق 14مئی کو پنجاب میں انتخابات نہیں کروائے گئے‘جس سے یہ ثابت کرنا مقصود تھا کہ ہماری حکومت ہے لہذا جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔قومی اسمبلی کے فلور سے پی ڈی ایم حکمران عدلیہ کیخلاف روز بیانات داغتے رہے اور اسے اپنی فتح تصور کرلیا گیا‘ پی ڈی ایم سرکار سوچتی رہی کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو سیاسی اکھاڑے میں غیر جمہوری انداز میں پچھاڑ کر وہ فتح یاب ٹھہریں گے لیکن انہوں نے اپنی اداؤں پر غور نہ کیا۔ پی ڈی ایم کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار جاتے جاتے بھی پٹرولیم مصنوعات مہنگی کرنے کا اعلان کرگئے‘پی ڈی ایم کا تجربہ ناکام تھا‘تاریخ کی بدترین مہنگائی اس ناکام ترین تجربے کے باعث ہوئی‘پی ڈی ایم کا پروجیکٹ پاکستان اور پاکستانی عوام کیلئے ڈراؤنا خواب بن گیا‘ پی ڈی ایم والے جو مہنگائی ختم کرنے کے نام پر آئے تھے انہوں نے اتنی مہنگائی کی کہ 76سالہ ریکارڈ ٹوٹ گئے‘ سابقہ حکومت کو اتنا برا بھلا کہا کہ اگر پاکستان سے جانے والوں کی کشتی کو بھی کوئی حادثہ پیش آیا تو اسمبلی میں کہا گیا کہ سابق وزیر اعظم نے انسانی اسمگلروں کیخلاف کارروائی نہیں کی اس لئے اس طرح کے کشتی حادثات پیش آرہے ہیں‘ گویا کہ کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی اور آخر کار عوام کو کہنے پر مجبور ہوگئے کہ ہم نے ملک کیلئے اپنی سیاست کو داؤ پر لگا کر مشکل فیصلے کئے۔ سابق وزیر اعظم شہباز شریف جن کے یہ الفاظ تھے‘وہ شاید نہیں جانتے کہ انہو ں نے نواز شریف کی بھی سیاست کا جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے‘ محترمہ مریم نواز اور رانا ثناء اللہ کے بیانات اور اقدامات ن لیگ کی سیاست کا بیڑہ ڈبونے کیلئے کافی تھے لیکن بات عوام کی محرومی کی ہے‘سابق وزیر اعظم شہباز شریف وزیر اعظم کی کرسی سے اترنے کے بعد چند گھنٹے ہی پاکستان رہے اور لندن جا پہنچے‘سوشل میڈیا پر ا ن کے نا قدین نے یہاں تک تبصرے کئے کہ وہ اپنے وطن واپس لوٹ آئے ہیں اور آئندہ جب بھی موقع ملا‘ حکمرانی کرنے پاکستان آجائیں گے‘ پاکستان اسطرح کے سیاسی ایڈونچرز کا مزید متحمل نہیں ہوسکتا‘اس وقت مہنگائی خوفناک حد تک عوام کیلئے زہر قاتل ثابت ہورہی ہے‘اگر لوگ خودکشیوں پر مجبور ہیں تو پھر ذہن میں رکھیں کہ احتجاج میں بھی بلا خوف و خطر کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ بجلی کے بلوں پر سامنے آنے والا احتجاج اس کشمکش کی ابتدائی جھلک ہے‘اسے نظر انداز کرنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں‘ جب عام آدمی بھوک سے مر رہا ہے‘اس کے پاس بچوں کا دودھ لینے‘والدین کی ادوایات لینے کے پیسے نہیں اور حکومت ہر حال میں مہنگائی کو آئی ایم ایف کی شرائط سے نتھی کررہی ہے جبکہ عوام کو ایسی کوئی امید بھی نہیں کہ آئندہ آئین کے مطابق مقررہ مدت میں انتخابات ہونگے اور جوحکومت آئیگی وہ عوام کو جواب دہ ہوگی تو اس طرح کی بے یقینی کی صورتحال اور کیفیت میں عوام سڑکو ں کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔عوام کو ان حالات میں ڈرا دھمکا کر روکا نہیں جاسکے گا‘عوام کا ردعمل ریاست کے حرکت میں آنے پر مزید بڑھے گا۔‘لہٰذا کیا بہتر نہیں کہ ملک و قوم کی حالت زار دیکھتے ہوئے الیکشن کمیشن جیسے آئینی اداروں کے ذریعے انتخابات میں تاخیر جیسے حربوں کے تماشے بند کئے جائیں اور عوام کو امید کا کوئی راستہ دکھایا جائے تاکہ ملک میں حالات پر امن ر ہ سکیں۔ فی الوقت عوام کو امید کا راستہ صرف اور صرف آئین کے مطابق عام انتخابات کے بروقت انعقاد کے اعلان کی صورت میں دکھایا جاسکتا ہے۔