25 ستمبر مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی (رح) کا یوم پیدائش تھا اس موقع پر انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے ان کی شخصیت کے مختلف پہلو ئوں پر بات کی جاسکتی ہے اگر غور کیا جائے ان کی شخصیت کا سب سے اہم پہلونئی نسل میں ایک مختلف اور عام فہم انداز میں دین اسلام کی تصویر پیش کرنا ہے ان کی نثر بڑی سادہ ہے اور ان میں انفرادیت اپنی جگہ موجود ہے۔ مولانا مودودی کی کسی کتاب سے کوئی اقتباس پڑھیں قاری فوریپہچان جاتا ہے کہ یہ مولانا مودودی کا نثر پارہ ہے ان کے اس منفرد طرز تحریر بارے ایک بار کسی نے مولانا مودودی سے پوچھا کہ آپ اتنی بڑی بڑی باتیں بہت آسانی کے ساتھ کسی طرح لکھ لیتے ہیں ، ''مولانا نے کہا کہ خیالات اپنے اظہار کا سانچا خود لے کر آتے ہیں یعنی خیالات جن الفاظ سے مناسبت رکھتے ہیںوہ خیالات انہیں الفاظ میں آتے ہیں اورمیں انہیں لکھ دیتا ہوں۔ بس'' مولانا کے اسلوب اور طرز بیان میں ٹھرائو ہے جس کو قاری ان کی کتب کا مطالعہ کرتے ہوئے باقاعدہ محسوس کرتا ہے۔ ان کی تحریر میں جاذبیت ہے جس کی وجہ سے ہر طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد میں ان کی کتب مقبول ہیں ،ان کی پوری زندگی میں انکے کردار اور گفتار میں کسی جگہ بھی تضاد نہیں دیکھا گیا۔کوئی کسی بارے کسی طرح کے خیالات رکھے یہ اس کا بنیادی اور جمہوری حق ہے لیکن گفتگو میں شائستگی اور تنقید میں اخلاص کا ہونا ضروری ہے ،یہ سیاست نہیں معاشرت کا بنیادی سبق ہے۔ مولانا مودودی نے اپنی زندگی میں اس بات کا خصوصی خیال رکھا انھوں نے کبھی بھی اپنے مخالفین بارے کوئی غیر مہذب زبان استعمال نہیں کی اور نہ ہی کبھی ان کی بات پر جذباتی ہوئے ہر بات کا بڑے تحمل ، بردباری اور سلیقے سے جواب دیا وہ ایک انقلابی شخصیت کے مالک تھے لیکن ان کی شخصیت میں انقلابی والا خود کا عنصر ناپید تھا۔ ہرانقلابی کی سب سے بڑی دلیل وہ خود ہوتا ہے، یعنی خود کو بنا کر پیش کرتا ہے مولانا کے ہاں یہ خو د غائب ہے۔ مولانا اپنی گفتگو اور نشستیں وہ موضوعِ گفتگو بنانے سے مکمل گریز کرتے جہاں'' میں ''کا عنصر نمایا ہوتا وہ اپنی تعریف برداشت کرتے اور نہ ہی غیبت کو اپنی مجلس کا حصہ بننے دیتے۔ برصغیر کی تاریخ میں مولانا مودودی کو اپنے بدترین مخا لفین کا سامنا رہا اور اس میں بہتان طرازی نے اپنی انتہائوں کو چھوالیکن انھوں نے کسی کا نوٹس نہیں لیا اور پھر یہ کہ بہتان لگانے والے کا ذکر اگر ان کی محفل میں کیاجاتا تو کہتے کہ چھوڑیںکوئی اور بات کرتے ہیں جو لوگ مولانا سے ملے ہیں وہ یہ بات جانتے ہیں کہ وہ کبھی بھی کسی بارے میں کوئی ہلکی بات نہیں کرتے تھے کبھی کسی غائب آدمی بارے میں ذاتی شکایت کی بات نہیں سنتے تھے۔ اچھی نثر کی یہ خوبصورتی ہوتی ہے کہ لکھنے والا اپنی شخصیت کا پورا اظہار کرے اور اس میں'' میں''نظر نہ آئے مولانامودودی کے نثر پاروں میں یہ خصوصیت نظر آتی ہے آپ اپنی نثر میں'' میں'' کا استعمال کئے بغیر ہی قاری کو اپنا پورا تعارف کرادیتے ہیں۔ سید مودودی کی نثر کی انفرادیت یہ ہے کہ ان کی ہر تحریر با مقصد ہے کیونکہ وہ اپنے سامنے زندگی کا ایک واضح تصور رکھتے ہیں اور وہ جس موضوع پر بھی قلم اٹھاتے مقصد کا شعور کہیں ماند نہیں ہونے دیتے انہوں نے بیسویں صدی میں اسلام کے اصولوں کے مطابق زندگی کا نقشہ از سر نو تعمیر کر نے کی کوشش کی اس چیز نے ان کے ادب کو مقصدیت کے ساتھ ساتھ جدت اور جدیدیت سے مالا مال کر دیا ہے۔ آج بھی ان کی تحریر میں کہیں یہ احساس نہیں ہوتا کہ انسان ماضی کے کسی دور میں سانس لے رہا ہے بلکہ یہ جذبہ ابھرتا ہے کہ وہ آج کی فضا میں سانس لے رہا ہے اور آج کی دنیا رہ رہا ہے ،ان کے اسلوب کی ایک انفرادیت یہ بھی ہے کہ وہ مشکل الفاظ اور ترکیبوں سے اجتناب کرتے ہیں انگریزی، عربی اور فارسی کے اجنبی الفاظ کبھی استعمال نہیں کرتے، طول طویل جملوں سے احتراز کرتے ہیں شوکت الفاظ سے طلسم طاری کرنے کی کوشش نہیں کرتے ان کی نثر سادہ، قابل فہم، متوازن ، واقعیت پسندی سے معمور مگر لطف بیان سے بھر پور ہوتی ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کے مخاطب قوم کے صرف اونچے پڑھے لکھے طبقے نہیں بلکہ پوری قوم ہے اس ضرورت کے پیش نظر انھوں نے زبان کو اور بھی سادہ اور عام فہم بنایا تا کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اسے سمجھ سکیں لیکن سادگی کے اس رجحان نے زبان کو بے مزہ نہیں بنایا، واقعیت پسندی میں کبھی روکھا پن نہ پیدا ہوا لطافت او رسلیقہ بدرجہ اتم موجود رہے جس سے تحریر کے حسن اور اثر انگیزی میں اضافہ ہی ہوا ۔مودودی صاحب کی نثر میں ادبیت اور نفاست ہے وہ صرف اور صرف زبان کی صحت کا ہی خیال نہیں رکھتے بلکہ انہیں روز مرہ محاوروں پر پوری قدرت حاصل تھی وہ اپنی بات بڑے سلیقے سے ادا کرتے تھے ان کے فقرے بڑے چست اور ترکیبیں بڑی موزوں ہوتی ہیں استعارہ، کنایہ اور رمز سے وہ بھر پور کام لیتے ہیں ان کا تخیل بڑا بلند اور جاندار اور اس کا اظہار فکرو بیان دونوں میں ہوتا ہے۔ ان کا مشاہدہ وسیع اور گہرا ہے تمثیل کے استعمال پر ان کا بڑا ملکہ ہے اور اس کے ذریعہ وہ بات قاری کے دل میں اتار دیتے ہیں طرز ادا کو خوب سے خوب تر بنانے کے لیے انھوں نے بے شمار تجربات کیے جس سے ان کی نثر میں اساسی اسلوب کی وحدت کے ساتھ ساتھ طریق اظہار و ابلاغ میں خاصا تنوع رونما ہوا ہے۔ جس کے نتیجہ میں بے روح یکسانی کی جگہ یک رنگی کی کیفیت پائی جاتی ہے پھر ان کی تحریر میں بلاکی شوخی اور ذہانت ہے وہ طنز و مزاح سے بھی حسب موقع کا م لیتے ہیں اس سے ان کی تحریر میں بڑی رعنائی پیدا ہو ئی۔ آج انہیں اس دنیا سے رخصت ہوئے تقریبا 44 برس بیت گئے لیکن ان کی تحریر یں آج بھی زندہ اور مقبول ہیں اور ان سے پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے لوگ مستفید ہو رہے ہیںاور یہ ایک حقیقت ہے کہ ان کی وفات کے بعد ان کی کتب جماعت اسلامی کے سرکلر سے زیادہ عوام میں مقبول ہوئیں جس کی سب سے بڑی دلیل یہ کہ آج جماعت اسلامی کو ہدف تنقید ضرور بنایا جاتا ہے لیکن مولانا کا احترام سب کرتے ہیں ۔