فون کرنے والے کا لب ولہجہ اس کا تعلق پنجاب کے دور دراز علاقے سے بتارہا تھا ،لہجے میں تلخیاں اور دکھ بول رہے تھے اس نے مجھ سے پوچھا !سر آپ احسان صیب ہی بات کر رہے ہیں ناں ، میں نے اثبات میں جواب دیا تو اس نے پھر پوچھا وہی احسان صیب جو روزنامہ ۹۲ میںکالم لکھتے ہیں ؟جی میں وہی احسان الرحمٰن ہوں فرمایئے ، سرفرماتے تو بڑے لوگ ہیں ہم تو کمی کمین مزدور دیہاڑی دار شودے سے لوگ ہیں ہم تو عرضی لگاتے ہیں ۔۔۔میں نے تیزی سے اس کی بات کاٹی اور کہا’’ ایسا نہ کہو میرے بھائی ہم بھی قلم کے مزدور ہی ہیں آپ تو پھر بھی خوش قسمت ہیں کہ دیہاڑی مل جاتی ہے، خیر حکم کریں ،کیسے زحمت کی ۔ وہ اجنبی نوجوان کہنے لگا’’سر !آپ نے سترہ دسمبر کو پاکستان کی دہائی کے نام سے یک طرفہ کالم لکھا تھا میرا خیا ل ہے اس کا نام بلوچستان کی دہائی ہونا چاہئے تھا ، یہ زیادہ مناسب تھا ۔ میں نے جواب دیا،بلوچستان بھی تو پاکستان ہی ہے وہاں کی محرومیوں پر لکھنا کیا کچھ غلط ہے ؟ میرے استفسار پر اپنا نام بلال محمودسپل بتانے والے نے جلدی سے کہا سر ! آپ نے تو بہت اچھا لکھا لیکن آدھا سچ لکھا تھاوہاں بہت سے مسائل ہیں بلوچوں کے ساتھ زیادتیاں ہورہی ہیں لاپتہ لوگوں کا اشو بھی ہے ۔ایسا نہیں ہونا چاہئے لیکن میری بھی گزارش ہے اسے اپنے کالم میں کہیں جگہ ملے تو میں بڑا مشکور ہوں گا کہ بلوچوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف مظلوم بلوچوں کو آپ جیسے وکیل مل جاتے ہیں اچھی بات ہے لیکن بلوچستان میں جو غیر بلوچوں کے ساتھ ہو رہا ہے اس ظلم پر کوئی بات کیوں نہیں کرتا ؟وہ بیچارے کہاں جائیں، کس سے سوال کریں سر ! ترازو کے دونوں پلڑے برابر ہونے چاہئیں ناں ، وہ ڈاکٹر مہ رنگ بلوچ تربت سے مارچ لے کر اسلام آباد آئی کہ لاپتہ بلوچوں کو برآمد کرایا جائے ، بلوچوں کو جعلی مقابلے میں مارا جارہا ہے وہ کسی بالاچ بلوچ کا کہتے ہیں کہ پولیس نے جعلی مقابلے میں مار دیاپولیس کہتی ہے ایسا نہیں ہے اسکی انکوائری ہونی چاہئے لیکن سر!اسی تربت میں اکتوبر میں چھ مزدوروں کو ایک ہی جگہ قتل کیا گیا او رپندرہ دن بعد تھانے میں حملہ کرکے چار کو ماردیاگیا سرپندر ہ دن میں دس مزدور قتل کئے گئے اور بی ایل اے نے قبول کیا کہ یہ ہم نے مارے ہیں یہ سارے کے سارے ہمارے علاقے سے تھے لیکن ان پر کسی میر پیر فقیر نے کوئی احتجاج نہیں کیا ، کسی نیوز شو میں کوئی بات نہیں ہوئی ، کسی نیوز چینل والے نے بھی فلم بھرنے کے لئے کسی کیمرہ مین کو نہیں بھیجا ، آپ نے بھی کوئی کالم نہیں لکھا میرا گلہ آپ سے ہے کہ کیاہمارا خون ہلکا یا کم قیمت کا ہے بلوچ بھائیوں کا خون ہی اصلی اور گاڑھا ہے جس کے بہنے پردکھ بھی ہوتا ہے ۔ بلال محمود نے تو مجھے لاجواب کر دیا اور ڈیڑھ منٹ کی گفتگو میں سوچنے پر مجبور کردیا میں نے اس سے عرض کیاکہ خون بلوچ کا ہو یا پشتون کا یا پنجاب واسیوں کا ۔سب کا لہو سرخ ہی ہوتا ہے ناحق انسان کے قتل کی کوئی توجیہہ نہیں دی جاسکتی ۔ میری وضاحت پر بلال کی تسلی نہیں ہوئی۔ سرائیکی لہجے میں کہنے لگا سر!اسی سال اکتوبر میں جو چھ مزدور بلوچ لبریشن آرمی نے مارے تھے ان میں ایک میرے دوست کا بھائی بھی تھا اسکی کچھ عرصے میں شادی ہونے والی تھی، میں اس کے جنازے پر گیا تو وہاں قیامت تھی قیامت ، جب اس کے جنازے پر سہرا ڈالا گیا تو بس اک کلیجہ نہیں پھٹا۔سوشل میڈیا پر ڈاکٹرمہ رنگ بلوچ کا بڑا ذکر ہو رہا ہے کہ وہ مظلوم بلوچوں کی وکیل بن کر اسلام آباد آئی میرا شکوہ اپنی اس بہن سے بھی ہے کہ اس نے بی ایل اے کے ہاتھوں مارے جانے والے مزدور، دیہاڑی داروں کے لئے ایک لفظ بھی منہ سے نہیں نکالا ؟ مظلوم سے زیادہ مظلوم کا دکھ کون جان سکتا ہے لیکن میرے بلوچ بھائیوں کو اپنی دھرتی پرغیر بلوچوں کے ساتھ یہ ظلم کیوں دکھائی نہیں دیتا ؟ بلال محمود کا چبھتا ہوا سوال بلوچ قوم پرستوں ،سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے علم اٹھانے والوں پر ادھار ہے کہ وہ بلوچستان میں آ نے والے غیر مقامی مزدوروں کا قتل ٹھنڈے پیٹوں کیوں پی جاتے ہیں ؟ قبائلی رسم ورواج سے گندھے ہوئے بلوچ ان محنت کشوں، مزدوروں کے ناحق قتل پر کیوں صدائے احتجاج بلند نہیں کرتے ، جس تربت میں بالاچ نامی نوجوان کے مبینہ قتل کا مدعا لئے ڈاکٹر مہ رنگ بلوچ تربت سے چلی تھی اسی تربت میں دو ماہ پہلے دس مزدور قتل پر ڈاکٹر مہ رنگ اور ان کے ساتھیوں نے دس روپے کے گتے پر دس مذمتی الفاظ تک نہ لکھے، کیا وہ بلوچستان میں غیر بلوچوں کا لہو مسلح جھتوں پر جائز قرار دیتی ہیں ؟ سوشل میڈیا پر وڈیو کلپ موجود ہیں کہ ایک نیوز شو کی میزبان ڈاکٹر مہ رنگ سے اس قتل کی مذمت نہ کرنے پر سوال کرتی ہیں اور ڈاکٹر مہ رنگ یوٹرن پر یوٹرن لینے لگ جاتی ہیں آخر کیوں؟ بلال محمود کا شکوہ پنجاب کی طرف سے نہیں بلکہ پاکستان کی طرف سے ہے کہ بلوچستان میں غیر مقامی بلوچوں اور جنوبی پنجاب کے غریب دیہاڑی داروں کے قتل پر اہل بلوچستان چپ کیو ں ہیں ؟ڈاکٹر مہ رنگ بلوچ صاحبہ کا لہجہ بلوچ عسکریت پسندجماعتوں کے اس ظلم پر اگر مگر اب اور تب کیوں اوڑھے ہوئے ہے یہ مزدور کسی سکیورٹی فورس کے ملازم تھے نہ ان کے کسی پروجیکٹ پرکام کررہے تھے بیچارے ہزار بارہ سو کی دیہاڑی لگا کر زندگی کی گاڑی کھینچ رہے تھے کہ ان کے جسم سے روح کھینچ لی گئی ،تابوتوںمیں ڈال دیا گیا اورظلم تو یہ ہے کہ اس ظلم پر ظلم کی دہائی دینے والے بھی چپ ہیں ، ظلم پر بلاتفریق آوازا ٹھانی چاہئے ملتان کا لہو بولان میں بہے یا بولان کابولان میں ،ناحق بہائے جانے والے لہو پر سب ایک آواز کیوں نہیں اس ظلم پر مجرمانہ چپ کا جواب ہے کسی کی پاس!