مرکز اور پنجاب میں حکومت بنانے والی جماعت کی جانب سے دو سو یونٹ مفت بجلی کے وعدے کو پہلا دھچکا پہنچا ہے۔نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے جنوری 2024 کی فیول لاگت ایڈجسٹمنٹ کی مد میں پاکستان میں بجلی کی قیمتوں میں 7.05 روپے فی یونٹ اضافہ کر دیا ہے۔سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (سی پی پی اے) نے نیپرا کو بجلی کی قیمتوں میں ایک ماہ کے لیے اضافے کی درخواست دائر کی تھی۔بجلی کی قیمتوں میں نظر ثانی سے صارفین پر 66 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔ تاہم نئے ٹیرف کا اطلاق کے الیکٹرک اور لائف لائن صارفین پر نہیں ہوگا۔تقسیم کار کمپنیاں مارچ 2024 کے بجلی کے بل میں صارفین سے اضافی رقم وصول کریں گی۔ماضی کا تجربہ بتاتا ہے کہ قیمتیں بڑھانے کا عمل اس قدر غیر شفاف ہو چکا ہے کہ ایک ماہ کے لئے اعلان کردہ اضافہ کبھی کم نہیں ہوتا،یہ مدت جونہی ختم ہوتی ہے کسی نئے جواز کے تحت صارفین کا گلا دبائے رکھنے کا انتظام کر لیا جاتا ہے۔ رواں ماہ کے آغاز میں، وفاقی کابینہ نے گھریلو صارفین کے لیے گیس کی قیمتوں میں 67 فیصد اور کھاد کے پلانٹس کے لیے 700 فیصد تک اضافہ کیا تاکہ تمام صارفین سے 242 ارب روپے اضافی وصول کیے جاسکیں۔کابینہ کے اجلاس کے فوراً بعد آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی نے گیس کی نئی قیمتوں کا نوٹیفکیشن جاری کیا جس کا مقصد بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی 15 فروری سے جمعرات تک قیمتوں میں اضافے کی شرط کو پورا کرنا تھا۔ نوٹیفکیشن میں بتایا گیا کہ یہ فیصلہ یکم فروری سے نافذ العمل ہوگا اور نئے بل نظرثانی شدہ نرخوں کے ساتھ جاری کیے جائیں گے۔یہ ایک ماہ کی بات نہیں،پچھلے دو سال سے پٹرول، گیس اور بجلی کے نرخوں میں ہفتوں کے وقفے سے اضافہ کاروبار تباہ کرنے کا باعث بنا ہے۔اسی چلن کی وجہ سے تین سال قبل ریکارڈ زرمبادلہ کمانے والی ٹیکسٹائل انڈسٹری بند اور لاکھوں مزدور بے روزگار ہو گئے۔حکومتی ترجیحات کی حالت یہ ہے کہ ڈالر کی کمی کا شکار ملک اپنی برآمدات کو مہنگی توانائی سے پہنچنے والے نقصان سے نہ بچا سکا۔ پی ڈی ایم حکومت میں تین ارب ڈالر قرض پیکیج کے لیے آئی ایم ایف کی طرف سے جو شرائط رکھی گئی تھیں ان میں ایندھن اور بجلی پر حکومت کی سبسڈی ختم کرنے کا مطالبہ شامل تھا، جس کے بعد اس کی قیمت میں 26 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔دریں اثنا، ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں کمی نے بجلی مہنگی کی۔سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اشیائے خوردونوش کی مہنگائی اگست2023 میں 38 فیصد سے زائد تھی اور اس ماہ بجلی اور ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کے باعث اس میں مزید اضافے کا امکان ہے۔کچھ عرصہ پہلے جب قیمتیں بڑھائی گئیں توحکومت نے واضح طور پر کہا کہ قیمتیں کم نہیں کی جائیں گی کیونکہ آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکج کی شرائط پر عمل کرنا ہے۔قیمتوں میں تازہ اضافہ بھی آئی ایم ایف کے کہنے پر کیا جا رہا ہے کیونکہ حکومت گردشی قرض کا معاملہ حل نہیں کر سکی۔قومی بجٹ کا خاطر خوا حصہ گردشی قرض کی نذر ہو رہا ہے۔پاکستان میں بجلی کی قیمتوں میں حالیہ اضافے نے عوام میں بے چینیکو ہوا دی ہے، موسم گرما کی آمد آمد ہے، ملک گیر احتجاج اور مظاہرے شروع ہو سکتے ہیں۔لوڈ شیڈنگ اور بھاری بھرکم بلوں کے مارے شہریوں کو باتوں سے مطمئین کرنا حکومت کے لئے ممکن نہیں رہے گا۔ شہری بجلی کے بلوں کو اپنے اوپر ایک غیر منصفانہ بوجھ سمجھتے ہیں، ان کا غصہ بلا وجہ نہیں ہے۔ اگرچہ خدشات اور شکایات کا ازالہ کرنا ضروری ہے، لیکن معاشی حقائق اور وسیع تر سیاق و سباق دونوں کو مدنظر رکھتے ہوئے متوازن تناظر کے ساتھ صورتحال سے رجوع کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی بنیادی وجوہات کو جاننا بہت ضروری ہے۔ آئی ایم ایف اکثر اقتصادی چیلنجوں کا سامنا کرنے والے ممالک کو مالی امداد فراہم کرتا ہے، جس کا مقصد ان کی معیشتوں کو مستحکم کرنا اور ترقی کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ بدقسمتی سے، یہ اقدامات بعض اوقات تکلیف دہ ایڈجسٹمنٹ کا باعث بن سکتے ہیں، بشمول سبسڈی میں کمی اور ساختی اصلاحات۔ اس طرح کی اصلاحات کا مقصد ملکوں کو ایک پائیدار اقتصادی راہ پر ڈالنا ہے، لیکن ان کے فوری منفی اثرات آبادی، خاص طور پر کمزور طبقات پر پڑ سکتے ہیں۔بدعنوانی ایک اور اہم مسئلہ ہے جس نے پاکستان کو برسوں سے پریشانکر رکھا ہے۔ وسائل کی بدانتظامی اور دولت کی بیرون ملک منتقلی نے آج ملک کو درپیش معاشی چیلنجوں میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ بدعنوان حکمرانی سے مایوس قوم ایک بار پھر نئی حکومت کی طرف دیکھ رہی ہے۔ تاہم، پوری صورتحال کو صرف اور صرف بدعنوان سیاست دانوں کی کارستانی قرار دینے سے عوامل کے پیچیدہ جال کو زیادہ مشکل بنانے کے سوا کچھ نہیں ملتا ۔ناجائز بلوں پراحتجاج بذات خود لوگوں کے تحفظات کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے۔ علامتی طور پر بجلی کے بلوں کو نذر آتش کرنا عام شہریوں کی مایوسی کا اظہار کرتا ہے۔ یہ پیغام پہنچانے کا ایک طاقتور طریقہ ہے کہ وہ اب غیر منصفانہ بوجھ کو قبول کرنے کو تیار نہیں ۔ پاکستان کی موجودہ صورتحال معاشی چیلنجز، گورننس کے مسائل، اور عوامی مایوسی کے پیچیدہ تعامل کی عکاسی کرتی ہے۔ اگرچہ بجلی قیمتوں پر احتجاج اظہار کی ایک جائز شکل ہے، لیکن اسے تعمیری بات چیت اور حل کی طرف موڑنا چاہیے۔ بجلی کمپنیوں میں پھیلی بدعنوانی سے نمٹنا، سماجی تحفظات کے ساتھ معاشی اصلاحات کا نفاذ اور کھلے رابطے کو فروغ دینا زیادہ مستحکم اور انصاف پسند پاکستان میں کردار ادا کر سکتا ہے۔