عید الاضحٰی پاکستان سمیت پوری مسلم امہ کے لئے صرف ایک مذہبی تہوار کی حیثئت ہی نہیں رکھتا بلکہ یہ دن ایک بہت بڑی معاشی اور فلاحی سرگرمی کا دن بھی ہے ۔ ان دنوں کی خصوصیت قربانی کے ساتھ جڑی ہوئی ہے ۔ عید کے دنوں میں بہت بڑے پیمانے پر جانوروں کا کاروباربھی ہو تاہے جس کے نتیجے میں اربوں روپے کا سرمایہ پاکستان کے شہری علاقوں سے دیہی علاقوں کی طرف منتقل ہوتا ہے ۔ کئی برسوں سے اس رجحان کا مشاہدہ کیا جا رہاتھا کہ ہر سال قربانی کے جانوروں کی تعدا د میں لگ بھگ دس سے پندرہ فیصد اضافہ ہوتا ہے' مگر گذشتہ عیدپر مہنگائی کی وجہ سے یہ اضافہ نہیں ہوا۔ یہ امر یقینی نظرآرہا ہے کہ گذشتہ ایک برس میں ہونے والی روپے کی قدر میں شدید ترین کمی اور 38فیصد کی تاریخی مہنگائی اس معاشی سرگرمی پر یقیناََ منفی انداز میںاثر انداز ہو رہی ہے۔ ابتدائی اندازوں کے مطابق امسال جانوروں کی قیمت بیس سے پچیس فیصد زائد ہے جو کہ سالانہ مہنگائی کی شرح سے ابھی بھی کم ہے۔اس ساری صورت حال کے برعکس ،اس امر کا بھی قوی امکان ہے کہ اس برس قربانی کے جانوروں کی تعداد میں اضافہ ہو جائے جس کی سب سے بڑی وجہ حج پر جانیوالے زائرین کی تعداد میںواضح کمی ہوگی ۔ اس بات کا مشاہدہ ہم نے2021 میں بھی کیا تھا جب زیادہ لوگوں کے حج پر نہ جا سکنے کے باعث ملک میں معمول سے کافی زائد قربانی ہوئی ۔ اندازہ یہ تھا کہ7 ملین تک جانور قربان ہو ں گے مگر ان کی تعداد9ملین تک جا پہنچی ۔ گذشتہ چند برسوں سے اونٹ کی قربانی کا رواج بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے سو اس بات کا امکان بھی ہے کہ اس بر س اونٹ کی قربانی بھی ہمیں معمول سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ پاکستان ٹینرز ایسوسی ایشن کے اعدادوشمار سے لگایا جا سکتاہے، جس کے مطابق گذشتہ برس اس تہوار کی وجہ سے لگ بھگ 329ارب کا کاروبار ہوا۔چونکہ اس کاروبار کا بڑا حصہ جانوروں کی فروخت سے جڑا ہے ، سو اندازہ یہ ہے کہ قریب قریب انسٹھ لاکھ جانوروں کی فروخت سے 325ارب کا کاروبار ہو ا جن میں 20 لاکھ گائیں، 30 لاکھ بکرے، 8لاکھ بھیڑیں اور 1لاکھ اونٹ شامل تھے جبکہ ان جانوروں کی کھالوں سے حاصل ہونے والی آمدنی کا اندازہ قریب قریب ساڑھے چار ارب روپے تھا۔ اگر ان میں تمام جانوروں کی نقل و حمل ،خوراک اور ذبح کے اخراجات کو بھی شامل کر لیا جائے تو اس معاشی سرگرمی کا کل تخمینہ500ارب کے لگ بھگ ہو جاتا ہے ۔ اگر ہم فرض کریں کہ اس برس جانوروں کی فروخت کے تعدد میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی اور ایک گائے کی اوسط قیمت ایک لاکھ سے ایک لاکھ دس ہزارروپے تک رہتی ہے، جو گذشتہ برس 90ہزار روپے تھی، تو اس سے تقریباََ 200سے220 ارب کی معاشی سرگرمی پیدا ہو گی ۔ اگرایک بکرے کی اوسط قیمت چالیس ہزار، بھیڑ کی اوسط قیمت تیس ہزار جبکہ اونٹ کی اوسط قیمت دولاکھ پچیس ہزار روپے لگائی جائے تو اس سے بالترتیب 120 ارب ،24ارب اور 22.5ارب روپے کی معاشی سرگرمی پیدا ہوگی ۔ چنانچہ صرف جانوروں کی فروخت سے پیدا ہونیوالی معاشی سرگرمی لگ بھگ 367 سے 377ارب ہوسکتی ہے۔ عید الاضحیٰ چمڑے کی صنعت کے لئے بھی کافی سود مند ثابت ہوتی ہے کیونکہ قربانی کے بعد جانوروںکی کھالیں تقریباََ اس صنعت کو بیس سے تیس فیصد خام مال فراہم کرتی ہیں۔ قربانی کی کھالوں سے دوطرفہ فائدہ ہوتاہے ایک تو براہ راست فلاحی ادارے یہ کھالیں وصول کرتے ہیں اور اس سے خاطر خواہ چندہ کی رقم جمع کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیںاگرچہ اس آمدنی میں عالمی بازار میں مسلسل گرتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے خاصی کمی آئی ہے جس کی وجہ سے فلاحی اداروں کا چندہ بھی خاصا کم ہواہے۔ اس سلسلے میں ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ہر سال 10 سے 15فیصد کھالیں ضائع ہو جاتی ہیں کیونکہ انہیں جمع کرنے اور محفوظ کرنے کے موثر ذرائع کی کمی بھی ہے اور قربانی کے بعد انہیں محفوظ کرنے کے درست اور دیر پا طریقو ں سے ناشناسی بھی۔ گذشتہ برس Lumpy Skin Disease کی وجہ سے کھال کے کاروبار پر مرتب ہونے والے اثرات اس لئے زیادہ نمایاں نہیں ہو سکے کیونکہ یہ بیماری صرف گائے اور بیلوں کے معاملے میں ہی رپورٹ ہوئی تھی چنانچہ دوسرے جانوروں سے اسے کوئی مسئلہ نہیں تھا اس لئے یہ زیادہ متاثر نہیں کر پایا ۔گذشتہ برس گائے کی کھال کی اوسط قیمت 1800 ،بکرے کی 220،بھیڑ کی50جبکہ اونٹ کی 250روپے میں فروخت ہوئی جس سے لگ بھگ ساڑھے چار ارب روپے کی معاشی سرگرمی پیدا ہوئی۔ چمڑے کی صنعت پاکستان میں ٹیکسٹائل کے بعدایک انتہائی اہم صنعت ہے جو سالانہ ایک ارب ڈالر کے قریب برآمدات کا سبب بھی ہے ۔ملک میں اس وقت800 سے زائد ٹینریز ہیں جو 5 لاکھ کے قریب لوگوں کو روزگا ر مہیا کرتی ہیں جبکہ ان کا ملک کی مجموعی آمدنی میں حصہ 5فیصد سے زائد ہے ۔ اگرچہ قصور، لاہور،ٖفیصل آباد اور ملتان سمیت پورے پاکستان میں چمڑا بنانے والی فیکٹریاں ہیں لیکن 90 فیصد سے زائدسامان کراچی اور سیالکوٹ میںہی تیار ہوتا ہے جسے بہت کم مقامی مارکیٹ میں فروخت کیا جاتاہے ، تقریبا َتمام سامان ہی برآمد کیا جا رہاہے ۔پاکستان کے مرکزی بنک کے تازہ اعداو شمارمطابق پاکستان میں چمڑے کی صنعت سے حاصل ہونے والی برآمدات کا تخمینہ 86کروڑ ڈالر ہے جبکہ گذشتہ مالی سال میںیہ آمدنی 95کروڑڈالر سے زائد تھی ۔ عید الاضحی کے تما م تر مذہبی ،اخلاقی اور معاشی پہلووں سے پرے ایک سماجی پہلو بھی ہے جو ایک تہائی گوشت کی تقسیم سے معاشرے کے کمزور طبقے کو یہ احساس دلاتا ہے کہ آپ بھی ہمارے اجتماعی وجود کا حصہ ہو ۔دولت کی حرکت اور گوشت کی تقسیم کا یہ عمل ہی وہ بنیاد فراہم کرتا ہے جس پرایک فلاحی معاشرے کی تعمیر ممکن ہوتی ہے ۔سو ہمیں دولت کے ارتکاز سے بچنا چاہیے اور اسے سودمند مصارف میں کام میں لانا چاہیے، اسی سے معاشرے کی زندگی ہے۔