سانحہ جڑانوالہ ایک انتہائی غیر معمولی واقعہ ہے جس میں مبینہ طور پر 19چرچ اور 86 سے زائد عمارتیں نذر آتش ہوئیں آج اس سانحہ کی وجہ سے پوری قوم سوز و گداز کی کیفیت میں مبتلا ہے پاکستان کے خلاف ہونے والی اس سازش کے ڈانڈے کہاں کہاں ملتے ہیں اس بارے اہم انکشافات سامنے آ ئے ہیںتاہم ان کا ذکر کرنا ابھی قبل از وقت ہوگا کیونکہ حکومتی تحقیقات مکمل ہوئی ہیں اور نہ ہی اس سانحہ پر بنائے گئے کمیشن کسی ٹھوس نتیجہ پر پہنچا ہے۔ خدا وند کریم کا لاکھ شکر ہے کہ اس سانحہ میں کسی مذہبی جماعت یاگروہ کا ملوث ہونا دور کی بات، شبہ تک ظاہر نہیں کیا گیا اور اس حقیقت کو مسیحی برادری کی قیادت بھی تسلیم کرتی ہے اور یہ ایک خوش آئند بات ہے جس کا نہ صرف خیر مقدم کیا جانا چاہیے بلکہ اس صحت مند روایت کو آئندہ نسلوں تک پہنچایا جانا چاہیے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ تحریک پاکستان سے قیام پاکستان تک مسیحی برادری نے انتہائی موثر اور مثبت کردار اداکیا۔ قیام پاکستان کے بعد بھی مسیحی برادری نے محب وطن سے بڑھ کر کردار ادا کیا اور وطن عزیز کیلئے کسی بھی قسم کی قربانی دینے سے دریغ نہیں کیا تحریک پاکستان میں مسیحی برادری قائد اعظم کے شانہ بشانہ رہی جہاں ایک طرف ہندو سکھ گٹھ جوڑ تھا وہاں دوسری طرف مسلم مسیحی اتحاد تھا جس کی وجہ سے ہندئوں کی ہر سازش ناکام ہوئی اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھنے والوں نے مسیحی برادری کو ہر طرح ساتھ ملانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ 23 مارچ 1940ء قرار پاکستان منٹو پارک کے جلسہ میں برصغیر کی مسیحی برادری نے بھرپور شرکت کی اور قائد اعظم کو اپنی حمایت کا مکمل یقین دلایا تھا یہ بات پنجاب اسمبلی کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ برصغیر میں سکھوں کے معروف لیڈر ماسٹر تارا سنگھ پنجاب اسمبلی میں یہ نعرہ بلند کیا کرتے تھے'' جو بنائے گا پاکستان ۔۔۔۔ وہ کھائے گا کرپان'' اس کا جواب مسیحی برادی سے تعلق رکھنے والے ایس پی سنگھا کچھ ان الفاظ میں دیا کرتے تھے'' سینے پہ گولی کھائیں گے۔۔۔۔۔ پاکستان بنائیں گے'' مسلم قیادت نے کسی موقع پر مسیحی برادری کو نظر انداز نہیں کیا۔ پاکستان کے اہم اداروں کے سربراہ مسیح رہے پاکستان کا پہلا آرمی چیف جنرل فرانک والٹر مسیحی تھا تاریخ پاکستان گواہ ہے کہ مملکت خداداد کی عدالت عظمیٰ کا سب سے طویل عرصہ تک چیف جسٹس رہنے والے اے ۔آر کارنیلیوس مسیحی تھے وہ تقریبا 8 سال تک مسلسل عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس کے عہدہ پر فائز رہے جو کہ بہت بڑا اعزاز ہے۔ سانحہ جڑانوالہ کے بعد تمام مذہبی جماعتوں کے قائدین نے اس واقعہ کی نہ صرف مذمت کی گئی بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر اپنے مسیحی بہن بھائیوں کے دکھ درد کو بانٹااور انہیں اپنی طرف سے ہر طرح کے تعاون کا یقین دلایا۔ ایک بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ مذہبی جماعتوں کے مثبت کردار کی تعریف میں ہم تنگی داماں شکار کیوں ہوجاتے ہیں کیا خدا نخواسطہ ہمارا'' سافٹ امیج'' دائو پر لگ جاتا ہے؟ ۔سانحہ جڑانوالہ کے بعد عالمی میڈیا میں پاکستان اور اسلام کی عجیب منظر کشی کی گئی حقائق اور تمام مثبت پہلوئوں کو نظر انداز کردیا گیا ہمارے ایک قریبی دوست نے امریکہ سے خبر دی کہ ہمیں معلوم ہے کہ جڑانوالہ میں تین سے چار گھنٹے میں معاملہ پر قابو پالیا گیا تھا لیکن عالمی میڈیا میں ہر گھنٹہ بعد اس کی اپ ڈیٹ دی جا رہی تھی اور یہ سلسلہ کئی روز تک جاری رہا ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ بس تمام کے تمام مظالم مسیحی برادری پر توڑے جارہے ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ،یہ دراصل حقائق کو مسخ کرنے کے مترادف ہے ۔کیا یہ ایک حقیقت نہیں جہاں بھارت،امریکہ اور یورپ میں مسلم مسیحی بھائی چارہ پر کاری وار کئے جارہے ہیں وہاں جڑانوالہ میں انبیاء کے ورثاء نے مسلم مسیحی بھائی چارہ کی ایک عمدہ مثال قائم کی جس کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ مسیحی برادری کی عبادت کیلئے مساجد کے دروازے کھول دئیے گئے۔ دینی مدارس کو خالی کردیا تاکہ مسیحی بھائی اپنے گھر کی تعمیر تک وہاں قیام کر سکیں ہر مسلمان اپنے مسیحی بھائیوں کی میزبانی میںدیدہ دل فرش راہ بنا ہوا تھا۔ چشم فلک نے دیکھا ایک ہی چھت تلے محمد مصطفیٰ ﷺ کے عاشق اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیرو کار اپنے اللہ کی عبادت میں مصروف تھے۔ مسیحی برادری کی جامع مسجد میں داخلے کے رقت آمیز مناظر تھے ہر آنکھ اشک بار تھی ہر کوئی اپنے مسیحی بہن بھائیوں کو تحفظ دینے میں مصروف تھا۔ مسیحی بہن بھائی بھی اپنے مسلمان بھائیوں کے اس جذبہ کی دل سے قدر کر رہے تھے سانحہ کے بعد امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے جڑانوالہ کا دورہ کیا اور متاثرین سے مکمل ہمدردی کا اظہار کیا، جائے وقوعہ پر پہنچتے ہی انہوں متاثرہ چرچ دیکھے اور الخدمت فائونڈیشن کو اسکی فوری تعمیر کی درخواست کی۔ مسیحی بھائی سراج الحق سے ملنے کیلئے بے چین تھے۔ ایک معصوم بچی بھی وہاں پہنچ گئی جس نے روتے ہوئے امیر جماعت اسلامی سراج الحق سے کہا انکل میرا گھر بھی دیکھیں اسے بھی جلا دیا گیا ہے امیر جماعت اسلامی نے کہا میری بیٹی رو مت ہم آپ کا گھر تعمیر کرائیں گے اور وہ گھر تعمیر کردیا گیا۔ امیر جماعت اسلامی ابھی اپنا دورہ مکمل کرکے واپس منصورہ نہیں پہنچے تھے کہ الخدمت کے رضا کار جائے وقوعہ پر پہنچ گئے اور متاثرہ چرچ اور گھر کی تعمیر کا کام شروع کردیا گیا دو تین روز بعد عیسیٰ نگر مختلف منظر پیش کر رہا تھا اس کام میں دیگر مذہبی جماعتیں اور رہنماء بھی کسی سے پیچھے نہ تھے ہر کسی نے اپنے حصہ کا مثبت کام کیا اس مثبت کردار کو بھی منظر عام پر لایا جانا چاہیے تاکہ ایسے افراد جنہوں نے اس موقع پر انتہائی مثبت کردار ادا کیا ان کی حوصلہ افزائی ہواور حکومت انہیں اعزاز سے نوازے اور عالمی میڈیا میں پاکستان کا مثبت چہرہ اجاگر ہو ۔