آج کالم کو ذکر امام عالی مقام جگر گوشہ رسولﷺ سے معطر کرتے ہیں کہ وطن عزیز میں بقول شورش کاشمیری ’’عام ہے چاروں طرف ذریت ِ ابن زیاد‘‘ جبکہ دربانِ حسینؓ کم ہیں‘ ہونا نہ ہونا برابر‘ دل حسین کے ساتھ ہیں زبانیں پھر بھی اہل کوفہ کی طرح گنگ۔ذکر حسینؓ شائد ہمارے مردہ دلوں میں پھر سے زندگی کی رمق پیدا کرے اور قوم کا ہر فرد باردگر حسینؓ ابن علیؓ ہو۔ شاہ است حسینؓ ‘ پادشاہ است حسینؓ دین است حسین ؓ ‘ دین پناہ است حسینؓ سرداد نہ داد دست در دست یزید حقا کہ بنائے لاالا است حسینؓ منسوب بہ حضرت معین الدین چشتیؒ ٭٭٭ حدیث عشق ‘ دوباب است‘ کربلا و دمشق یکے حسینؓ رقم کرد‘ دیگرے زینبؓ غریب و سادہ و رنگین ہے داستان حرم نہائت اس کی حسینؓ ‘ابتدا ہے اسمعیلؑ (اقبالؒ) ٭٭٭ اے کربلا کی خاک‘ اس احسان کو نہ بھول تڑپی ہے تجھ پہ‘ لاش جگرگوشہ رسولؐ مولانا ظفر علی خان ٭٭٭ کیا بات رضا‘ اس چمنستان کرم کی زہر اؓہے کلی جس میں‘ حسینؓ اور حسنؓ پھول امام احمد رضا خان بریلویؒ ٭٭٭ قتل حسینؓ اصل میں مرگ یزید ہے اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد مولانا محمد علی جوہری ٭٭٭ کیا صرف مسلمان کے پیارے ہیں حسین چرخ نوع بشر کے تارے ہیں‘ حسین ؓ انسان کو بیدار تو ہو لینے دو ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؓ ٭٭٭ اے قوم ! وہی پھر ہے‘ تباہی کا زمانہ اسلام ہے‘ پھر تیر حوادث کا نشانہ کیوں چپ ہے ‘اسی شان سے پھر چھیڑ ترانہ تاریخ میں رہ جائے گا مردوں کا فسانہ مٹتے ہوئے اسلام کا‘ پھر نام جلی ہو لازم ہے کہ ہر فرد‘ حسینؓ ابن علیؓ ہو جوش ملیح آبادی ٭٭٭ یہ خیال ہے نہ قیاس ہے ترا غم ہی میری اساس ہے جنہیں لَو لگی ہو حُسینؓ کی ‘وہی میرے دَرد شناس ہیں جسے صِرف حَق قُبول ہو‘ یہی جس کا اَصلِ اُصول ہو جو نہ بِک سِکے‘ جو نہ جُھک سَکے‘ اُسے کربلائیں ہی راس ہیں احمد ندیم قاسمی ٭٭٭ حسینؓ تم نہیں رہے‘ تمہارا گھر نہیں رہا مگر تمہارے بعد ظالموں کا ڈر نہیں رہا افتخار عارف ٭٭٭ یہ جو اک عزا کی نشست ہے‘ یہ عجب دعا کا حصار ہے کسی نارسا کو تلاش کر‘ کوئی بے اماں ہو تو لے کے آ یہ عَلم ہے حق کی سبیل کا‘ یہ عَلم ہے اہلِ دلیل کا کہیں اور ایسی قبیل کا‘ کوئی سائباں ہو تو لے کے آ سر لوح آب لکھا ہوا‘ کسی تشنہ مشک کا ماجرا سر فرد ریگ لکھی ہوئی‘ کوئی داستاں ہو تو لے کے آ میرے مدوجزر کی خیرہو‘ کہ سفر ہے دجلہ و دہر کا کہیں مثل نام حسینؓ بھی ‘ کوئی بادباں ہو تو لے کے آ نصیر ترابی ٭٭٭ کربلا کا شیر تھا شیر سے دلیر تھا مرد پُر جلال تھا فاطمہ کا لال تھا دین کا اثاثہ تھا تین دن سے پیاسا تھا چہرہ پُرسکون تھا مُصطفیؐ کا خون تھا جنگ ہونے والی تھی ریت بھی سوالی تھی جنگ بھی کمال تھی ظلم کا زوال تھی سر سے تَن جُدا ہوا دین پر فِدا ہوا حق کا ترجمان تھا اور لہولہان تھا خون میں نہا گیا حق کی راہ دکھا گیا خوب ڈَٹ گیا تھا وہ اور کَٹ گیا تھا وہ رب کے روبرو ہوا خوب سرخرو ہوا کر رہا فلک تھا بین یا حسینؓ یا حسینؓ ٭٭٭ عبا بھی تار تار ہے‘ تو جسم بھی فگار ہے زمین بھی تپی ہوئی ‘فلک بھی شعلہ بار ہے مگر یہ مردِ تیغ زن‘ یہ صف شکن فلک فگن کمالِ صبر و تن دہی سے‘ محوِ کارزار ہے یہ بالیقیں حُسین ہے‘ نبی کا نُورِ عین ہے دلاوری میں فرد ہے‘ بڑا ہی شیر مرد ہے کہ جس کے دبدبے سے رنگ‘ دشمنوں کا زرد ہے حبیبِ مُصطفی ہے یہ‘ مجاہدِ خدا ہے یہ جبھی تو اس کے سامنے‘ یہ فوج گرد گرد ہے یہ بالیقین حُسین ہے‘ نبی کا نورِ عین ہے اُدھر سپاہِ شام ہے‘ ہزار انتظام ہے اُدھر ہیں دشمنانِ دیں‘ اِدھر فقط اِمامؓ ہے مگر عجیب شان ہے‘ غضب کی آن بان ہے کہ جس طرف اُٹھی ہے تیغ ‘بس خدا کا نام ہے یہ بالیقیں حُسین ہے‘ نبی کا نُورِ عین ہے ابوالاثر حفیظ جالندھری ٭٭٭ چہرۂ تاریخِ کو تاحشر گلگوں کر دیا عشرۂ ماہِ محرم پہ ہے احسانِ حسینؓ خونِ اکبر‘ پرچمِ عباس‘ زینب کی ردا لٹ گیا کرب و بلا میں سازو سامان ِحسینؓ کھا گیا اسلام کو‘ سرمایہ داری کا یزید سامنے آئیں‘ کہاں ہیں سوگوارانِ حسینؓ عام ہے چاروں طرف ذریتِ ابنِ زیاد میں ہوں پاکستان کے کوفہ‘ میں دربانِ حسینؓ کیا ڈرا سکتے ہیں مجھ ‘کو دشمنانِ اہل بیت میں نے دل پر نقش‘ کر رکھا ہے فرمان حسینؓ (شورش کاشمیری) حسین دیکھ رہے تھے ذرا بجھا کے چراغ کہیں بجھے تو نہیں‘ دشت میں وفا کے چراغ (نصرت مسعود) ٭٭٭ رنگین رہا دشت ‘شہیدوں کے لہو سے بہتا ہی رہا خون کا دریا‘ لبِ دریا (سید نصیر الدین نصیر گیلانی) نازِ بشریت ہے ترا سجدۂ آخر رخ پھیر دیا‘ جس نے زمانے کی ہوا کا حفیظ تائب ٭٭٭ حسینؓ حوصلہ انقلاب دیتا ہے حسینؓ شمع نہیں‘آفتاب دیتا ہے سنت درشن سنگھ