محبت بار ہوتی جا رہی ہے یہ دنیا دار ہوتی جا رہی ہے جو رہ ہموار ہوتی جا رہی ہے وہی دشوار ہوتی جا رہی ہے وہی کہ’ پائوں پکڑنے لگتے ہیں، کچھ رستے ہموار سے بھی ‘اڑانے آ گئی ہے خاک میری، ہوا غمخوار ہوتی جا رہی ہے۔ میرا خیال ہے آپ سمجھ گئے ہونگے کہ اکثر ڈوبنے کم گہرے پانیوں میں ڈوبتے ہیں کہ کبھی یہ پانی شفاف ہونے کے باعث اپنی گہرائی نہیں دکھاتا۔ میرا مطلب ہے نواز شریف اس معاملے سے بخوبی واقف ہیں وگرنہ وہ اپنے بھائی کی حکومت میں آ چکے ہوتے۔ خیر حکومت تو اعلان کر چکی ہے کہ پی ٹی آئی سمیت تمام جماعتیں انتخابات میں حصہ لے سکیں گی مگر اس ساری صاف صورت حال کے باوجود بھی ہر دو کے ساتھ کوئی تیسرا موجود محسوس ہوتا ہے مجھے ایک مزے کی بات یاد آئی کہ ایک بچے نے اپنے دوست کو ربڑ نما پلاسٹک کے سانپ سے ڈرایا دوسرے بچے نے سمجھداری سے کہا مجھے پتہ ہے یہ پلاسٹک کا سانپ ہے مگر پھر بھی کیا پتہ ہوتا ہے جی احتیاط لازم ہے۔ اس دفعہ تو بائوجی نے آنے سے پہلے ہی بم کو ٹانگ مارنے کی جسارت کی اور کھلبلی مچی تو لندن کو ہرکارے بھگائے گئے کہ اپنے بیان کو مذاق قرار دے دیا جائے۔ ویسے ہی اپنے دوست عدیم یاد آ گئے: اس نے ہنسی ہنسی میں محبت کی بات کی میں نے عدیم اس کو مکرنے نہیں دیا میں نے دیکھا ہے کہ اپنے پروفیسر نما دانشور احسن اقبال تو باقاعدہ کمپین پر نکلے ہوئے ہیں کہ وہ ایک موٹر وے کے اردگرد بنے بندوبست پر بات کر رہے تھے کہ جانے والی حکومت اسے بنے بنائے نظام کو بھی نہیں چلا سکی وہ یہ بھی بھول گئے کہ جانے والوں میں 16ماہ شہباز شریف کے بھی ہیں۔ چلیے لگتا ہے کہ کچھ ہل جل شروع ہوئی اور خاص طور پر میڈیاوار میں ن لیگ کسی سے پیچھے نہیں۔ پرانے حوالے دیتے ہوئے اچھا نہیں لگتا اب تو وہ اور بھی جدید ہو گئے ہیں کہ مریم نواز ایسی ایسی ویڈیوز کی بات کر چکی ہے کہ سن کر کان سرخ ہو جاتے ہیں۔ اب تو نواز شریف کے استقبال کی تیاریاں ہو رہی ہیں اور اس مقصد کے لئے بینرز لکھے جا رہے ہیں نئے نئے اور موثر نعروں کے لئے باقاعدہ ٹھیکہ دیا جا چکا ہے ایسے دانشور اور لکھاری ہیں جو کان پر قلم رکھ کر نکلتے ہیں جوکچھ لکھوانا ہے تو ہم لکھوائیں۔ مجھے وہ پرانا دور یاد آ گیا کہ جب سراج منیر مرحوم نواز شریف کی تقاریر لکھا کرتے تھے اور نعرے بھی ایک نعرہ تو پورا مصرع تھا خدا نواز رہا ہے تجھے نواز شریف۔ تب تو وہ ہمیں ہی اچھے لگتے تھے تب وہ اس مٹی سے جڑے تھے یہیں کرکٹ کھیلتے تھے اور کام بھی کرتے تھے پھر وہ لندن کے ہو گئے سارے کاروبار باہر چلے گئے چ۔لیے چھوڑیے ہمیں اس سے لینا دینا کیا لوگ پوچھتے ہیں کہ اگر مہنگائی کم کرنے کا کوئی نسخہ ان کے پاس تھا تو وہ نسخہ انہوں نے شہباز شریف کو کیوں نہیں بتایا ۔مجھے یاد آیا کہ ایک زمانے میں ایک بریف کیس مولانا طاہر القادری اپنے ساتھ رکھتے تھے اور کہتے تھے کہ اس میں ملک کو چلانے کا پورا نظام بند ہے۔ ویسے بریف کیس کے زور پر تو نواز شریف نے بھی نظام چلایا تھا ۔یہ اس دور کی بات ہے جب وہ چھانگا مانگا کی سیاست کرتے تھے۔ چھانگا مانگا وہ جنگل جہاں سیاسی گھوڑے بکتے تھے۔ ویسے بدلا اب بھی کچھ نہیں ہے ۔مجھے خوشی ہوئی کہ ن لیگ یعنی شریف برادران نے کم از کم ایک شخص کے ساتھ تو وعدہ نبھایا کہ راجہ ریاض کو ٹکٹ دے دیا۔ مگر راجہ صاحب سوچ میں پڑے ہوئے ہیں کہ ان کی پرانی پارٹی پنجاب میں کچھ نمایاں کی جا رہی ہے ۔ویسے وقت اور حالات کا کچھ پتہ نہیں تو زرداری کی بات کو بڑ نہیں سمجھتا کہ انہوں نے کہا ہے کہ ایک مرتبہ پھر پنجاب کو پیپلز پارٹی گڑھ بنائوں گا ۔کچھ پتہ نہیں کہ الیکٹیبلز تو ایک اشارہ چاہیے انہں نے کہاں جانا ہے وہ پیپلز پارٹی کو استحکام بخشنے آ جائیں گے۔ کالم کدھ کا کدھر نکل گیا نعروں والی بات درمیان میں رہ گئی، بہرحال کئی نعرے ایجاد ہونگے جیسے مشہور ہو تھا کہ ’ اک واری فیر‘ شیر شیر ‘ہو سکتا ہے۔ اس سے ملتے جلتے اور نعرے بھی آ ئیں۔جیسے ’پا اتے سیر ،شیر آیا شیر‘ ۔دوسرے یہ بھی دلچسپ ہے کہ سیاسی شخصیات کے خلاف نیب کا شکنجہ کسا جا رہا ہے۔ اسحق ڈار کے خلاف بھی ریفرنس کھل گیا ہے۔میگا سیکنڈل جہاں سے ختم ہوئے تھے وہیں سے پھر شروع ہو گئے ہیں۔ مزیدار بات یہ کہ یہ نیب کسی نے بھی ختم کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ اپنے اپنے حق میں استعمال کرتے رہے اور اب سب کے خلاف استعمال ہو گ گیا ۔ اصل بات تو یہ ہے کہ عوام کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں رہا کہ وہ بے چارے صبح کو شام بڑی مشکل سے کرتے ہیں۔غریب آدمی تو بے چارہ سفر تک نہیں کرتا کہ پیسے ہی نہیں ایسے میں لگتا ہے کہ ووٹرز کو عزت ملنے والی ہے اور یہ عزت ہی دے گا جو پیسہ خرچ کر سکے گا ۔کم سے کم الیکشن کا دور تو کچھ غریبوں کو بریانی اور قیمے والے نان مل جائیں گے۔ ترانے والے یا نعروں کے ٹھیکے دینے والے کمائیں گے ایک شعر: دھوپ اتری اشجار سے بھی دھوکہ کھایا یار سے بھی