انتخابات سے قبل متعدد تنظیمیں ،ادارے اور میڈیا ہاؤسز عوامی سروے کروانے اور شائع کرنے کی دوڑ میں لگے ہوتے ہیں۔جدید دور میں ٹویٹر پول کو بھی سروے کے طور پر لیا جارہا ہے۔ ٹویٹر سروے کے نتیجے میں عمران خان کی مقبولیت50 سے60 فیصد اور بعض سروے میں 70 فیصد سے بھی اُوپر نظر آتی ہے۔2013 کے انتخابات سے قبل بھی سوشل میڈیا اور اسی طرح کے سروے میں تحریک انصاف کو سب سے مقبول جماعت دکھایا جارہا تھا۔ جبکہ الیکشن میں صرف 28 نشستوں تک محدودرہی۔ ایسے میں پہلا سوال یہ ہے کہ کیا سوشل میڈیا پر ہونے والے یہ سروے 100 فیصد آرگینک ہوتے ہیں؟اس کا جواب ٹیکنالوجی اور پی ٹی آئی سوشل میڈیا کے سابق ارکان کی معاونت اور معلوم سے دیتے ہیں ۔پی ٹی آئی ایسے سروے کو اپنے حق میں دکھانے کے لیے جو سب سے اہم طریقہ استعمال کرتی ہے وہ سوشل میڈیا سیلز کا استعمال ہے ۔تحریک انصاف نے ہزاروں کی تعداد میں واٹس ایپ گروپس میں اپنے ارکان کو شامل کر رکھا ہے، جوں ہی کوئی سروے سامنے آتا ہے تو سوشل میڈیا سیلز کے ذریعے اس سروے کے لنک کو واٹس ایپ گروپس میں پھیلا دیا جاتا ہے۔ مذکورہ ارکان نے درجنوں ناموں سے فیک اکائونٹس بنائے ہوتے ہیں جس سے اس پول کا نتیجہ متعلقہ سیاسی جماعت کے حق میں ظاہر ہوتا ہے۔ دوسرا طریقہ بوٹس کے ذریعے سوشل میڈیا پر اپنی برتری ظاہر کر نا ،یہ بوٹس مصنوعی طریقوں سے ان پولز میں متعدد مرتبہ ووٹنگ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جس سے حقیقی عوامی رائے کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔اس حوالے سے پی ٹی آئی سوشل میڈیا کے بانی رکن فرحان ورک کا کہنا تھا کہ ان کی سابقہ جماعت پی ٹی آئی بوٹ اکاؤنٹس اور مختلف paidویب سائٹس کے ذریعے سوشل میڈیا مقبولیت کو قائم رکھتے تھے۔ پاکستان میں ایکس (ٹویٹر) صارفین کی تعداد 50 لاکھ سے بھی کم ہے،جو کہ پاکستان کی کل آبادی کا بامشکل 2%ہے، جبکہ رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 12کروڑ 70لاکھ ہے۔اس لیے ٹویٹر پر ہونے والے سروے عوام کی حقیقی رائے کا اظہار ہرگز نہیں ہو سکتے۔ پاکستان میں سیاسی قیادت کی مقبولیت کے حالیہ سروے نتائج پر مذکورہ سیاسی جماعت کے کارکنوں اور حامی تجزیہ کاروں کی سوشل میڈیا پر بچگانہ اچھل کود جاری ہے ۔گیلپ سروے نے پاکستان بھر سے 3500افراد سے رائے لینے کے بعد عوامی مقبولیت کا گراف جاری کردیا،غرض یہ کہ سماجی تنظیموں اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے سروے کسی بھی طرح پاکستانی عوام کی حقیقی ترجمانی نہیں کرسکتے۔کیونکہ ان سروے میں پاکستان کی 98%آبادی اور ساڑھے بارہ کروڑ ووٹرز کی رائے شامل نہیں ہے۔ چند ہزار مخصوص افراد کے سروے کے مقابل پاکستان بھر میں خاص طور پر پنجاب میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ کے امیدواروں کی لائنیں لگ گئی ہیں۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ پنجاب میں ن لیگ کا ٹکٹ کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔اسی مقبولیت کی وجہ سے ایک ایک حلقے سے درجنوں افراد نے ٹکٹ کیلئے اپلائی کیا ہے۔سندھ اور بلوچستان میں پاکستان مسلم لیگ ن کی تیزی سے بڑھتی ہوئی مقبولیت اور تمام الیکٹیبلز کی شمولیت اس بات کی غمازی ہے کہ آئندہ الیکشن میں پی ایم ایل این واضح اکثریت حاصل کرلے گی۔ پی ٹی آئی دور میں وزیر اعظم ہاوس سے ماہانہ کروڑوں روپے لگا کر آپریٹ ہونے والے میڈیا سیل کے کرتا دھرتا نجی محافل میں اس بات کا اقرار کرتے نظر آتے کہ وفاق ، پنجاب اور بلوچستان کے سرکاری خزانہ سے اربوں روپیہ جھونک کر بھی لوگوں کے دلوں سے شریف برادران کے محبت نہیں نکال سکے۔ پی ٹی آئی سوشل میڈیا ٹیم اس بات کا اعتراف کرتی تھی کہ ہم مسلم لیگ ن کامقابلہ نہیں کر سکتے کیوں کہ ہم اخلاقی گراونڈ کے بغیر صرف اپنی کرپشن کو بچانے کیلئے وسائل کا استعمال کرکے ریت کی دیوار قائم کیے ہوئے ہیں۔ پی ٹی آئی نے معصوم اذہان اور نوجوان طبقے کو ٹارگٹ کیا ۔ کئی سال تک ایک مخصوص ماحول میں نشونما پانے والی نوجوان نسل کی اخلاقیات کو تباہ کردیا گیا۔خاص نصاب اور مخصوص سوشل میڈیا اکائونٹس کو فالو کرنے والی ایسی نسل تیار کی گئی کہ جنہوں نے خودنمائی میں مبتلا ایک خودسر و خود غرض شخص کو ماورائی درجے پر فائز کردیا۔عمران خان کی مخالفت کرنے والے ہر شخص اور ادارے کے بارے میں بدتمیزی،گالی اور ایسی ایسی زبان استعمال کی ،جس کو الفاظ میں بیان کرنا بھی ممکن نہیں۔ پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا کنگڈم نے بہت سے کارہائے نمایاں سر انجام دیے ہیں لیکن اقتدار سے محرومی کے بعد اس گالی بریگیڈ نے فوج کو اپنے نشانے پر رکھ لیا۔افواج پاکستان ملک وقوم کا عظیم سرمایہ ہیں۔ قوم کو ان پر فخر ہے۔ پاک فوج نے ہر مشکل گھڑی میں قوم کی مدداور خدمت کی ہے۔ زلزلہ، سیلاب ہو یا کوئی بھی آفت ومصیبت یا ملک دشمنوں اور دہشت گردوں کو انجام تک پہنچانا اور کچلنا ہو،افواج پاکستان نے کبھی قوم کو مایوس نہیں کیا۔مگر پی ٹی آئی اور ان کے حامی تجزیہ کاروں کی جانب سے پاک فوج کے خلاف نہ ختم ہونے والا منفی پروپیگنڈا جاری ہے، پاک فوج کے خلاف من گھڑت افواہیں اڑائی جارہی ہیں، غیر مصدقہ، ہتک آمیز اور اشتعال انگیز ریمارکس دیے جارہے ہیں۔ قوم کو گمراہ کرنا، ورغلانا اور ذاتی مفادات کیلئے ملک میں فساد برپا کرنا ملک دشمنی نہیں تو اور کیا ہے؟ حالیہ آڈٹ رپورٹ میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ سرکاری پیسے کا بے دریغ استعمال کرکے ہزاروں افراد کوسرکاری تنخواہوں پر پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا کمپین پر لگادیا گیا تھا جبکہ سیاسی پارٹی کے ایجنڈے پر چلنے والے قلمکاروں کو راتوں رات کروڑ پتی کرکے مستقل وفاداربنایا گیا۔سانحہ 9مئی،اداروں کے خلاف پروپیگنڈا مہم اور پاکستان کے داخلی و سلامتی معاملات میں بیرونی مداخلت کی دعوت اور معاشی تباہی کی سازشوں کا پردہ چاک ہونے کے بعد پورے پاکستان میں کوئی پی ٹی آئی کی ٹکٹ لینے کو تیار نہیں۔ وہ تجزیہ کاراور دانشور جنہیں قومی خزانے سے مستفید کیا جاتا تھا وہ آج بھی اپنے وظیفے کو بحال رکھوانے کیلئے پی ٹی آئی کے مردہ گھوڑے میں جان ڈالنیکے پروپیگنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ ان کا ایک ہی اصول ہے کہ جھوٹ کو اتنا زیادہ بولو کہ لوگ اسے سچ سمجھنا شروع ہو جائیں۔