قانونِ حکومتِ ہند 1935ء میں گورنر جنرل کو وائسرائے کی حیثیت سے بہت سارے اختیارات دیے گئے تھے اور وزیر اعظم اور کابینہ کو اس کے ماتحت کی حیثیت حاصل تھی۔ یہی قانون پاکستان کے عبوری آئین کی حیثیت سے نافذ ہوا لیکن قانونِ آزادیِ ہند 1947ء نے گورنر جنرل کے "مرضی کے اختیارات"ختم کردیے۔ 1956ء کے آئین نے گورنر جنرل کی جگہ صدر کا عہدہ تخلیق کیا اور کابینہ کو صدر کے سامنے جواب دہ کردیا، یہاں تک کہ وزیرِ اعظم کا تقرر بھی صدر کی مرضی پر منحصر ہوگیا اور یہ فیصلہ صدر ہی کرتا کہ پارلیمان میں کس رکن کو اکثریت حاصل ہے۔ پھر 1962ء کا آئین تو مبنی ہی صدارتی نظام پر تھا جس میں ہمارے مرحوم استاد راجا بشیر احمد صاحب کے بقول صدر کو فیصل آباد کے گھنٹا گھر کی حیثیت حاصل تھی کہ سب راستے اسی کی طرف جاتے تھے۔ 1973ء کے آئین نے صدر کی حیثیت محض نمائشی بنا کر رکھ دی اور اگرچہ 1956ء کے آئین کی طرح وزیرِ اعظم پر لازم کیا کہ وہ جملہ امورِ مملکت پر صدر کو آگاہ رکھے (دفعہ 46)، نیز وفاقی حکومت کے تمام احکام صدر کے نام پر جاری کیے جائیں ( دفعہ 90)، لیکن ساتھ ہی دفعہ 48 (3) میں صدر کو ہر معاملے میں وزیرِ اعظم کے مشورے کا پابند کیا اور یہاں تک قرار دیا کہ صدر کے احکامات نافذ ہونے کیلیے ضروری ہے کہ ان پر وزیرِ اعظم کے بھی دستخط ہوں۔ 1977ء میں آئین کی معطلی کے بعد 1985ء میں آئین کی بحالی کے حکم نامے میں صدر کو نظمِ ریاست و حکومت میں مرکزی حیثیت دے دی گئی۔ چنانچہ دفعہ 46 کے اصل مختصر متن کی جگہ تفصیلی متن لایا گیا اور وزیرِ اعظم پر لازم کیا گیا کہ وہ امورِ مملکت اور قانون سازی کے متعلق کابینہ کے تمام فیصلوں سے صدر کو آگاہ رکھے، صدر کو وہ تمام معلومات دے جو ان امور کے متعلق صدر طلب کرے اور وہ امور کابینہ میں بحث کیلیے لائے جن پر صدر کے خیال میں کابینہ میں بحث ضروری ہو۔ اسی طرح دفعہ 48 میں تبدیلیاں لا کر صدر کو اختیار دیا گیاکہ اگر صدر اسمبلی تحلیل کرے تو نئے انتخابات کیلیے تاریخ مقرر کرنے کا اختیار بھی صدر ہی کے پاس ہوگا۔ نیز دفعہ 58 میں ذیلی دفعہ 2 کا اضافہ کرکے صدر کو اپنی مرضی سے اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار بھی دیا گیا۔ 8ویں آئینی ترمیم کے ذریعے یہ تبدیلیاں آئین کا مستقل حصہ بن گئیں، نیز دفعہ 58(2) میں صدر کو دو صورتوں میں اپنی مرضی سے اسمبلی کی تحلیل کا اختیار دیا گیا۔ 1997ء میں 13ویں ترمیم کے ذریعے دفعہ 58(2)(بی) کو ختم کرکے صدر کی مرضی سے اسمبلی کی تحلیل کو ایک صورت تک محدود کردیا گیا، تاہم 2002ء کے ایل ایف او اور پھر 2003ء میں 17ویں ترمیم کے ذریعے اس شق کو بحال کیا گیا۔ 2010ء میں 18ویں ترمیم کے ذریعے آئین میں آمروں کی جانب سے لائی گئی تبدیلیوں کو دور کرنے کی تفصیلی کوشش کی گئی اور کئی دفعات اصل شکل میں بحال کی گئیں جن میں دفعہ 46 بھی شامل ہے۔تاہم بعض دفعات ایسی ہیں جن کو اصل شکل میں بحال کرنے کے بجائے ایک درمیانی شکل دی گئی۔ ان میں 3 دفعات کو موجودہ آئینی بحران میں اہمیت حاصل ہے: دفعہ 48، دفعہ 58 اور دفعہ 75۔ دفعہ 75 کے اصل متن میں کہا گیا تھا کہ پارلیمان کی جانب سے کسی بل کی منظوری کے بعد صدر نے 7 دنوں میں اس پر دستخط نہیں کیے، تو فرض کیا جائے گا کہ اس نے دستخط کرلیے ہیں۔ آئین کی بحالی کے حکم نامے نے دستخط کیلیے مدت بڑھا کر 45 دن کردی ، صدر کو بل واپس پارلیمان میں بھجوانے کا اختیار بھی دے دیا اور قرار دیا کہ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں دوبارہ منظوری کے بعد اسے پھر صدر کے دستخط کیلیے بھیجا جائے گا۔ لیکن یہاں مدت کی تصریح نہیں کی۔ 8ویں ترمیم نے 45 دن کی مدت کو کم کرکے 30 دن کردیا۔اب 18 ویں ترمیم نے اس مدت کو مزید کم کرکے 10 دن کردیا اور یہ بات اضافہ کی کہ بل کی دوباری منظوری کے بعد صدر نے 10 دنوں میں دستخط نہیں کیے تواس کی منظوری فرض کی جائے گی۔چنانچہ 18ویں ترمیم کے بعد بلوں کی منظوری کے معاملے میں صدر کا اختیار اصل آئین سے زیادہ اور 8ویں ترمیم سے کم ہے۔ اب پہلے مرحلے میں 10 دن گزرنے پر صدر کی منظوری فرض نہیں کی جاسکتی اور صدر کے دستخطوں کے بغیر بل قانون کی حیثیت نہیں اختیار کرسکتا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس مدت میں دستخط نہ کرنے کی صورت میں بل کا واپس کرنا فرض کیا جائے گا، لیکن یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی۔ زیادہ مناسب موقف یہ ہے کہ اگر کسی وجہ سے صدر 10 دن کی مدت میں دستخط بھی نہ کرسکے اور بل واپس بھی نہ کرسکے، تب بھی مدت گزرنے کے باوجود وہ ان میں کوئی کام کرسکتا ہے اور ہر دو صورتوں کو دفعہ 254 کا تحفظ حاصل ہوگا ۔جس کا کہنا ہے کہ آئین نے کسی کام کیلیے مدت مقرر کی ہو اور وہ کام اس مدت کے بعد کیا جائے تو محض مدت گزرنے کی بنا پر اسے غیر مؤثر نہیں کہا جائے گا۔ اسی طرح 18ویں ترمیم نے دفعہ 58 کو اصل شکل میں بحال کرنے کے بجائے درمیانی صورت اختیار کرلی اور اب اسمبلی کی تحلیل کے حوالے سے 2 صورتیں ہیں: ایک یہ کہ وزیرِ اعظم صدر کو اسمبلی کی تحلیل کا مشورہ دے اور دوسری یہ کہ اسمبلی میں وزیرِ اعظم پر عدمِ اعتماد کے بعد صدر یہ سمجھے کہ کسی اور کے پاس بھی اکثریت نہیں ہے۔ پہلی صورت میں بھی دو امکانات ہیں: ایک یہ کہ صدر مشورہ مان کر اسمبلی تحلیل کرے اور دوسری یہ کہ صدر مشورہ ماننے سے گریز کرے تو 48 گھنٹے بعد اسمبلی خود تحلیل ہوجائے گی۔ یوں کل 3 امکانات ہوگئے ہیں جن میں 2 میں صدر اسمبلی تحلیل کرتا ہے۔ دفعہ 48 کو بھی اصل صورت میں بحال کرنے کے بجائے درمیانی صورت اختیار کرکے صدر کے پاس مرضی کے کچھ اختیارات رہنے دیے ہیں جن میں ایک اسمبلی کی تحلیل کی صورت میں انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کا اختیار ہے جو اسے ان دونوں صورتوں میں حاصل ہے جن میں وہ اسمبلی تحلیل کرتا ہے۔ اگر پارلیمان اس اختیار کو صرف دفعہ 58(2) تک محدود کرنا چاہتی تو 18ویں ترمیم میں اس کی تصریح ضروری تھی۔ ایسی کسی تصریح کی عدم موجودگی میں یہ موقف تسلیم نہیں کیا جاسکتا کہ ایک ماتحت قانون سازی (الیکشن ایکٹ کی دفعہ 57 میں ترمیم) کے ذریعے اس اختیار کو صدر سے چھین کر الیکشن کمیشن کو دے دیا گیا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ بل کی پارلیمان سے منظوری کے 10 دن گزرنے کے بعد بھی جب تک صدر اس پر دستخط نہ کریں، اسے قانون کی حیثیت حاصل نہیں ہوسکتی اور صدر بعد میں بھی ایسے بل واپس کرسکتے ہیں؛ اور اسمبلی کی تحلیل کی دونوں صورتوں میں انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کا اختیار صدر ہی کے پاس ہے۔