57 کل اسلامی ممالک ہیں جو مسلمان ملکوں کی تنظیم او آئی سی کے بھی ممبرز ہیں، ان میں سے 22 ممالک کا تعلق عرب لیگ سے ہے جن کے پاس دنیا کی دولت کا بڑا ذخیرہ موجود ہے اور کْل آٹھ ارب آبادی میں سے دو عرب کے لگ بھگ مسلمان آبادی ہے دو ممالک ان میں سے ایسے بھی ہیں جو ایٹمی طاقت کے حامل ہیں اس کے باوجود غزہ کے مظلوموں، معصوم بچوں اور عورتوں کی حالت زار دیکھ کر کسی کو ترس نہیں آرہا ہے۔ مسلمان ممالک کی قیادت کی غیرت اور طاقت کو ٹیسٹ کیا جاچکا ہے، ان ممالک کے مسلمان آج انفرادی طور پر یہ سوچ کر زار و قطار ماتم کرنے پر مجبور ہیں کہ امت مسلمہ آخر کہاں ہے؟ قیادت کہاں ہے اور کس طرح کے جذبات 7 اکتوبر سے لے کر آج تک جو کچھ اسرائیل نے کیا اس پر مسلمانوں میں پائے جاتے ہیں۔ اس کی ایک جھلک نیویارک میں مقیم پروفیسر محمد رفیق بھٹی صاحب کے ایک مراسلے میں نظر آتی ہے، جو ہم سب کی چشم کشائی کرنے کے لئے کافی ہے، مراسلے کا پہلا حصہ مسلمان ممالک کی قیادت اور غزہ کے مسلمانوں کی تڑپ میں ہے جبکہ دوسرا حصہ پاکستان کے مسلمانوں اور حکمرانوں کے نام ہے پروفیسر صاحب لکھتے ہیں۔ " شیراز جی: مْسلمانوں کی تاریخ شروع سے ہی باہمی اختلاف و انتشار کا شکار رہی ہے خلافتِ راشدہ کا دور بھی غیر مْستحکم تھا کیونکہ تین خلفاء شہید کردئیے گئے تھے بعد میں آلِ بیت کے ساتھ جو کْچھ ہوا وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ مْسلمان کْچھ عرصے کے لئے اس وجہ سے کامیاب نہیں ہوئے کہ ان میں کوئی آفاقی صلاحیتیں تھیں بلکہ اس لئے کامیاب ہوئے کہ ان میں دفاعی اور مزاحمتی قوت زیادہ تھی اور ان کے مدِمْقابل قوتیں اخلاقی، سماجی اور سیاسی اعتبار سے زوال پزیر تھیں مثلاً یونانی رومی اور ایرانی وغیرہ اپنے عروج کے بعد اخلاقی معاشرتی اور سیاسی انتشار کا شکار ہو چْکے تھے اور اْن کی مزاحمتی صلاحیت ختم ہو چْکی تھی عدل و انصاف زوال پزیر تھا عوام کے اندر اپنے نظام کے خلاف لاوا پک چْکا تھا لہذا عربی جنگجووں کے لئے انھیں فتح کرنے کے لئے حالات ساز گار تھے۔ ہندوستان پر بھی مْسلمانوں کا تسلط ان ہی مْحرکات کی وجہ سے ہوا تھا وہاں ذات پات ستی پرتھا وِدوا پرتھا بال پرتھا اور نیوگ جیسی معاشرتی قباحتوں نے معاشرے کو کھوکھلا کر رکھا تھا اور وہ کسی نجات دہندہ کے مْنتظر تھے یہ قدرت کا نظام تھا عربوں کا کمال نہیں پاکستان کی موجودہ حالت ویسی ہی ہے یورپ میں پادریوں اور ربیوں کی وجہ سے عیسائی اور یہودی دْنیا کمزور ہوئی تھی انڈیا میں پنڈتوں پروہتوں سادھووں اورسوامیوں کی وجہ سے معاشرہ زوال پذیر ہوا تھا ان کے بعد مْسلمانوں کے زوال کا سبب کئی چیزیں بنی ہیں۔ جب تک ہمارے دین کے ذمہ دار عقل وشعور سے کام نہیں لیں گے مْسلمان زوال گیر رہیں گے دولتمند ہونے کے باوجود مْسلمان اقوامِ عالم میں بیوقعت ہیں، جس کا ثبوت غزہ کا حالیہ المیہ اور صیہونیوں کی بدمعاشی ہے، یہودی اور عیسائی بھی مْسلمان ہیں کیونکہ دینِ ابراہیم کے پیروکار ہیں مْسلمانی روئیے کا نام ہے۔ عقیدے یا نظریے کا نہیں اس لئے مسلمانوں کے عروج کا زمانہ در اصل دوسروں کے زوال کا دور تھا جب کسی قوم یا معاشرے سے عدل و انصاف اور قانون وآئین کا جنازہ نکل جاتا ہے تو عوام مْلک حکومت اور حکمرانوں سے لا تعلق ہو کر کسی آسمانی یا دنیاوی قوت کی آمد کی دعا بھی کرتے ہیں اور مدد بھی فراہم کرتے ہیں یہ نکتہ عام طور ہمارے دانشوروں کی سمجھ میں نہیں آتا دْنیا میں اسلام کو کبھی بھی خطرہ نہیں رہا البتہ مْسلمانوں کو ہمیشہ خطرات لاحق رہے ہیں کیونکہ مْسلمان علمائے کرام دانشوروں اور مفسروں نے اسلام کا جو حْلیہ خاکہ یا نقشہ بنا رکھا ہے وہ غیر حقیقی غیر سائنسی غیر علمی اور غیر عقلی و غیر شعوری ہے۔ جب تک ہم اس غیر تحقیقی اور تقلیدی ڈھانچے کو مسمار کرکے حقیقی اسلامی بنیادوں پر اس کو کھڑا نہیں کرتے ہم کہاوتوں،کہانیوں روائیتوں، تفسیروں اور تقریروں میں الجھے معجزوں کے مْنتظر رہیں گے لہذا لیسَ للانسان الا ماسعَ ہی واحد راستہ ہے کسی آسمانی مدد کے بغیر اپنی قوتِ بازو اور عصری شعور کی توانائی ہی نجات وبرآت کا صراطِ مْستقیم ہے" پاکستان کے لئے اتنا کہنا ضروری ہے کہ ساڑھے چودہ سو سالوں سے مْسلمان قرآن پڑھ رہے ہیں حفظ کر رہے ہیں تلاوت کر رہے ہیں قرات اور حفظ قرآن کے مقابلے بھی ہوتے ہیں تفسیریں لکھی جا رہی ہیں پاکستان میں سکولوں کالجوں کے مقابلے میں مدرسے زیادہ ہیں حافظوں قاریوں اماموں خطیبوں علما و مشائخ کی تعداد بھی ان گنت ہے۔ ہر رمضان کے آخری عشرے میں ہزاروں لاکھوں مساجد میں قرآن کریم ختم ہوتے ہیں اعتکاف بیٹھنے والے قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اسلامی نظریاتی کونسل بھی ہے شریعت کورٹس بھی ہیں اس کے باوجود اس مْلک میں اخلاقی قدریں زوال پذیر ہیں اوپر سے لے کر نیچے تک پورا ڈھانچہ کرپشن میں لتھڑا ہوا ہے۔ مقتدر مالدار اور مراعات یافتہ طبقہ آئین اور قانون سے بد فعلی کا مسلسل مرتکب ہورہا ہے امیروں اور غریبوں میں خلیج وسیع سے وسیع تر ہو رہی ہے غربت کے مارے لوگ بچوں کو نہروں میں پھینکتے ہیں غربت کے باعث ہزاروں نوجوان عورتیں لڑکیاں عصمت فروشی کر رہی ہیں ان حالات میں اللہ کا قْرب اور خوشنودی اہل پاکستان کو کیسے نصیب ہو اور ہم کس طرح غلبہ پا سکتے ہیں"۔