جمہوریت پرستوں کی تعریف کے مطابق پاکستان کی تاریخ میں چار ڈکٹیٹر یا آمر حکمران گزرے ہیں۔ ان کے نزدیک آمر وہ ہے جو فوج کا سربراہ ہو، جرنیل کی وردی پہنتا ہو اور ملکی آئین کی کتاب کو پسِ پشت ڈال کر اقتدار پر قابض ہو جائے۔ ایسے چار ڈکٹیٹر، فیلڈ مارشل محمد ایوب خان (27 اکتوبر 1958 تا 23 مارچ 1969)، جنرل آغا محمد یحییٰ خان (25 مارچ 1969ء تا 20 دسمبر 1971ئ)، جنرل محمد ضیاء الحق (6 جولائی 1977ء تا 17 اگست 1988ئ) اور جنرل پرویز مشرف (12 اکتوبر 1999ء تا 18 اگست 2008)، مختلف وقفوں سے برسرِاقتدار رہے۔ پاکستان کی پچھہتر سالہ تاریخ میں یہ عرصہ 32 سال 10 ماہ اور 29 دن بنتا ہے ۔ یہ 12010 ایاّم کل 27,375 ایاّم کا 44 فیصد ہیں۔ ان چاروں ڈکٹیٹروں کے سوا اس ملک میں جمہوریت کی سیڑھی پر چڑھ کر اگر کوئی اقتدار میں آیا، خواہ اس کا دورِ اقتدار بدترین فاشزم اور خوفناک ترین ظلم سے بھرپور کیوں نہ رہا ہو، جمہوریت پرست اسے ڈکٹیٹروں کی فہرست میں شامل نہیں کرتے۔ گورنر جنرل غلام محمد قانون ساز اسمبلی توڑ دے، سکندر مرزا دو دفعہ مارشل لاء لگا دے، ذوالفقار علی بھٹو پہلے سویلین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے ایک سال آٹھ ماہ برسرِاقتدار رہے، آصف زرداری منتخب وزیر اعظم کے تمام اختیارات اپنے پاس ایسے منتقل کرے کہ وزیر اعظم ایوانِ صدر کا دربان محسوس ہو، وہ انہیں ڈکٹیٹر نہیں سمجھتے۔ زیادہ سے زیادہ آمرانہ رویے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ یہ حکمران ووٹروں کی ایک قلیل تعداد کے ووٹ لے کر برسرِاقتدار آئے ہوتے ہیں۔ ساٹھ فیصد کے قریب ووٹرز ہمیشہ اس جمہوری نظام پر نفرین بھیج کر پولنگ اسٹیشن ہی نہیں جاتے رہے۔ لیکن ان قلیل جمہوری ووٹوں کا سائبان اس قدر تگڑا ہے کہ آپ بھٹو کی طرح اپنے دَور میں 35 سے زیادہ مخالفین کو دنیا سے کوچ کروا دیں، آپ پر ایم کیو ایم کی طرح بھتہ خوری اور بلدیہ ٹائون کی فیکٹری جیسے قتلِ عام کا الزام کیوں نہ لگے، آپ پر فرقہ واریت کے مقدمے درج ہوں، آپ نسلی منافرت پھیلانے اور مسلسل سکیورٹی فورسز کے ساتھ لڑنے میں مصروف رہے ہوں، لیکن اگر آپ کے حلقے کا ووٹر آپ کو ووٹ دیتا ہے تو پھر آپ قابلِ احترام ہیں، صاحبِ عزت ہیں، آپ کو عوامی مینڈیٹ حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کو تمام تر آمرانہ اوصاف کے باوصف یہ لوگ آسانی سے تمام گناہوں سے مبّرا قرار دیتے ہیں، جبکہ ضیاء الحق کو اپنی تمام تر شرافت و نجابت کے باوجود آسانی سے گالی دی جاتی ہے۔ ضیاء الحق کو گالی اس لئے بھی دی جاتی ہے کیونکہ وہ ہر سیکولر، لبرل اور اسلام دُشمن شخص کے گلے کی پھانس ہے۔ عزت و توقیر کے حساب سے میرے اللہ کے اپنے قوانین اور معیارات ہیں جن کی ایک جھلک وہ اس دنیا میں بھی کبھی کبھی دکھاتا ہے۔ چاروں فوجی آمر بڑی دھوم دھام اور عوامی استقبال کے جلو میں برسرِاقتدار آئے۔ ہر ایک کے آنے پر ملک بھر میں مٹھائیاں بانٹی گئیں لیکن ان میں سے عزت کے ساتھ رُخصت ہونا، صرف اور صرف ضیاء الحق کو نصیب ہوا۔ اس کا جنازہ پاکستان کے چند بڑے جنازوں میں سے ایک تھا، جس میں ان افغانوں کی ایک کثیر تعداد بھی اپنے ا محسن کو رُخصت کرنے آئی تھی جس نے انہیں سوویت یونین کی ایسی بدترین غلامی سے آزادی کی راہ دکھائی تھی جیسی غلامی ان کے پڑوسی تاجکستان، ازبکستان اور ترکمانستان وغیرہ کے مسلمان گذشتہ پچاس سال سے بھگت رہے تھے۔ دس سال تک برسرِاقتدار رہنے والا ایوب خان اقتدار سے اُترنے کے چھ سال بعد تک زندہ رہا۔ ایک گمنام شخص جسے 19 اپریل 1974ء کو اس کے آبائی گائوں ریحانہ میں چند ہزار لوگوں کی موجودگی میں دفن کر دیا گیا۔ اسے ڈیڈی کہنے والا ذوالفقار علی بھٹو اس وقت ملک کا وزیر اعظم تھا، لیکن اپنا جمہوری امیج محفوظ رکھنے کی ہوس میں جنازے سے الگ رہا۔ یحییٰ خان کے خلاف عوامی نفرت ایسی تھی کہ اس نے بقیہ دس سال پشاور میں اپنی رہائش گاہ میں نظر بندی کے گزارے۔ موت سے کچھ عرصہ پہلے اسے گورنر سرحد جنرل فضل حق نے آزاد تو کر دیا لیکن اسے جلد کی ایک ایسی بیماری ہو چکی تھی جو اسے ہمیشہ کھجانے میں مصروف رکھتی اور اسی حالت میں وہ 10 اگست 1980ء کو خالقِ حقیقی سے جا ملا اور خاموشی سے دفنا دیا گیا۔ چوتھے اور آخری مارشل لاء لگانے والے پرویز مشرف کی حالت آج دیدنی ہے۔ جلاوطنی اپنی جگہ، وہ ایک ایسی لاعلاج بیماری میں مبتلا موت کا انتظار کر رہا ہے جو دنیا میں صرف دو درجن افراد کو ہوتی ہے۔ ان تینوں کے برعکس مسلم دنیا میں آپ کہیں بھی چلے جائیں، آپ کو کہیں نہ کہیں ضیاء الحق کا چاہنے والا ضرور مل جائے گا، لیکن باقی تینوں فوجی ڈکٹیٹروں کو شاید ہی کوئی جانتا ہو۔ پاکستان میں جب تک سیکولر، لبرل اور قادیانی گروہوں کی نفرت زندہ ہے ضیاء الحق پر کیا جانے والا طعن و تشنیع اسے ہمیشہ زندہ و جاوید بنائے رکھے گا۔ جو لوگ میری طرح 7 مارچ 1977ء کو منعقد ہونے والے الیکشنوں میں دھاندلی کے بعد چلنے والی حیران کن تحریک کے لمحہ لمحہ گواہ ہیں، انہیں معلوم ہے کہ چار ماہ تک چلنے والی اس تحریک کے آخری دو ہفتوں میں ضیاء الحق جو ایک بالکل گمنام آرمی چیف تھا، لوگوں کی اُمیدوں کا مرکز بن چکا تھا۔ یہاں تک کہ نو جماعتوں والے پاکستان قومی اتحاد کے لیڈر اصغر خان کا فوج کے نام خط زبان زد عام تھا۔ پاکستان کی یہ واحد تحریک تھی، جس میں تمام قیادت جیل میں تھی اور لوگ ازخود روزانہ شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں جلوس نکالتے تھے۔ انتظامیہ ان مسلسل جلوسوں کے سامنے بے بس ہو چکی تھی۔ عوامی ردِّعمل کا خوف اس قدر تھا کہ اعتزاز احسن جیسے روشن دماغ پارٹی چھوڑ گئے تھے اور مصطفی کھر اور حنیف رامے کے ساتھیوں پر جو بھٹو دَور میں گزری تھی، وہ خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے۔ حبیب جالب سمیت، تمام قوم پرست رہنما غداری کے مقدمے میں حیدرآباد جیل میں قید تھے۔ تحریک پہلے ماہ صرف کراچی اور حیدر آباد تک محدود رہی، یہاں تک کہ وہاں کے لوگوں نے ٹرین کے ذریعے پنجاب والوں کو چوڑیوں کے تحفے بھیجنا شروع کر دیئے۔ پنجاب کی خامشی کا غلط مطلب لیتے ہوئے بھٹو نے جی کڑا کر کے 9 اپریل کو پنجاب اسمبلی کا اجلاس بلا لیا۔ اس دن مال روڈ پر جو ہنگامہ ہوا وہ خوفناک تھا۔ یوں لگتا تھا پورا علاقہ احتجاج کرنے والوں کے کنٹرول میں ہے اور پولیس خوفزدہ تماشائی۔ چند دن بعد پیپلز پارٹی کے ورکروں نے میکلوڈ روڈ کے ایک جلوس پر رتن سینما سے فائر کھولا، عوام گولیوں کی بوچھاڑ میں چھت کی طرف دوڑے اور فائر کرنے والوں کو کئی سو فٹ سے نیچے پھینک دیا۔ اب انتظامیہ بالکل ناکام ہو چکی تھی۔ تین شہروں کراچی، لاہور اور راولپنڈی میں فوج بُلا لی گئی۔ انارکلی کے سامنے مسلم مسجد کے سائے میں فوجی جوان بیٹھے تھے، جنہوں نے سڑک کے اس پار لائن کھینچ رکھی تھی کہ اس سے آگے بڑھے تو فائر کھول دیا جائے گا۔ بپھرا ہوا ہجوم جیسے ہی قمیضوں کے بٹن کھول کر آگے بڑھا، میں نے خود اس ہجوم کی ہیبت ان جوانوں پر طاری ہوتے دیکھی ہے۔ فوج نے عوام پر گولی چلانے سے انکار کر دیا۔ اب ذوالفقار علی بھٹو کا ایوان وزیر اعظم سے نکلنا اس لئے بھی ضروری ہو چکا تھا کہ اس کے وہاں مزید رہنے سے جو حالات پیدا ہو رہے تھے وہ خطرناک سے زیادہ خوفناک تھے۔ بھٹو کی ٹیم اور مفتی محمود کی ٹیم کے آپس کے مذاکرات کامیاب ہوئے تھے یا نہیں، یہ معاملہ آج بھی تصدیق مانگتا ہے۔ لیکن بھٹو کو ایوان وزیر اعظم سے نکالنے کیلئے اب کسی فرشتے نے آسمان سے نہیں اُترنا تھا۔ یہ کام صرف ضیاء الحق کر سکتا تھا۔ 5 اور 6 جولائی کی درمیانی شب اسے نکال کر مری ریسٹ ہائوس میں منتقل کر دیا گیا۔ ضیاء الحق نوے دن کے وعدے پر برسرِاقتدار آیا لیکن پھر اس کے بعد ملک میں صرف ایک فقرے کی گونج باقی رہ گئی، جو ایک قوم پرست جمہوری رہنما خان عبدالولی خان نے ضیاء الحق کو بولا تھا، ’’دیکھو قبر ایک اور مردے دو، تم لیٹو یا ذوالفقار علی بھٹو‘‘۔ ظاہر بات ہے اپنی موت کے پروانے پر کون دستخط کرتا ہے۔