ریڈیو پاکستان پشاور کی تباہی بھی قومی سانحہ سے کم نہیں۔ کہا گیا تھا کہ ریڈیو پاکستان پشاور پر حملہ کے مرکزی ملزم آصف خان کی نشاندہی ہو چکی ہے مگر ابھی تک وہ بھی گرفتار نہیں ہوا۔ پوری قوم نو مئی کے واقعات کی بھرپور مذمت کر رہی ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اصل ملزمان کو فوری گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دی جائے اور جو ملزمان شک کی بناء پر یا پھر سیاسی حوالے سے گرفتار ہوئے ہیں ان کو رہا کر دینا چاہئے۔ یہ حقیقت ہے کہ ریڈیو پشاور کی تاریخی عمارت اور تاریخی ریکارڈ شرپسندوں نے تباہ کیا جبکہ ریڈیو ملازمین کے حوصلے حکومت نے خود ڈھا دیئے ہیں۔ ریڈیو پاکستان کے ملازمین اور پنشنرز کو تین ماہ سے تنخواہ نہیں ملی۔ جس کے باعث وہ سراپا احتجاج ہیں۔ گزشتہ روز ریڈیو پاکستان ملتان کے پنشنرز نے پنشن نہ ملنے پر مظاہرہ کیا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ ہوشربا مہنگائی کے اس دور میں پنشنرز کہاں جائیں؟ اُن کا کہنا تھا کہ باقی تمام محکمہ جات کو تنخواہیں بھی مل جاتی ہیں اور پنشن بھی مگر ریڈیو کے ملازمین سے ہمیشہ سوتیلی ماں کا سلوک ہوتا ہے۔ وزیرِ اعظم شہباز شریف نے 25 مئی کو ریڈیو پشاور کا دورہ کرتے ہوئے کہا کہ شرپسندوں نے ریڈیو پاکستان پشاور کی عمارت کو بہت نقصان پہنچایا، 100 سال سے زائد کی ریکارڈنگز اور آرکائیو جلا دیئے گئے، ریڈیو پاکستان کے ملازمین کے حوصلے کو داد دیتا ہوں، فنڈز 48 گھنٹوں میں فراہم کر دیئے جائیں گے۔ مگر افسوس کہ وزیر اعظم کے اعلان کے باوجود ابھی تک نہ صرف ریڈیو پاکستان پشاور بلکہ پورے ملک کے ملازمین اور پنشنرز کو تنخواہ نہیں ملی۔ ریڈیو پشاور کے دورے پر وزیر اعظم کا یہ کہنا درست تھا کہ ریڈیو پشاور اسی عمارت سے 14 اگست 1947 کو آزادی کی صدائیں بلند ہوئیں، ریڈیو پاکستان پشاور نے ہی مملکت خداداد کی آزادی کا اعلان کیا،نو اور دس مئی کو دلخراش واقعات نے پاکستانی عوام کو رنجیدہ کیا۔ اس بات سے ریڈیو کی اہمیت بھی اجاگر ہوتی ہے جسے نامعلوم وجوہات کی وجہ سے اسلام آباد میں بیٹھی بیورو کریسی نے نظر انداز کیا ہوا ہے۔ وزیر اعظم کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ قومیں اپنے قومی ورثے کی حفاظت کرتی ہیں۔ ریڈیو پشاور کا ایک سو سال کا تاریخی ریکارڈ ضائع ہوا ہے، اس پر کارروائی ضروری ہے۔ 9 مئی کے واقعات میں ریڈیو پاکستان پشاور کا ذکر ہوا ہے تو تاریخی طور پر یہ بتاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ پاکستان میں سب سے پرانا ریڈیو سٹیشن پشاور ہے۔ ریڈیو ابلاغ کا موثر ذریعہ ہے ، جس کی آواز لہروں کے ذریعے پہاڑوں ، صحراؤں اور دریاؤں اور سمندر میں بھی سنائی دیتی ہے ۔ بر صغیر میں ریڈیو کا آغاز 1921ء میں ہوا ، ہمارے علاقے میں پشاور پہلا ریڈیو اسٹیشن ہے کہ 1930 کے اوائل میں لندن میں گول میز کانفرنس ہوئی ، صوبہ سرحد کی نمائندگی کرنے والوں میں سردار عبدالقیوم خان بھی شامل تھے ۔ وہاں ریڈیو کے موجد مارکونی بھی آئے ہوئے تھے ، سردار عبدالقیوم خان نے ان سے درخواست کی کہ وہ ہمارے صوبے کیلئے ریڈیو کا تحفہ دیں ، چنانچہ انہوں نے درخواست قبول کر لی اور پشاور میں ریڈیو اسٹیشن قائم ہو گیا ۔ دہلی میں 1936ء میں ریڈیو کا قیام عمل میں آیا ۔ قیام پاکستان کے موقع پر کراچی میں پہلا ریڈیو اسٹیشن فوجی بیرک میں قائم کیا گیا ، 6جولائی 1951ء کو کراچی کا ریڈیو اسٹیشن اپنے بلڈنگ میں منتقل ہوا ، حیدر آباد ریڈیو اسٹیشن 17 اگست 1955ء قائم ہوا۔ ریڈیو پر توجہ کی ضرورت ہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں ریڈیو سننے والے سامعین کے ریڈیو سامعین کلب اور ریڈیو سامعین تنظیمیں قائم ہیں جو مقامی طور پر ان نشریاتی اداروں کو مل بیٹھ کر سنتے ہیں اور ریڈیو کے حوالے سے مختلف تقریبات کا انعقاد کرتے ہیں۔ کئی ریڈیو سامعین ان نشریاتی اداروں کی فریکیونسی پر آواز کے معیار کے حوالے سے ان نشریاتی اداروں کو آگاہ کرتے ہیں جو ان اداروں کی نشریات کی آواز کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں، ایسے سامعین کو ڈی ایکسر کہا جاتا ہے اور ایسے سامعین کی جانب سے نشریاتی اداروں کو روانہ کی جانے والی رپورٹ کو ریسیپشن رپورٹ کہا جاتاہے، کئی بین الاقوامی نشریاتی اداروں نے پاکستان سمیت دنیا بھر میں اپنی نشریات کی بہتری اور اس کے معیار کو جانچنے کے لیئے ریڈیو سامعین کو ٹیکنیکل مانیٹر مقرر کیا ہوا ہے جنہیں باقاعدہ نشریاتی اداروں کی جانب سے معاوضہ بھی دیا جاتا ہے جب کہ پروگراموں کی سامعین میں مقبولیت اور رائے اور ان میں بہتری کی تجاویز کے حصول کے لئے پروگرام مانیٹر بھی مقرر کیے جاتے ہیں۔ ریڈیو ٹیلنٹ پیدا کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے ، مگرافسوس کہ زبوں حالی کا شکار ہے ، حکومت فوری توجہ کرے اور فنڈ مہیا کرے ۔ یہ حقیقت ہے کہ ریڈیو پاکستان نے بڑے بڑے لوگ پیدا کئے ۔ اب بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ ریڈیو کو ایک بار پھر سے زندہ کیا جائے۔ پی ٹی وی پر بہت خرچہ آرہا ہے اور بجلی بلوں میں پی ٹی وی ٹیکس کی جبری وصولی سے ہر ماہ پی ٹی وی کو اربوں روپے حاصل ہوتے ہیں مگر افادیت کم ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ غریب عوام سے کسی طرح کی جبری وصولی نہ کی جائے بلکہ حکومت اداروں کو اپنے پائوں پر کھڑا کرے۔ ریڈیو کی تاریخ پر غور کرتے ہیں تو ریڈیو پاکستان کی دنیا میں زیڈ اے بخاری بہت بڑا نام ہے ، زیڈ اے بخاری پطرس بخاری کے بھائی تھے ، انہی کی وجہ سے ریڈیو پاکستان کو بہت مقام حاصل ہوا اور ان کی کتاب ’’ سرگزشت ‘‘ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے ، ریڈیو کی عسکری اہمیت سے کسی بھی لحاظ سے انکار نہیں کیا جا سکتا ، امید ہے کہ وزارت اطلاعات کے موجودہ دور میں ریڈیو کو ایک بار پھر سے زندہ کیا جائے گا مگر یہ اطلاعات صرف اطلاعات ہی رہتی ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ (ن) لیگ پر الزام ہے کہ اُن کا دور ملازمین کے حق میں کبھی بہتر نہیں رہا۔ خصوصاً ملازمین کو وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے یہی شکوہ رہتا ہے کہ وہ خوش دلی کے ساتھ ملازمین کی تنخواہوں کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ ریڈیو پاکستان کے ملازمین نے خصوصی طور پر اس کا ذکر کیا ہے۔ وزیر اعظم نے جس طرح ریڈیو پشاور کے دورہ کے دوران ایکشن لیا ہے تو ضروری ہو چکا ہے کہ وہ اپنے احکامات پر فوری عمل کرائیں تاکہ ملازمین اور پنشنرز کے چولہے جل سکیں اور ان کی بھی عید ہو سکے۔