Common frontend top

اوریا مقبول جان


سی آئی اے: اب کیا کر سکتی ہے


بر اعظم افریقہ کی بدقسمتی اس کی غربت و افلاس نہیں بلکہ اس کا دُنیا بھر میں معدنیاتی اور زرعی دولت سے مالا مال ہونا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چھوٹے سے چھوٹے ملک نے بھی افریقہ کے علاقوں پر قبضہ کیا، وہاں سے لوگوں کو پکڑ کر غلام بنایا اور ان کی معدنی و زرعی دولت لوٹ کر خود کو خوشحال بنایا۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد یورپ کی اس ظالمانہ نشست پر امریکہ آ کر بیٹھ گیا۔ پہلے یورپی ممالک افواج کے ذریعے کالونیاں بناتے تھے، اب امریکہ نے اپنی فوجی طاقت کو پسِ پردہ رکھ کر معاشی
بدھ 13 اپریل 2022ء مزید پڑھیے

بھوک برداشت۔ توہین نہیں

منگل 12 اپریل 2022ء
اوریا مقبول جان
تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ انقلابِ فرانس کے دس سالوں کے دوران، فرانس میں غربت اور بے روزگاری اپنے عروج پر تھی۔ صرف پیرس شہر میں چھ لاکھ سے زیادہ فقیر تھے، جو ہر راہ چلتے ہوئے صاحبِ حیثیت شخص کا ملبوس پکڑ لیتے تھے۔ اسی لئے فرانس میں بھیک مانگنے کے ’’آداب‘‘ کے حوالے سے ایک ایسا قانون نافذ کیا گیا، جس کے تحت کوئی بھکاری صرف آواز لگا کر، گا کر یا ہاتھ پھیلا کر مانگ سکتا تھا لیکن اگر وہ کسی ’’شریف‘‘ شخص کے دامن کو تھامے گا تو یہ ایک قابلِ دست اندازی پولیس
مزید پڑھیے


’’سر ترے زانو پہ تھا اور مجھ کو یاد آیا کوئی‘‘

جمعه 08 اپریل 2022ء
اوریا مقبول جان
اقتدار کی خصلت میں آمریت رکھی ہوئی ہے۔ خواہ کوئی بادشاہ یا آمر فوج کے ذریعے علاقوں کو فتح کرے، اپنے ہی ملک پر قبضہ کرے، یا پھر جمہوری انداز میں لوگوں کے ووٹوں سے منتخب ہو کر مسندِ اقتدار پر قابض ہو جائے۔ گذشتہ صدی کے مشہور برطانوی فلاسفر اور ادیب برٹینڈ رُسل (Bertrand Russell)کی ایک کتاب ہے جس کا نام "Power" ہے۔ انگریزی اور اُردو دونوں میں اس لفظ کے معانی اور مطالب کے اعتبار سے لاتعداد مترادفات ہیں۔ جن میں قوت، طاقت، برتری، غلبہ اور حاکمیت وغیرہ شامل ہیں۔ رُسل کی کتاب اس فلسفے کے گرد گھومتی
مزید پڑھیے


سپریم کورٹ: ایک اور بغاوت کیس کی گونج…… (2)

جمعرات 07 اپریل 2022ء
اوریا مقبول جان
میمو گیٹ سکینڈل کیس سپریم کورٹ کی تاریخ کا ایسا کیس تھا جس کے مدعیان میں حکومت نہیں بلکہ اہم سیاسی رہنما، نواز شریف، اسحاق ڈار، اقبال ظفر جھگڑا، جنرل عبدالقادر بلوچ اور غوث علی شاہ شامل تھے۔ مسلم لیگ (ن) کے ہاتھ میں میمو گیٹ کی صورت ایک ایسا ہتھیار آ چکا تھا جس کے ذریعے وہ پیپلز پارٹی کے آصف زرداری کی سیاسی دُکان بند کروانا چاہتے تھے۔ چند سال پہلے ہونے والا ’’میثاقِ جمہوریت‘‘ دفن ہو چکا تھا۔ پاکستانی عدلیہ کی تاریخ میں پہلی دفعہ تین ہائی کورٹوں کے چیف جسٹس صاحبان، جسٹس مشیر عالم (سندھ)، جسٹس
مزید پڑھیے


سپریم کورٹ: ایک اور بغاوت کیس کی گونج

بدھ 06 اپریل 2022ء
اوریا مقبول جان
سپریم کورٹ میں جب سپیکر کے فیصلے کے خلاف دلائل تقریباً ختم ہو گئے اور وکلاء عدالت کو ایسا کوئی راستہ نہ دکھا سکے جسے اختیار کر کے سپریم کورٹ اس دیوار کو پھلانگ سکے، جو آئین کے آرٹیکل 69 نے پارلیمنٹ کی بالادستی کے قیام کے لئے سپیکر کے اقدامات کے گرد تعمیر کر رکھی ہے۔ بے بسی کے اس لمحے میں بحث کا رُخ ایک خطرناک موڑ اختیار کر گیا اور عدالت کے سامنے وزیر قانون کا وہ الزام زیر بحث آ گیا جس میں پارلیمنٹ کے سامنے ایک عالمی سازش کا ذکر تھا۔ اس کے ساتھ ہی
مزید پڑھیے



تمہیں نے دَرد دیا ہے، تمہی دوا دو گے

منگل 05 اپریل 2022ء
اوریا مقبول جان
پاکستان کی آئینی تاریخ میں ’’پارلیمنٹ کی بالا دستی‘‘ ایک ایسا تصور ہے کہ جس کی چھائوں تلے سیاست دانوں نے آئین تخلیق کرتے ہوئے یا پھر اس میں ترامیم کرتے ہوئے، اپنے سینوں میں دبی ہوئی ’’خودمختاری‘‘ کی خواہش کا اظہار کرنے کی ہمیشہ کوشش کی ہے۔ خواہش یہ ہے کہ ہم سیاست دان، عدلیہ سے برتر ہیں اور کوئی ہمیں قانون کے کٹہرے میں لا کر کھڑا نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ آئین کی وہ دفعات جو پارلیمنٹ کے طریقِ کار سے متعلق ہیں، ان میں سے دفعہ (2)69 میں لکھ دیا گیا کہ ’’مجلسِ شوریٰ
مزید پڑھیے


موجودہ سیاسی بھونچال ( تاریخ کے تناظر میں) …(آخری قسط)

جمعه 01 اپریل 2022ء
اوریا مقبول جان
معاہدہ تاشقند وہ مرحلہ تھا جس کے بعد امریکہ کو یہ احساس ہوا کہ ایوب خان اپنی افادیت کھو چکا ہے، اب فیصلہ ہوا کہ اس کے متبادل کو عوامی مقبولیت کی سیڑھی پر چڑھایا جائے۔ پاکستانی سفیر جمشید مارکر اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ تاشقند میں ملاقاتوں کے دوران روسی وزیر خارجہ، پوڈ گورنی ذوالفقار علی بھٹو سے ہاتھ نہیں ملاتا تھا اور کھنچا کھنچا رہتا تھا۔ ایوب خان کو جب یہ روّیہ عجیب لگا تو اس نے پوڈ گورنی سے پوچھا، ایسا کیوں؟ تو اس نے جواب دیا، ’’آپ کا وزیر خارجہ ہمارے درمیان ہونے والی گفتگو
مزید پڑھیے


موجودہ سیاسی بھونچال ( تاریخ کے تناظر میں) (5)

جمعرات 31 مارچ 2022ء
اوریا مقبول جان
اقتدار کی ہوسناکی عجیب ہوتی ہے۔ پاکستانی تاریخ کے تین اہم کردار سکندر مرزا، جنرل ایوب اور ذوالفقار علی بھٹو جو امریکی آشیرباد اور اپنی ’’مخصوص‘‘ مہارتوں کی وجہ سے ایک ساتھ اقتدار میں پہنچے تھے اور جن کی جدوجہد بھی بظاہر یکساں اور مربوط نظر آتی تھی، مگر اقتدار کی کشمکش نے ان تینوں کو وقت کے ساتھ ایک دوسرے کے مقابلے میں لا کھڑا کیا۔ اکتوبر کے مارشل لاء سے پہلے جون 1958ء میں، بقول قدرت اللہ شہاب ’’میں اپنے دفتر میں بیٹھا کام کر رہا تھا کہ سکندر مرزا میرے دفتر میں داخل ہوا، پریزیڈنٹ ہائوس کی
مزید پڑھیے


موجودہ سیاسی بھونچال ( تاریخ کے تناظر میں) ……(4)

بدھ 30 مارچ 2022ء
اوریا مقبول جان
پاکستان اب امریکی بالا دستی کے شکنجے میں جکڑا جا چکا تھا۔ اس کی فوج اور بیوروکریسی اپنی بنیادی تربیت اور اپنے برطانوی ہند فوج والے ماضی کی وجہ سے شروع دن سے ہی برطانیہ کی ذہنی غلام تھی اور اس کے لئے امریکہ کو آقا تسلیم کرنا ایک فطری عمل ثابت ہوا۔ سیاسی اشرافیہ بھی چونکہ انہی لوگوں کی بنائی ہوئی تھی، اس لئے اسے بھی اپنے ڈھب پر لانے میں زیادہ مشکل پیش نہ آ سکی۔ 14 اکتوبر 1955ء کو ون یونٹ کے اعلان اور مشرقی و مغربی پاکستان کو دو برابر کی اکائیاں بنانے میں جو راز
مزید پڑھیے


موجودہ سیاسی بھونچال (تاریخ کے تناظر میں) …… (3)

منگل 29 مارچ 2022ء
اوریا مقبول جان
اسلامیان ہند کے عظیم الشان اجتماع لاہور میں 23مارچ 1940ء کی قرار داد پیش کرنے کا شرف جس مولوی ابوالقاسم فضل حق کو ملاوہ پکارتا چلا گیا کہ اس ملک کی بنیادوں میں اس کی آرزوئیں‘امنگیں موجود ہیں‘اس کی عمر بھر کی توانائیاں اس کے قیام کی جدوجہد کے لئے صرف ہوئی ہیں، وہ اس ملک سے علیحدگی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔لیکن اس کی آواز نقار خانے میں طوطی کی صدا ثابت ہوئی‘ کیونکہ اس سے منسوب کردہ جھوٹا بیان نیو یارک ٹائمز میں شائع ہوا تھا۔پاکستان امریکہ کے عشق میں تو گرفتار تھا‘اس لئے محبوب کو
مزید پڑھیے








اہم خبریں